ہند چین تنازعہ؛ دیش بھکتی کہاں گئی

ڈاکٹر عابد الرحمن (چاندور بسوہ)
چین نے ہمارے افسراور جوانوں پر مشتمل بیس فوجی شہید کردئے ، ان کی شہادت کو سلام ۔بتایا جارہا ہے کہ یہ واقعہ لداخ کے اس علاقے میں ہوا جو غیر متنازعہ طور پر ہمارا حصہ ہے ، ۱۹۶۲ کی ہند چین جنگ کے بعد سے ہمارے پاس ہے اور اس پر ہمارا ہی انتظام و انصرام چلتا ہے ۔ ہمارے فوجیوں کی اس شہادت کی یہ خبر دراصل ان خبروں کے سلسلہ کی ایک تشویشناک کڑی ہے جو پچھلے کچھ دنوں سے مسلسل آ رہی تھیں کہ چین ہماری سرحد کے پاس فوجیوں کی تعداد بڑھا رہا ہے اور فوجی بنکر بھی بنارہے ہیں ایسی بھی خبریں آئی تھیں کہ چین ہماری سرحد میں آٹھ سے دس کلومیٹر تک اندر گھس آیا ہے ۔ لیکن یہ سب خبریں مین اسٹریم میڈیا نہیں بلکہ دفاعی معاملات کے ایکسپرٹس اور ہند چین سرحد پر نظر رکھنے والے لوگ یہ بتارہے تھے ۔ میڈیا میں جس خبر کا شور اٹھا تھا وہ یہ تھی کہ دونوں فوجوں کے جنرل افسروں کی میٹنگ کے بعد چینی فوج واپس ہٹ گئی، اس خبر میں یہ بات بھی پنہاں تھی کہ چینی فوج واقعتاً ہماری سرحد میں گھس آئی تھی ۔ لیکن ہندو مسلم کے معاملہ میں دن بھرچینخنے چلانے والے اور نت نئے سوالات اور نت نئے اشوز گھڑ نے والے میڈیا اینکروں نے یہ نہیں پوچھا یا اپنے طور پر اس کی کھوج نہیں کی کہ آخر چینی افواج ہمارے علاقوں میں کہاں تک گھس آئی تھی اور کتنا پیچھے ہٹی ؟چینی افواج کے پیچھے ہٹنے کی خبر ایسی چلی تھی جیسے اس نے ہمارا پورا علاقہ خالی کردیا ہو لیکن ہمارے بیس جوانوں کی شہادت کے معاملہ میں بتایا جا رہا ہے کہ یہ واردات اس علاقے میں ہوئی جو ہمارا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اول تو چینی افواج ہمارے علاقے میں ہیں اور دوم ان کے پیچھے ہٹنے کی خبر یا تو جھوٹ ہے یا پھر وہ ہماری سرحدوں سے پوری طرح پیچھے نہیں ہٹی یعنی وہ اب بھی ہمارے علاقوں پر قابض ہے ۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ چین کی گھس پیٹھ کی یہ چال رہی ہے کہ وہ چار قدم آگے بڑھتا ہے پھر امن کے نام پر دو قدم پیچھے لوٹ جاتا ہے اس طرح باقی دو قدم پر اپنا قبضہ بنائے رکھتا ہے کہا جاتا ہے کہ ۱۹۶۲ کی جنگ میں بھی اس نے یہی کیا تھا ۔ تو کیا اب بھی اس کی یہی چال ہے ؟ کیا اس نے اب بھی ہماری زمین پر قبضہ کرلیا ہے ؟ لیکن یہ سوال کون پوچھے گا ، میڈیا اور سوشل میڈیا میں حلق پھاڑ پھاڑ کر سوال کرنے والے اس ضمن میں خاموش ہیں ۔ اس معاملہ میں میڈیا اور سوشل میڈیا میں دیش بھکتی کا طوفان امڈا اور نہ ہی سرکار کے نمائندوں کی زبانیں دراز ہوئیں ۔ بلکہ ہر معاملے میں حکومت سے سوال کرنے والوں کو لعن طعن کرنے کا جو سلسلہ ملک میں چل پڑا ہے اسے اس معاملے میں بھی کھینچتے ہوئے سوال کرنے والوں کو اس لطیفے کے ذریعہ تضحیک کا نشانہ بنا یا جا رہا ہے کہ ’ دو دن پہلے سب کورونا ایکسپرٹ تھے ، کل تک سب ڈپریشن ایکسپرٹ تھے اب دیکھنا سب ڈیفینس ایکسپرٹ ہو جائیں گے ۔‘ہند چین سرحد پر جو کچھ چل رہا ہے وہ زائد ازایک ماہ سے چل رہا ہے لیکن اس کی حقیقت کیا ہے اور واقعتاً کیا چل رہا ہے اس کا اندازہ تو اس وقت ہوا جب پہلے ہمارے ایک کرنل اور دو جوان شہید ہو گئے ، پھر معلوم ہوا کہ شہید ہونے والے جوانوں کی تعداد بیس ہے اور اس کے بعد معلوم ہوا کہ چین نے ہمارے دس جوانوں کو رہا کردیا، یعنی ہمارے جوان قیدی بھی بنائے گئے تھے ۔ اس ضمن میں ہماری منافقت اور کھوکھلی دیش بھکتی کی یہ گھناؤنی صورت سامنے آئی کہ ہم نے اس معاملے میں شہید جوانوں کو وہ شردھانجلی نہیں دی جو ہم ، آتنک وادی حملوں میں یا انڈیا پاک سرحد پر شہید ہونے والوں کو دیتے آئے ہیں۔ نہ سرکاری حلقوں میں غم و غصہ کا ماحول دکھا نہ اعلانات و بیانات آئے ، نہ سوشل میڈیا کے جنگجوؤں نے چین کے خلاف حلہ بولا ، ہاں یہ ہو رہا ہے کہ چین کے معاشی بائیکاٹ کی باتیں ہو رہی ہیں لیکن وہ بھی ٹک ٹاک اور چین کی بنی دوسری موبائل اپلیکیشنس ڈلیٹ کرنے تک ہی محدود ہیں۔ ہمارے ملک میں چینی موبائل کمپنیوں اور ان کی سرمایہ کاری والی کمپنیوں کا بڑا مارکیٹ ہے یعنی چینی موبائل اپلیکیشنس ڈلیٹ کر چین کو اربوں ڈالر یومیہ کا نقصان پہنچانے کی باتیں بھی انہی موبائلوں سے ہو رہی ہیں جو چینی کمپنیوں یا ان کی سرمایہ کاری کے ذریعہ بنائے گئے ہیں، ابھی تک ایسی کوئی خبر میڈیا یا سوشل میڈیا میں نہیں آئی کہ کسی بہادر نے چینی کمپنی کا موبائل پھینک دیا ہو ۔اسی بیچ یہ بھی خبر ہے کہ دلی میرٹھ ریل لائن کے انڈر گراؤنڈ اسٹریچ کا ٹھیکہ ایک چینی کمپنی کو ملا ہے اسی طرح گجرات میں ملک کے سب سے بڑے اسٹیل پلانٹ بنانے کا ذمہ بھی ۔حالانکہ چینی کمپنیوں سے سرکاری ٹھیکے واپس لینے کی مانگ بھی ہورہی ہیں لیکن دیکھنا ہے کہ ہماری سرکار اس پر کیا قدم اٹھاتی ہے ۔ویسے اس ضمن میں سرکار میں بھی وہ شور نہیں اٹھا جو پاکستان کے متعلق یا مبینہ اسلامی آتنک واد کے نام کیا جاتا ہے ۔ بلکہ یہ وزیر اعظم مودی جی نے تو یہ کہا ہے کہ کوئی ہماری سرحد میں نہیں گھسا اور نہ ہی کسی نے ہماری کوئی پوسٹ پر قبضہ کیا ہے ، ہمیں مودی جی پر یقین ہے لیکن سوال یہ ہے کہ پھر یہ سب کہاں ہوا ؟ کیا ہمارے جوان چینی سرحد میں گھسے تھے؟کشمیر سے دفعہ ۳۷۰ ہٹانے کے بعد سرکار کے نمائندوں نے جو بیانات دئے تھے وہ اب یہاں نہیں دکھائی دے رہے ہیں اس وقت کہا گیا تھا کہ اکسائی چین اور پاک مقبوضہ کشمیر بھارت کا ابھن انگ ہیں اور اس کے لئے ہم جان بھی دے دیں گے ۔ اس وقت تو بری فوج کے سربراہ نے بھی کہا تھا کہ پاک مقبوضہ کشمیر کے لئے ایجنڈہ تیار ہے اور اسے انڈیا کا حصہ بنا کر رہیں گے ۔ لیکن اس معاملہ میں جبکہ چین نے ہمارے فوجیوں کو شہید کیا تو بھی ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اس معاملے میں ہمارا خون کیوں نہیں کھولا ، ہماری دیش بھکتی جذباتی اور غصہ کیوں نہیں ہوئی ۔ دراصل اس معاملہ میںہمارا طرز عمل ثبوت ہے اس بات کا ہم جو دیش بھکتی دکھاتے ہیں وہ دیش بھکتی نہیں بلکہ مسلم مخالفت ہے ۔ جو سرکار اس لئے دکھاتی ہے تاکہ ہندو مسلم کر کے سیاسی فوائد بٹورسکے ،میڈیا اس لئے دکھاتی ہے کہ سرکار کا کام آسان کرے اور اکثریتی کمیونٹی اس لئے دکھاتی ہے کہ زمینی سطح تک پر مسلمانوں پر رعب جمایا جا سکے ۔
Comments are closed.