صفورا کو جیل، دیویندر کو بیل

اسجد عقابی
جب انسانیت مردہ ہو جائے اور دلوں میں نفرت گھر کر جائے تو ناانصافی، ظلم و ستم، عداوت، بغض، کینہ، حسد سب کچھ اس دل میں سما جاتا ہے۔ ایسے ایسے ناپاک عزائم، قابلِ شرم اور غیر انسانی افعال انجام دیئے جاتے ہیں جن کا تصور شریف اور نیک صفت انسانوں کے معاشرہ میں ممکن نہیں ہے۔ ایسے معاشرے میں انصاف کی جگہ نا انصافی اور عدل کی جگہ ظلم کا بازار گرم ہوجاتا ہے، جب ظلم اور زیادتی کا معاشرے کو روگ لگ جائے تو پھر وہاں امن و امان اور چین و سکون غارت ہوجاتا ہے۔ایسا ہی سب کچھ ہمارے ملک ہندوستان میں ہمیں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے، جب کسی معصوم کو نفرت و تعصب کی بھینٹ چڑھایا گیا ہو، بلکہ یہ طویل ترین تاریخ اور انصاف کا سیاہ ترین باب ہے۔ ہزاروں نوجوانوں کو شک کی بنیاد پر گرفتار کیا جاتاہے اور پھر بیس بیس سال جیل کیلئے سلاخوں کے پیچھے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ لیکن اس بار تو ایسا ہوا کہ ایک معصوم کو دہشت گرد بنا کر پیش کیا گیا جبکہ وہیں دوسرے دہشتگردوں کے ساتھی کو ضمانت پر چھوڑ دیا گیا۔
صفورا زرگر کا قصور یہ تھا کہ اس نے انصاف کی بات کی، ظلم کے خلاف آواز اٹھائی، انسانیت کا ساتھ دیا۔ انسانیت کے دشمنوں کو للکارا، دیش کی سلامتی کی دعائیں کی، کالے قانون کے خلاف احتجاج کیا، جمہوری اقدار و روایات کو برقرار رکھنے کی کوشش کی، اپنے جمہوری حقوق کا استعمال کیا۔ عوام کی فلاح و بہبود کے خواب دیکھے۔ اور یہ سب کچھ اس نے ایسے وقت میں کیا، جب چہار جانب وحشیوں کا ٹولہ آزاد پھر رہا تھا۔ جب انسانی لبادے میں بھیڑیئے کھلے عام سڑکوں پر خون بہا رہے تھے جب انسانیت کے رکھوالوں کو انسانیت کا دشمن کہہ کر پس زنداں کیا جارہا تھا یا پھر انہیں گھیر کر سڑکوں پر موت کی آغوش میں سلانے کے منصوبے بنائے جارہے تھے۔ صفورا زرگر کو دہلی پولس نے گرفتار کیا، یکے بعد دیگرے اس پر مقدمات اور دفعات بڑھائے گئے۔ سنگین سے سنگین الزامات کی طویل کڑی کو اس معصوم سے جوڑ دیا گیا، اس کے ساتھ ساتھ چند افراد نے اس کے عفت و پاکدامنی پر انگلی اٹھائے۔ ملک کی اس بہادر بیٹی کے خلاف متحدہ طور پر پروپیگنڈہ چلایا گیا۔ لیکن انسانیت کے نام لیوا خاموش تماشائی بنے بیٹھے رہے۔ خواتین کمیشن اور عورتوں کی آزادی کا نعرہ بلند کرنے والی تنظیموں کی حقیقتیں بھی سامنے کھل کر آگئیں۔ عدالت میں کوشش بسیار کے باوجود اس معصوم کو ضمانت نہیں مل سکی ہے۔ معصوم حاملہ طالبہ کی جرات کو سلام کہ آج بھی وہ حقوق کی خاطر ڈٹی ہوئی ہے۔ نہ خوف زنداں نہ ڈر کسی ظلم کا ہے۔
وہیں دوسری طرف ہمارے پیارے ملک میں، ایک بڑے افسر کی اچانک گرفتاری ہوتی ہے۔ پورے ملک میں سناٹا چھا جاتا ہے۔ میڈیا کے منھ پر تالا لگ گیا۔ حکومت مکمل طور پر خاموش ہوجاتی ہے۔ دہشتگردوں کے ساتھ گھومنے والا، دہشت گردوں کی مہمان نوازی کرنے والا، دہشت گردوں کو بسہولت ایک مقام سے دوسرے مقام پر پہنچانے والا، دہشت گردوں کو پناہ دینے والا، دہشت گردوں کے ساتھ منصوبہ بندی کرنے والا، دہشت گردوں سے مل کر اپنے ہی ملک سے غداری کرنے والا، بے ضمیر، ضمیر فروش، مفاد پرست، غدار وطن کے ساتھ تعلقات بڑھانے والے دیویندر سنگھ کو ضمانت مل گئی ہے، کیونکہ دہلی پولس 90 دنوں بعد بھی اس کے خلاف چارج شیٹ فائل نہیں کرسکی ہے۔ اب یہ دیکھنے والی بات ہے کہ ایک طرف ایک طالبہ کو لوک ڈاون کے درمیان دہلی پولس اٹھا کر لے جاتی ہے، اس کے ساتھ کئی اور طالب علموں کو انہیں ایام میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا جاتا ہے جبکہ رنگے ہاتھوں پکڑے گئے دیویندر سنگھ کے خلاف چارج شیٹ تک فائل نہیں کرسکی ہے۔
یہ دو واقعات، دو طرح کے فیصلے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ اب آگے عدالت کیا کرتی ہے یہ تو آئندہ ہی معلوم ہوگا۔ لیکن اتنا تو طے ہے کہ جو کچھ ہورہا ہے اور جن کی پشت پناہی حاصل کرکے ایسے غیر منصفانہ فیصلے کئے جارہے ہیں وہ ہمارے ملک کی روح کے خلاف ہے۔ ہم اس ملک کے باشندے ہیں جہاں چشتی نے وحدت کے نغمے سنائے ہیں۔ نانک نے محبت کا پیغام عام کیا ہے۔ صوفی رشی کی اس سرزمین کو ایسے غیر منصفانہ فیصلوں سے صرف نقصان ہوسکتا ہے۔ عوام کے ذہنوں میں بھی پولس اور عدلیہ کا رویہ مشکوک ہوگیا ہے جو جمہوریت کے لیے نقصاندہ ثابت ہوگا صفورہ ہاتھ میں قلم لے کر احتجاج کرتی ہے تو اسے دہشت گردی کے زمرے میں رکھا جاتا ہے اور وہیں جامعہ و شاہین باغ پر گولی چلانے والوں کو ذہنی معذور بنانے کی کوشش کی جاتی ہے حقیقت میں ذہنی معذور تو انصاف کی دیوی اور جس کے حکم پر انصاف کا قتل کیا جارہا ہے وہ لوگ ہیں جو ظالموں کی پشت پناہی کررہے ہیں اور مظلوموں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں تاریخ شاہد ہے ظلم و ستم کا تاریک دور ختم ہوکر ہی رہتا ہے اور جلد یہاں بھی یہ دور ختم ہوگا اور ظالم اپنے کئے پر پچھتائیں گے ان شاء اللہ، کیونکہ اللہ کو ظلم ہر گز ہرگز پسند نہیں ہے اللہ ظالموں کی پکڑ جلد کرتا ہے۔
Comments are closed.