دوران نماز ماسك كے استعمال كا حكم

 

ڈاكٹر مفتی محمد مصطفی عبد القدوس ندوی

(عمید كلیۃ البحث والتحقیق جامعۃ العلوم ،گڑہا   – گجرات)

 اس وقت ملك كی صورت حال سب پر عیاں ہے كہ كورونا وائرس كا خطرہ  بہت بڑھ چكا ہے ، اس میں كوئی شك نہیں ہے مریض صحتیاب بھی ہورہے ہیں ؛تاہم پوری دنیا بلكہ صرف اپنے پیارے ملك انڈیا میں  بھی مجموعی اعتبار سے  آئے دن كورونا وائرس كے مریضوں  میں اضافہ  ہوتا  ہوا نظر آرہا ہے اور اور روز افزوں اموات كی شرحیں  بھی بڑھ رہی ہیں ۔ اور اب یہ بھی كسی پر مخفی نہیں رہا كہ اس كا اثر فوری طورپر ظاہر نہیں ہوتا ہے بلكہ تقریبًا چودہ پندرہ دنوں كے بعد پتہ چلتا ہے كہ فلاں شخص اس سے متاثر ہے جبكہ وہ اس درمیا ن كتنوں كو متاثر كرچكا ہوگا ۔اب جبكہ اكثر مقامات پرلاك ڈاؤن كھل چكا ہے ، جس كی وجہ سے  جمعہ اور دیگر نمازوں  كے اوقات میں مساجد میں بھیڑ ہونا ناگزیر ہے ، جس سے  كورونا پھیلنے كا امكان بڑھ  جائےگا اوركورونا متاثرین كی تعداد میں مزید اضافہ ہوگا، جو ایك مستقل المیہ ہے ،بڑا ہی خوفناك اور  باعث تشویشناك معاملہ ہے ۔ایسی سنگین حالت میں  بہتراور   اپنی صحت وجان كی حفاظت اسی میں ہے كہ شریعت اسلامیہ كی طرف سے عطا كردہ آسانی  ورخصت كو اختیار كریں ، اور وہ یہ ہے كہ مسلمان اپنے اپنے گھروں میں ہی  عام نمازیں جماعت كے ساتھ  یا انفرادی طور پر  ادا كرنے كو ترجیح د یں اور جمعہ كے دن جمعہ كی نماز كےبدلہ ظہر كی نماز باجماعت  یا انفرادی طور پر ادا كر لیں ۔

جو لوگ مسجد جاكر ہی نماز پڑھنے كو پسند كریں تو موجودہ مجبور ی وعذر  كی حالت میں كم  تردرجہ یہ ہے كہ  مسجدوں میں اٹھنے بیٹھنے اور نماز اداكرنے كے دوران جہاں  صفوں كے بیچ میں كم سے كم  ایك سے ڈیڑھ  میٹر دوری اور آگے پیچھے دو صفوں كے درمیا ن مزید ایك صف كےفاصلہ   كو یقینی بنائیں وہیں حفاظتی تدبیر كے طور پر ماسك لگائیں۔ اب رہا سوال كہ  ماسك سے منہ اور ناك  دونوں چھپ جاتے ہیں ، اور كورونا وبائی مرض سے حفاظت كےلئے دونوں كا ڈھكنا مطلوب وضروری  بھی ہے ، ایسی صورت حال میں  آیا نمازدرست ہوگی یا نہیں ، اگر درست ہوئی تو آیا  كراہت كے ساتھ یا بلاكراہت صحیح ہوگی ؟

اس سلسلہ میں تمام  فقہاء بشمول احناف  ، مالكیہ ، شافعیہ اور راجح  وصحیح مذہب كے مطابق حنابلہ كا اس بات پر اتفاق ہے كہ نماز  كی حالت میں منہ اور ناك كا ڈھكنا مكروہ ہے ؛ اس لئے نماز كراہت كے ساتھ درست ہوگی (بدائع الصنائع:1/ 216، تبيين الحقائق للزيلعي:1: 164، رد المحتار:2/ 423، الفواكه الدواني على رسالة ابن أبي زيد القيرواني:1/ 216، الذخيرة للقرافي:13/ 264، روضة الطالبين للنووي:1/ 289،،الفروع وتصحيح الفروع لابن مفلح الحنبلي:2/ 58، الإنصاف في معرفة الراجح من الخلاف:1/ 470، الموسوعة الفقهية الكويتية:25/ 202)؛ كیونكہ رسول اللہ ﷺ نے نماز میں اس بات سے روكا ہے كہ كوئی شخص اپنے منہ كو چھبائے۔ (أخرجه أبوداود، باب السدل في الصلاة، برقم:643، وابن ماجه، باب ما يكره في الصلاة، برقم:966، وابن خزيمة في صحيحه، باب النهي في الصلاة، وابن حبان في صحيحه، ذكر الزجر عن تغطية المرأ فمه في الصلاة، برقم:2353، والحاكم في المستدرك، برقم:931، وقال: هذا حديث صحيح على شرط الشيخين، ولم يخرجاه، ووافقه الذهبي)۔  حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ كے بارے میں آتا ہے كہ وہ نماز میں ناك ڈھكنے كو ناپسند فرماتے تھے(المغني لابن قدامة:1/ 419).اور چونكہ عبادت كی حالت میں  منہ اور ناك كو چھپانے میں آگ كے پجاری مجوسی لوگوں كی مشابہت پائی جارہی ہے ؛ اس لئے كہ وہ لوگ آگ كی پرستش كرتے وقت منہ اور ناك كو  چھپاتے ہیں (بدائع الصنائع للكاساني:1/ 216، تبيين الحقائق:1/ 164). اور نیز نماز كی حالت میں منہ اور ناك كوڈھكنا ایك طرح كا دین میں غلو اور خشوع وخضوع كے منافی عمل ہے ( الفواكه الدواني على رسالة ابن أبي زيد القيرواني:1/ 216) ۔

 معلوم ہوناچاہئیے كہ نماز كی حالت میں منہ اور ناك ڈھكنے كا عمل مكروہ تحریمی ہے (رد المحتار:2/ 432)،اور یہ كراہت عام حالت سے متعلق ہے ، اس سے ضرورت حاجت  اور عذر و مجبوری كا حالت مستثنی ہے ؛ اس لئے  حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے كہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرما یا : « تم میں سے كسی كو جمائی آئے تو وہ اپنے منہ پر ہاتھ ركھ كر اسے  روكے؛  اس لئے كہ شیطان اندر داخل ہوجائے گا» ( مسلم، الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ، بَابُ تَشْمِيتِ الْعَاطِسِ وَكَرَاهَةِ التَّثَاؤُبِ، جدیث: 57 – 2995، وأبوداود، حدیث: 5026، صجیح ابن حبان، حدیث: 2360) ۔معلوم ہوا كہ حدیث میں وارد منہ ڈھكنے  كی ممانعت  عام نہیں ہے بلكہ جمائی كی حالت اس سےمستثنی ہے ، جس  سے معلوم ہوا كہ عذر كی حالت   كراہت كے حكم سے مستثنی ہے  یعنی عذر  وحاجت كے علاوہ صورتوں  كے ساتھ كراہت  خاص ومقید ہے ؛ لہذا اگر نمازی كو  كسی عذر كی وجہ سے دوران نماز منہ یا ناك  یا دونوں چھپانے كی ضرورت پڑ جائے تو نماز مكروہ نہیں ہوگی۔

مذكورہ بالا حدیث واثر كی  وجہ سے فقہاء نے لكھا ہے كہ نماز كی حالت میں منہ كا چھپانا مكروہ ہے ، ہاں جبكہ جمائی كو روكنے كے لئے ہو تو اس میں كوئی حرج نہیں ہے،”وَيكرهُ أَن يُغطي فَاه فِي الصَّلَاة إِلَّا إِذا كَانَت التغطية لدفع التثاؤب فَلَا بَأْس بِهِ” (تحفة الفقهاء:1/ 143، بدائع الصنائع:1/ 216)؛ اس لئے كہ بلاضرورت ڈھكنا مكروہ ہے "لِأَنَّ التَّغْطِيَةَ بِلَا ضَرُورَةٍ مَكْرُوهَةٌ ” (الدر المختار مع الرد:1/ 478) ۔ پس موجودہ حالات میں جبكہ كورونا كی وباء عام ہے ،  كورونا سے متاثرین میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے ، اس لئے كورونا سے بچنے كےلئے  اور اس كو پھیلنے سے روكنے كے لئےنماز كی حالت میں ماسك كا استعمال بلاكراہت درست ہوگا ؛ كیونكہ كورونا بیماری   اندیشہ   اور اس كا خوف ایك  معتبر عذر ہے ۔

Comments are closed.