Baseerat Online News Portal

امیش دیوگن بھائی!آپ نے معافی کیوں مانگی؟

نور اللہ جاوید کا”بھارت کے سب سے بڑے ”پترکار“ امیش دیوگن کے نام کھلا خط
میرے پیارے دیوگن بھائی!
سب سے پہلے معافی مانگنا چاہتا ہوں کہ آپ ٹی وی پر ’بھارت کا سب سے بڑا شو‘ کرتے ہیں اور میں دیکھ نہیں پاتا ہوں،در اصل کمزور دل کا مالک ہوں، چیخنے و چلانے کی عادت نہیں ہے، میرے بابوجی جو اب اس دنیا میں نہیں ہیں انتہائی نرم دل اور نرم خو تھے انہیں چیخنے وچلانا برداشت نہیں تھا ان کی وجہ سے مجھے بھی نہ چیخنا آتا ہے اور نہ چیخنا برداشت ہوتا ہے۔یقینا آپ ”بدلتے بھارت“ کے ان مہان پترکاروں میں سے ایک ہیں جنہوں نے ہندوستانی پتریکا کی بھاشا اوراپروچ کو بدل کر ایک ایساپیمانہ طے کیا ہے جس کے معیار پر دنیا بھر کی پتریکا نہیں ٹکتی ہے۔ یہ گلوبل پریس فریڈم والوں کے پاس کوئی کام نہیں ہے،اس لئے فضول سی درجہ بندی کرتے رہتے ہیں کہ ہندوستان میں پریس کی آزادی روبہ زوال ہے۔انہیں معلوم ہی نہیں ہے کہ بھارت میں اپوزیشن پر تنقید کرنے اور ان سے سخت سے سخت سوالات پوچھ کر کٹہرے میں کھڑا کرنے، اقلیتوں اور پسماندہ طبقات کی کردار کشی اور انہیں کنارہ لگانے کی کتنی آزادی ہے۔شاید دنیا کا یہ واحد ملک ہے جہاں فیک نیو ز پر گھنٹوں گھنٹوں بحث کرنے کی چھوٹ ہے۔یہ پاگل لوگ ہیں جنہیں بھارت میں پریس کی آزادی کی فکر ہے۔ہرشام آپ کتنی بے باکی سے ہرناکامی کیلئے اپوزیشن پر چیختے اور چلاتے ہیں۔مسلمانوں کے تئیں نفرت کا اظہار کرتے ہیں اور مسلمانوں کی لنچنگ کیلئے ہندو نوجوانوں اکساکر مجرم بنارہے ہیں۔کوئی ہے روک ٹوک کرنے والا ہے۔اچھا ایک اور بات آپ سے پوچھنی تھی کہ آپ کے نزدیک ہندوستان کا”حدود اربعہ“اور آبادی کی شرح کیاہے؟۔کچھ تو ہوگا تبھی تو آپ اپنے پروگرام ”آر پار“ کو”بھارت کی سب سے بڑی بحث“ کہتے ہیں۔
دیوگن بھائی!
سوشل میڈیا پر جو چند ویڈیو دکھی ہیں اس میں یا تو آپ کو چلارہے ہوتے ہیں یا پھر کوئی پینلسٹ آپ کو گالی دے رہا ہوتاہے۔میری کئی دوستوں نے بتایا کہ آپ ہندی کے ”انڈیا وانٹ ٹو نیشن“ والے کی کاپی ہیں (سنا ہے وہ بھائی صاحب بھی اب ہند ی میں ”بھارت پوچھتا“ہے کرنے لگے ہیں)۔مگر سوشل میڈیا میں وائرل ہورہی ہے ایک ویڈیو دیکھی ہے جس میں آپ سنجیدگی ومتانت سے حضرت خواجہ معین الدین چشتی کو لٹیرا کہنے پر معافی مانگ رہے ہیں۔سچ بولوں …………مجھے آپ معافی مانگتے ہوئے اچھنے نہیں لگے۔آخر آپ کو معافی مانگنے کی ضرورت کیا تھی؟۔کیا راشٹروادی پترکارمعافی بھی مانگتا ہے؟۔چند ایف آئی آر سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت کیا تھی؟یہ ایف آئی آر آپ کا کیا بگاڑسکتے ہیں؟۔جب آپ کے گرو گوسوامی کی درخواست کو عدالت عظمیٰ نصف رات میں قبول کرکے صبح صبح راحت بخش سکتی ہے۔آپ بھی تو راشٹروادی پترکار ہیں؟”ونود دو ا“اور’اسکرول ڈاٹ ان‘ کی ایگزیکٹیوایڈیٹر سپریہ شرماجیسے پترکاروں کی ایسی تیسی ہونی ہے۔ ”ونود دوا“راشٹروادی حکومت کو آئینہ دکھانے چلے تھے۔سپریہ شرما کی ہمت دیکھئے وزیر اعظم کے گود لیئے گاؤں کی سچائی دکھانے چلی تھیں۔کیا یہ کم تھا اس گاؤں کو وزیر اعظم نے گود لے لیا۔اب گاؤں والوں کو حق بھی چاہیے۔ونود دوا، سپریہ شرما اور دیگر انٹی نیشنل پترکاروں کو گرہ باندھ لینا چاہیے کہ”بدلتے بھارت“ میں سچائی دکھانا،سوا ل پوچھنا جرم اوربھارت ماتا سے غداری کے مترادف ہے۔ راشٹروادی حکومت کے ترجمان و طرفداری کرنے والوں کے خلاف ایف آئی آر کوئی معنی نہیں رکھتی ہے۔
دیوگن بھائی! آپ ان لوگوں سے ڈر گئے جنہوں نے خود حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒکے ساتھ انصاف نہیں کیا ہے۔جنہوں نے چادر چڑھانے اور مافوق البشر(مہاتما)شخصیت ثابت کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔جنہوں نے خواجہ کی شخصیت پر عقیدت واحترام کا ایسا پردہ ڈال رکھا ہے کہ خواجہ کے مشن اور پیغام سے دنیا آج تک واقف نہیں ہوسکی۔آج خواجہ کے مزار پر لاکھوں کی بھیڑ ہوتی ہیں مگر کوئی ہے جو خواجہ نقش قدم چلتا ہوا نظر آتا ہے۔امن و امان، بھائی چارہ،رواداری اوراحترام انسانیت کا سبق خواجہ نے دیا۔مگر آج یہ لوگ آپس میں دست و گریباں ہیں۔خواجہ کبھی کسی درباری نہیں کی ہے اور آج یہ سب درباری ہیں، حکمرانوں کے آگے سربسجودہیں،حق بولنے سے گریزاں ہیں۔ جب یہ خودخواجہ کے ساتھ ظلم کررہے ہیں تو آپ نے لوٹیرا کہہ ہی دیا تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟۔خواجہ معین الدین چشتیؒ کی شخصیت اتنی چھوٹی بھی نہیں ہے کہ آپ کی گالی کی وجہ سے ان کی توہین ہوجائے یا پھرمعافی مانگ لینے سے ان کی شخصیت میں چار چاند لگ جائے۔وہ عظیم ہیں اور رہیں گے۔ہاں میں بھی مانتا ہوں کہاآپ کا ارادہ خواجہ کو گالی دینا نہیں تھاکسی اور کو گالی دینا چاہتے تھے۔مگر میرے بھائی گالی تو گالی ہی ہوتی ہے۔چاہے آپ خواجہ معین الدین چشتی کو دیں یا پھر علاء الدین خلجی کو دیں۔چاہے آپ ذاکر نائیک کو دیں یا پھر مولوی سعد دیں۔کردار کشی کردارکشی ہی ہوتی ہے چاہے آپ کسی کا بھی کرے۔جھوٹ تو جھوٹ ہی ہوتا ہے۔سچ نہیں ہوسکتا۔
میں بھی پترکار ہوں اور پتریکا کی جو چند کتابیں پڑھی ہیں اس میں بتایا گیا ہے کہ پترکار نہ تاریخ داں ہوتا ہے اور نہ راج نیتا۔ تاریخ کی تضادات بیانی کا سہارا لے کر کسی ایک فریق کو نہ گالی دے سکتا ہے،نہ وہ کسی سیاسی پارٹی کاترجمان ہوسکتا ہے۔پترکار غیرجانبدا ر ہوتا ہے۔جس کی ذمہ داری حالات حاضرہ سے واقف کرانا ہوتا ہے۔چھوڑئیے یہ پرانی باتیں ہیں۔ یہ”پتھرکے دور“ کی صحافت تھی جہاں اصول و اقدار اور اخلاقیات کی پرواہ کی جاتی تھی۔یہ بھارت ہے امریکہ تھوڑے ہی جہاں کا پترکار ٹرمپ کے آنکھ سے آنکھ ملاکر سوال پوچھتا ہے اور نسل پرستی پرمبنی تبصرے پر سخت سست سناتا ہے۔یہاں تو مسلمانو ں اور اقلیتوں کا گالی دینے والوں کی واہ واہی ہوتی۔نہ یہ سونیا گاندھی والا اٹلی ہے جہاں کورونا وائرس کے پھیلنے پر میڈیا میں وزیرا عظم پر تنقیدوں کی پوچھار ہوجاتی ہے اور میڈیا کے دباؤ میں جانچ کمیشن قائم ہوتا ہے اور وزیر اعظم سے 9گھنٹے تک پوچھ تاچھ ہوتی ہے کہ آخر کورونا وائرس بے قابوکیساہوا۔یہ سب بیوقوفی کی باتیں ہیں۔بھارت میں ایسی پتریکا کیلئے کوئی جگہ نہیں جس میں راشٹرواد ی وزیر اعظم سے سوال کیا جائے۔سرحد پر ناکامی ہو تو فوج ذمہ دار، ملک میں بدامنی پھیلے تو اپوزیشن ذمہ دار۔بیماری پھیلے تو تبلیغی جماعت اور مسلمان ذمہ دار۔گائے کا پیشاب سے علاج کرنے والے ملک کے مسیحا۔ انڈین ایکسپریس کے ایڈیٹر راج کمل جھا کے بقول یہ ”سلیفی جرنل ازم کا دور ہے۔جہاں وزیر اعظم کے ساتھ سیلفی ہی صحافت کی معراج ہے۔سناہے کہ صاحب کے ساتھ آ پ کی بھی سیلفی ہے۔
دیوگن بھائی! جب آپ ساورکر کو مجاہدآزادی کہہ سکتے ہیں اور ناتھو رام گوڈسے کو محب وطن کہے جانے پر خاموشی اختیار کرسکتے ہیں اور ملک کے ساتھ غداری کرنے والے ایس پی صاحب کے خلاف چارج شیٹ پیش کرنے میں تاخیرپر سوال نہیں پوچھ سکتے ہیں تو پھر آپ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ایسے تو آپ کا کوئی قصور بھی نہیں ہے۔ اپنا گھر چلانے کیلئے لکھا لکھایا اسکرپٹ کو پیش کرنا ہوتا۔میں سمجھتا ہوں کہ یہ کتنا بڑا چیلنج ہے۔ایک ہی اسکرپٹ تما راشٹرواد ی پترکاروں کو دیدیا جاتا ہے اور ہر ایک پترکار کو الگ انداز میں اسکرپٹ کو پیش کرنے کا چیلنج ہوتا ہے۔یہ احمق لوگ سمجھتے ہی نہیں ہیں۔پڑھ لکھ کر پتریکا کا دور ختم ہوچکا ہے۔ اگر کتابوں کا مطالعہ کیاہوتا توآپ ساورکر کو کبھی بھی ’ویرا‘ورمجاہد آزادی نہیں بولتے، مسلم حکمرانوں کو گالیاں نہیں دیتے ہیں،شیواجی مہاراج کے گن نہیں گاتے۔آج کل کون پڑھتا ہے۔پڑھ لکھ کر پتریکاکرنے والے پترکاروں کی ”ٹی آر پی زیرو“ ہے۔
دیوگن بھائی!آپ کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے والے کتنے بیوقوف ہیں،انہیں ایف آئی آر کا حشر معلوم ہی نہیں۔راشٹرواد حکومت ہوتے ہوئے راشٹروادی پترکاروں کا کون بگاڑ سکتا ہے؟اب پولس بھی راشٹرواد ہوچکی ہے تبھی تو دشمنوں کو ہتھیار پہنچانے والے ایس پی دیوندر سنگھ کو اور شاہین باغ میں گولی چلانے کپل گوجر ضمانت مل جاتی ہے اور سالوں کوگولی مارنے کیلئے اکسانے والے راج نیتاؤں کا کچھ نہیں بگڑتا۔بیچاری صفورہ، بنجارا بہنیں چلی تھیں ہندوستان زندہ باد کے نعرے لگانے۔اب انجام بھگت رہی ہیں۔ونود دوا اور سپریہ شرما کو بھی جیل میں جانا ہوگا۔تبلیغی جماعت والے جیل میں جائیں گے مگر کورونا کا علاج گائے کے پیشاب سے کرنے والے اور کانپور کے بچہ گھرمیں بچیوں کا ریپ اور ایڈس پھیلانے والوں کو حکومت تمغہ امتیاز سے نوازے گی اور آپ جیسے راشٹرواد پترکار خاموشی سے تالی بجائیں گے۔آج کل تالی بجانا ہی راشٹروادیوں کا شیوہ بن چکا۔پہلے تالی بجانے والیوں (والوں)پر سب ہنستے تھے۔۔جس طریقے سے آپ کی معافی جعلی ہے اسی طرح یہ ایف آئی آر درج کرانے والے بھی اپنی شہرت اور ناموری کا دھندہ کررہے ہیں۔اور دھندہ میں سب کچھ چلتا ہے۔
جاتے جاتے ایک مفت کا مشورہ ہے کہ آپ خوب چلائیے اور لوگوں کو ذلیل کیجئے مگر گالی مت سنئے۔یہ سوچ کر بہت برا لگتا ہے کہ جب آپ گالی سن کر گھر جاتے ہوں گے تو آپ کے بچے کیا بولتے ہوں کہ”پا پا آج آپ پھر گالی کھاکر آگئے ہیں“۔اورمجھے خدشہ ہے کہ کہیں میرا بھتیجا یا بھتیجی آپ کو اپنا آئیڈیل نہ بنالے۔دوسروں کے بچوں کو مجرم بناتے بناتے کہیں اپنے بچے مجرم نہ بن جائے۔ہردن شام میں ہم لوگوں کا منورنجن کرنے پر آپ کا بہت بہت شکریہ۔

آپ کا چھوٹا بھائی

Comments are closed.