Baseerat Online News Portal

چند دن محدثین وفقہاء کی بارگاہ میں!(۴)

فقیہ العصرحضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی
ترجمان وسکریٹری آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ
مغرب بعد مسعود خان صاحب جو حضرت مولانا قمرالزماں صاحب دامت برکاتہم (الٰہ آباد) سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں ہیں، اور مدینہ منورہ میں ان سے بیعت ہو چکے ہیں، کے یہاں عشائیہ کا نظم تھا، ان کے یہاں مختلف مساجد کے ائمہ، علماء اور حفاظ کی ایک اچھی خاصی تعداد جمع ہوگئی،موقع کے لحاظ سے میرا خطاب بھی ہوا، میں نے عرض کیا کہ ’’قرآن مجید میں حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعہ میں یہ بات کہی گئی ہے کہ ان کو گناہ کی دعوت دی گئی، نبی تو یوں بھی معصوم ہوتا ہے؛ لیکن ان کو اس دعوت سے متأثر ہونے سے بچانے میں جو باتیں مؤثر ہوئیں، ان میں ایک یہ بھی ہے کہ انھوں نے اپنے رب کی برہان دیکھ لی: لو لا أن راٰ برھان ربہ (یوسف: ۲۴)برہان رب سے کیا مراد ہے؟ اس سلسلہ میں کئی باتیں کہی گئی ہیں، جن کا خلاصہ یہ ہے کہ ان کے والد حضرت یعقوب علیہ السلام کی شکل ان کے سامنے آگئی، اور نبی کی اولاد ہونے کی نسبت نے ان کی دستگیری کی، تو معلوم ہوا کہ دینی نسبت انسان کو دین پر قائم رکھنے اور گناہ سے بچانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے، یہی نسبت آپ لوگوں کو حاصل ہے، اس سرزمین میں ایسے محدثین، فقہاء، صوفیا، اہل علم اور اہل دل پیدا ہوئے ، جن کے نام سے آج دنیا کا چپہ چپہ گونج رہا ہے، آپ کی عزت نہ پٹرول سے ہے اور نہ ترقی یافتہ ٹکنالوجی سے، آپ کا ملک نہ فوجی اعتبار سے سپر پاور ہے اور نہ معاشی اعتبار سے؛ لیکن دین کی نسبت نے آپ کو عزت دی ہے، اس نسبت کا خیال رکھئے، اور اس کو اگلی نسلوں تک پہنچائیے‘‘ اس کے بعد حدیث کی اجازت دی گئی، مولانا حکمت اللہ صاحب نے میرے خطاب کا ازبک ترجمہ کیا اور اندازہ ہوا کہ انھوں نے ماشاء اللہ میری پوری بات حاضرین تک پہنچائی، مولانا مسعود خان خود بھی عالم ہیں، اور تاشقند میں قائم ’’معہد عالی اسلامی اکیڈمی‘‘ میں تاریخ کے استاذ ہیں، یہیں ہم لوگوں کو یہ افسوس ناک اطلاع ملی کہ جو فلائٹ ہندوستان آنے والی تھی ، وہ کینسل ہو گئی ہے، اس کی وجہ سے طبیعت پر جو بوجھ ہوا ہوگا، وہ ظاہر ہے، بہر حال اب کوشش شروع ہوئی ؛ لیکن ۲۱؍ مارچ سے پہلے ہم لوگوں کی واپسی نہیں ہو پائی، اس درمیان ایک تو عزیزی مولانا عبدالقیوم صاحب نے مجھ سے میرا رسالہ ’’ آسان اصول فقہ‘‘ سبقاََ سبقاََ جس قدر ہو سکا، پڑھا؛ حالاں کہ خود ان کی اردو اچھی ہے، اور وہ با صلاحیت عالم ہیں، مگر ان کی خواہش تھی کہ کچھ اسباق میں پڑھاؤں، اور پھر چوں کہ اتفاق سے وہ جمعہ کا دن تھا تو سورۂ جمعہ کے دوسرے رکوع کابھی درس دیا،ہمارے ہندوستان کے ساتھی بھی اس درس میں شامل ہوگئے۔
ہلال نشر میں حاضری:
اس فرصت میں ہم لوگوں کو ایک اہم ادارہ کے معاینہ کا موقع مل گیا، جہاں اب تک جانا نہیں ہوا تھا، اور وہ ہے ’’ ہلال نشر ‘‘ اس کے بانی حضرت مولانا محمد صادق صاحب رحمتہ اللہ علیہ تھے، یہ رابطہ عالم اسلامی کے بھی رکن تھے، انھوں نے ازبکستان میں اسلام کی اشاعت اور اس کی بقاء کے لئے بڑی خدمت انجام دی ہے، کمیونسٹوں کے دور میں کچھ عرصہ لیبیا میں اپنا وقت گذارا ،جب یہاں سے کمیونسٹ اقتدار ختم ہوا تو واپس آئے، اور پوری توجہ ازبک زبان میں اسلامی لٹریچر کی تیاری پر مبذول کر دی، ان کی ایک بہت تفصیلی تفسیر ازبک زبان میں ہے، حدیث کی شرح ہے، فقہ پر کتابیں ہیں، اصلاحی کتابیں بھی ہیں، ایک سو بیس کتابیں ان کے قلم سے منظر عام پر آچکی ہیں، اس وقت اس ادارے کے ذمہ دار اُن کے صاحبزادے مولانا اسماعیل صادق ہیں، جن کو عربی زبان پر اچھی قدرت حاصل ہے، اور ادھیڑ عمر کے آدمی ہیں، ماشاء اللہ یہاں سے ماہانہ قرآن مجید کے ۲۰؍ ہزار نسخے شائع ہوتے ہیں،اور وسط ایشیائی ممالک میں پہنچتے ہیں، اس کے علاوہ بہت سے دینی موضوعات پرکتابیں شائع ہوئی ہیں، ازبکستان اور اس کے مضافات کے ممالک میں قرآن مجید اور اسلامی لٹریچر کے پہنچانے کا یہ سب سے اہم مرکز ہے، یہاں کی خدمات کو دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی،اگلے دن اس مرکز سے نکلنے والے اخبارمیں انھوں نے میری تصویر اور میری گفتگو کا خلاصہ بھی نقل کیا ،میں نے ان کے والد ماجد مولانا صادق صاحبؒ کی خدمات کو دیکھتے ہوئے کہا تھا کہ حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ فرماتے تھے کہ ہمارے یہاں’’ ایک آدمی‘‘ ایک اکیڈمی کا کام کرتا ہے، تو آپ کے والد صاحب کا کام بھی اسی زمرے میں شامل ہے، اس جملے کو انھوں نے خاص طور پر کوڈ کرتے ہوئے فیسبک پر نقل کیا، او رسوشل میڈیا میں اس کی کافی اشاعت ہوئی،بہرحال ان کی خدمات واقعی لائق تحسین ہیں ، اللہ تعالیٰ ان ملکوں میں اسلام کی اشاعت کا سروسامان فرمائے، حکومت نے ان کی اعلیٰ خدمات کو سامنے رکھتے ہوئے ان کے نام سے ایک عظیم الشان مسجد تعمیر کی ہے، جس کے ڈیزائن میں قدامت اور جدت کا خوبصورت امتزاج ہے۔
اسلامی معاہد کا نصاب تعلیم:
ہم لوگوں نے تاشقند، سمرقند، بخارا اور ترمذ ہر جگہ دینی تعلیم کے معاہد دیکھے، ان کے نصاب تعلیم میں یکسانیت پائی جاتی ہے؛ کیوں کہ یہ سب سرکاری نظام کے تابع ہیں، ہر جگہ پانچ سالہ نصاب ہے، اور ہر سال میں دو سمسٹر(دورانئے) ہیں، گویا کُل دس سمسٹر میں تعلیم ہوتی ہے، اس میں قرآن کریم، تفسیر، حدیث، فقہ اور تاریخ ِاسلام کے علاوہ نحو، صرف اور فلسفہ ومنطق کے مضامین بھی پڑھائے جاتے ہیں، نصابِ تعلیم کی بعض چیزیں ایسی ہیں، جن سے ہندوستان کے مدارس بھی استفادہ کر سکتے ہیں، جیسے: تجوید قرآن، تفسیر قرآن اور احکام قرآن، تینوں کو مستقل مضمون کی حیثیت سے پڑھایا جاتا ہے، حدیث میں متون حدیث، شروح حدیث، احادیثِ احکام، اصطلاحات حدیث، تخریج حدیث اور اسناد کی تحقیق کی الگ الگ مضمون کی حیثیت سے تعلیم دی جاتی ہے، فقہ میں فقہ حنفی کی تعلیم ہوتی ہے، اور احادیث احکام کو بھی اسی نقطۂ نظر سے پڑھایا جاتا ہے۔
یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ نصاب میں کئی کتابیں ہندوستان کے مصنفین کی ہیں؛ چنانچہ اصول فقہ میں ملا جیونؒ کی’’ نورالانوار‘‘ اصول حدیث میں مولانا عبدالحئی فرنگی محلیؒ کی’’ الرفع والتکمیل‘‘ اور مولانا ظفر احمد تھانویؒ کی ’’ فوائد فی علوم الحدیث‘‘ نیز متون حدیث میں ان ہی کی ’’ اعلاء السنن‘‘ شامل ہے، اس پانچ سالہ نصاب کی تکمیل پر گریجویشن کی سند دی جاتی ہے اور اس سند کی بنیاد پر طلبہ یونیورسیٹی میں اسلامی وعربی علوم میں ماسٹر کر سکتے ہیں، اس سے پہلے کے مرحلہ کی تعلیم سرکاری نصاب کے مطابق ہوتی ہے اور ہائی اسکول سطح کی تعلیم کے بعد اِن مَعاہد میں داخلہ ہوتا ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ برصغیر کے دینی مدارس میں جو نصاب اور تدریس کا جو اسلوب مروج ہے، وہ بہت ہی مفید اور اہمیت کا حامل ہے، اس کے ذریعہ گزشتہ ڈیڑھ سو سال سے سے علوم اسلامی کے تمام شعبوں میں قدا ٓور شخصیتیں پیدا ہوتی رہی ہیں، اور آج بھی اس کا تسلسل قائم ہے؛ لیکن پوری دنیا اور خود ہمارے ملک کے بدلتے ہوئے حالات میں ضرورت ہے کہ اہل مدارس اپنے تعلیمی نصاب اور نظام پر نظر ثانی کریں، مدارس کے مقاصد اور اس کی روح کو سامنے رکھتے ہوئے ایسا نصاب مرتب کریں، جو زمانہ کی ضرورتوں سے ہم آہنگ ہو؛تاکہ طلبہ مدرسہ سے فارغ ہونے کے بعد جب باہر کی دنیا میں پہنچیں تو اپنے آپ کو اجنبی محسوس نہ کریں اور احساس کمتری میں مبتلاء نہ ہوں، اس کی آسان اور بہتر شکل یہی ہے کہ موجودہ درسِ نظامی سے پہلے ثانویہ کا مرحلہ رکھا جائے، جس میں ہائی اسکول یعنی دسویں کلاس تک کے مضامین پڑھائے جائیں، اور مروجہ درس نظامی کے ابتدائی دو تین سالوں کے مضامین کو بھی اسی مرحلہ میں شامل کر لیا جائے، پھر مروجہ درس نظامی کا نصاب پانچ سالوں میں پڑھا دیا جائے، اس طرح بہت کم تبدیلی کے ساتھ اس پر عمل کیا جا سکتا ہے۔
اس پورے سفر میں ایک صالح نوجوان جو قدم قدم پر ساتھ رہے اور بڑی خدمت کی، وہ ہیں عزیز مکرم آبی جان سلمہ ، وہ اپنی پیشہ وارانہ مصروفیات کے ساتھ خود اپنے شوق سے قرآن مجید حفظ کر رہے ہیں، ۱۸؍ مارچ کو دوپہر میں انھوں نے ضیافت کا اہتمام کیا، جس میں مہمانوں کے ذوق کی رعایت کرتے ہوئے ہندوستانی طرز کے کھانے بنوائے، اسی دن رات میں جناب مظفر صاحب کے یہاں عشائیہ کی دعوت تھی، حاضرین کی خواہش تھی کہ میں کچھ عرض کروں؛ چوں کہ یہاں مجھ سے کثرت سے ایسے سوالات کئے گئے، جن کا تعلق سودی لین دین سے تھا، فقہ کی کتابوں میں بھی اس خطہ کے بعض ایسے مروجہ معاملات کا ذکر آیا ہے، جن میں سود کا شبہ پایا جاتا ہے، اس مناسبت سے میں نے یہاں رزق حلال کی اہمیت، سود کا گناہ اور خود اس دنیا میں سود کے نقصانات پر روشنی ڈالی، بحمد اللہ لوگوں نے قبولیت کے جذبہ سے سنا اور کافی سوالات بھی کئے۔
۲۱؍ مارچ کو ہم لوگوں کی ازبکستان ائیرلائنز سے واپسی ہو سکی ، ہمارے ہوٹل’’ اورینٹ اِن‘‘ کے مالک کا نام جناب عبدالغفور تھا، وہ بھی چند دنوں کے قیام میں بہت مانوس ہوگئے، بڑی محبت وعقیدت کا اظہار کرتے ہوئے دعاء کراتے، پانی پر دم کراتے، جو کرایہ مقرر تھا،اس میں بھی انھوں نے بلا مطالبہ اپنی طرف سے کافی تخفیف کر دی، اور ایک ترکی ریسٹورنٹ میں ہم لوگوں کی پُر تکلف دعوت بھی کی، جس وقت ہم لوگوں کو نکلنا تھا، اس دن ان کے یہاں شادی کی تقریب ہونے والی تھی، پھر بھی ملاقات کرنے کے لئے آئے، اس سلسلہ میں ایک لطیفہ پیش آیا کہ واٹس ایپ پر میری آمد کی اطلاع اور مختصر تعارف بعض مقامی احباب نے نشر کر دیا تھا، انھوں نے بھی پڑھا، وہ ملاقات کے مشتاق تھے؛ مگر ان کو معلوم نہیں تھا کہ ہم لوگ ان ہی کے ہوٹل میں مقیم ہیں، انھوں نے ملاقات کے لئے کسی سے دریافت کیا، اور بتایا گیا کہ میں ان ہی کے ہوٹل میں مقیم ہوں،تو ان کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا، گفتگو کے دوران جب اذکار واوراد کے سلسلہ میں ان کے یومیہ معمولات کا حال سنا تو مجھ کو اپنا معمول بہت حقیرنظر آیا، واقعی کیچڑ میں بھی لعل ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
۲۱؍ مارچ کی صبح کو ہم لوگوں کی ہندوستان واپسی تھی؛ چنانچہ ۲۰؍ مارچ کی شب میں سید عظیم صاحب نے کھانے کا اہتمام کیا، جہاں بھی اس طرح کی دعوت ہوتی، شہر کی اہم دین پسند شخصیتوں کو یہ حضرات مدعو کرتے، یہاں بھی منتخب مجمع تھا، حاضرین کی خواہش تھی کہ کچھ دینی باتیں کہی جائیں، کمیونسٹوں کے دور میں یہاں جو گمراہیاں پھیلائی گئیں، ان میں ایک عورتوں کی بے قید آزادی بھی ہے؛ اگرچہ یہاں بے پردگی کا ماحول کم نظر آیا؛ لیکن فکری اعتبار سے مغرب کی آزاد خیالی کا اثر خواتین میں پایا جاتا ہے، اور خواتین کی دینی تعلیم وتربیت سے بے توجہی کا احساس ہوتا ہے، اس پس منظر میں عرض کیا گیا کہ اسلام کی دعوت اور اسلامی علوم کی اشاعت میں خواتین کا بڑا اہم کردار رہا ہے، اس سلسلہ میں صحابیات کی بعض مثالیں بھی پیش کی گئیں اور وہاں کے موجودہ حالات میں لڑکیوں کی تعلیم وتربیت کی کیا شکل اختیار کی جا سکتی ہے؟ اس پر روشنی ڈالی گئی۔
چند نقوش عبرت وموعظت:
اس سفر میں جو چند قابل توجہ باتیں سامنے آئیں، ان کا ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے، پہلی بات یہ ہے کہ اس پورے خطہ پر کمیونزم کے غلبہ کا جو دور گزرا ہے، اس میں نہ صرف مساجد ومدارس اور دینی مراکز کو تہس نہس کرنے یا وہاں سے انجام دی جانے والی دینی خدمات کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی؛ بلکہ لوگوں کے دل ودماغ کو بدلنے کے لئے بھی پورا زورلگا دیا گیا، بے حیائی وفحاشی کو پھیلانے کی بھر پور کوشش کی گئی، نوجوانوں کو دین بیزاری کے انجکشن لگائے گئے، خواتین کو آزادیٔ نسواں کی دعوت دی گئی؛ لیکن جب روس کا اقتدار ختم ہوا تو بہت کم عرصہ میں الحاد ودہریت کو پسپا ہونا پڑا، اور پوری قوم پر اسلام کا رنگ چڑھ گیا؛ چنانچہ آج مسجدوں میں نوجوانوں کی بڑی تعداد نظر آتی ہے، داڑھی کی ممانعت کے باوجود داڑھی رکھنے کا جذبہ ہے، عورتیں عام طور پر ساتر لباس اور حجاب استعمال کرتی ہیں، دوسرے مسلمان ملکوں کے مقابلہ یہاں خواتین کے با پردہ لباس پہننے کا رواج زیادہ ہے؛ البتہ عمومی طور پر عورتیں چہرہ کھلا رکھتی ہیں، ہمارے ملک میں سڑکوں کے کنارے نیم عریاں تصویریں کثرت سے نظر آتی ہیں؛ لیکن یہاں ایسے اشتہارات نظر نہیں آتے، یہ ایک خوش آئند بات ہے اور اس سے اسلام کی روحانی طاقت ،فکری سربلندی اور لوگوں کومتأثر کرنے کی غیر معمولی صلاحیت کا ثبوت فراہم ہوتا ہے، مسلمانوں میں عمل کی کوتاہی جس درجہ کی بھی ہو؛ لیکن ان کو اپنا ایمان عزیز ہوتا ہے، اللہ کرے یہاں دینی جذبہ کو اور فروع ہو اور اس خطہ کی عظمت رفتہ واپس آسکے۔
یہاں جو ایک خاص بات دیکھنے میں آئی، وہ ہے دین، شعائر ِدین اور اہل دین کے لئے بے حد ادب اور جذبۂ توقیر، اپنے بزرگوں کی یاد گاروں سے تو انہیں محبت ہے ہی؛ لیکن علماء ومشائخ سے بھی ٹوٹ کر محبت کرتے ہیں، خیر کے کام میں خرچ کرنے کا جذبہ ہے، اب جو مسجدیں تعمیر ہو رہی ہیں، وہ عوامی تعاون سے ہو رہی ہیں؛ لیکن یہ تعمیر بھی اسی دور کی یاد دلاتی ہے، جو یہاں کا سنہرا دور تھا، مساجد میں ایک امام کے ساتھ کئی کئی نائب امام ہوتے ہیں اور مؤذن اس کے علاوہ ہوتا ہے، ایک مسجد کے بارے میں استفسار پر معلوم ہوا کہ یہاں چار امام ہیں، دو مؤذنین ہیں اور مسجد کے خدام ان کے علاوہ ہیں، میں نے مزاحاََ کہا کہ آپ نے ایک ہی مسجد میں ائمہ اربعہ کو جمع کر دیا ہے، خدام مسجد کی تنخواہیں عوام ہی کے اجتماعی تعاون سے ادا ہوتی ہیں، دینی خدمت گزاروں کی یافت دوسرے شعبوں کے ملازمین کے برابر تو نہیں ہوتی ہے؛ لیکن اتنا فرق بھی نہیں ہوتا ہے جو ہندوستان میں دین کے خادموں اور دوسرے شعبوں کے خدمت گاروں کے درمیان پایا جاتا ہے۔
لوگوں میں خوش سلیقگی بھی دیکھنے کو ملی، صفائی ستھرائی کا بہت زیادہ اہتمام ہے، حکومت کا عملہ اس کام کو انجام دیتا ہے؛ لیکن عوام میںبھی اس کا پورا لحاظ ہے، مسجد اور اس کے طہارت خانے بھی صاف ستھرے نظر آتے ہیں، مسجدوں میں یہ بات بھی بہت اچھی محسوس ہوئی کہ لوگ سیڑھیوں کے باہر قطار میں لگا کر اپنے جوتے رکھتے ہیں، بے سلیقگی کے ساتھ جوتے نہیں رکھے جاتے، لوگوں کے تعمیری ذوق میں بھی بڑی نفاست ہے، اور گھر کا اندرونی حصہ بہت ہی آراستہ وپیراستہ ہوتا ہے، فرنیچر اور کھانے کے برتن وغیرہ سے بھی نفاست اور خوش ذوقی کا اظہار ہوتا ہے، ضیافت کا جذبہ غیر معمولی ہے، عام طور پر ان کے کھانوں میں دال اور سبزی کا گزر نہیں، خوب گوشت کھایا جاتا ہے، ترکی کی طرح یہاں بھی کباب کا خاص ذوق ہے، بڑے جانور کا بھی، بکرے کا بھی اور چکن بھی؛ بلکہ یہاں گھوڑے کا گوشت بھی کھایا جاتا ہے، ہم لوگوں کے سامنے بھی رکھا گیا، میں نے عرض کیا: آپ حضرات کھا سکتے ہیں؛ کیوں کہ جمہور اور صاحبین کے نزدیک جائز ہے، امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک اس لئے مکروہ ہے کہ اس سے آلۂ جہاد کی قلت پیدا ہو سکتی ہے؛ لیکن ظاہر ہے کہ اب اس دور میں گھوڑے کا استعمال جہاد کے لئے نہیں ہوتا ؛ اس لئے کراہت کی وجہ باقی نہیں رہی؛ مگر آدمی جو گوشت پہلے سے نہ کھاتا رہا ہو، اس کو کھانے میں طبعی کراہت ہوتی ہے؛ اس لئے میں اس سے بچ رہا ہوں، بہر حال ازبکی حضرات جب کھانے پر مدعو کرتے ہیں تو ان کی خواہش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ اور عمدہ سے عمدہ کھلایا جائے، دین سے تعلق اور اللہ پر یقین کا ایک مظہر یہ ہے کہ وہ کثرت سے دعاء کراتے ہیں،بار بار دعاء کی درخواست کرتے ہیں، اور چاہتے ہیں کہ اسی وقت دعاء ہو جائے، خاص کر کسی کے گھر پہنچنے پریا کھانے کے بعد خصوصی اہتمام سے دعاء کرائی جاتی ہے، الحاد و دہریت کی یلغار کے باوجود ان حضرات کو دین پر جو ثابت قدمی حاصل رہی اور کمیونسٹوں کے جاتے ہی یہ اتنی جلد الحاد کے جال سے باہر نکل آئے، خیال ہوتا ہے کہ یہ ان کے دلوں میں دین کی عظمت اور اہل دین کے ادب کا نتیجہ ہے!
ایک سبق جو وہاں کی مساجد کے نظام سے لینے کا ہے، وہ یہ ہے کہ — جیسا کہ ذکر کیا گیا— وہاں ایک مسجدمیں کئی کئی ائمہ ہوتے ہیں، جو ہیڈ امام ہوتا ہے وہ جمعہ کا خطبہ دیتا ہے، مؤذن بھی غالباََ ایک سے زیادہ ہوتے ہیں اور مسجد کے خادمین ان کے علاوہ، طہارت خانوں کی صفائی ستھرائی کا بھی بہت معقول نظم ہوتا ہے، ہندوستان کی صورت حال یہ ہے کہ اکا دکا مسجدوں کو چھوڑ کر مسجد میں ایک ہی امام ہوتا ہے اور ایک ہی مؤذن، اور ستم بالائے ستم یہ ہے کہ مسجد کی صفائی ستھرائی کی ذمہ داری بھی بعض جگہ مؤذن صاحب پر ہوتی ہے، یہ اس عہدہ کا اعزاز ہے، جس پر حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے صحابی فائز تھے، اور جس کام کی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے خلیفۂ راشد تمنا کیا کرتے تھے؟؟ طہارت خانوں کی صفائی کا انتظام بھی اتنا ناقص ہوتا ہے کہ اکثر مسجدوں کے بیت الخلاء میں جانے کی ہمت نہیں ہوتی، غور کیجئے، کیا یہی ہے مسجد کا احترام؟ جن مسجدوں کے پاس معاشی وسائل نہیں ہیں، ان کی صورت حال تو یہ ہے ہی، اور یہ ایک حد تک مجبوری بھی ہے؛ لیکن جن مساجد کے پاس معاشی وسائل موجود ہیں، ان کی انتظامیہ بھی ان کاموں پر خرچ کرنا نہیں چاہتی، یہ بہت ہی افسوس ناک بات ہے، ضرورت ہے کہ ہر مسجد میں امام اور مؤذن کو لے کر کم سے کم تین افراد رکھنے کی کوشش کی جائے اور تینوں میں اذان دینے اور بقدرِ ضرورت نماز پڑھانے کی صلاحیت ہو؛ تاکہ یہ حضرات بھی اپنی گھریلو ضروریات کے لئے نکل سکیں، ان کے لئے ہفتہ وار اور سالانہ چھٹیوں کی سہولت ہو، اگر اپنے فرائض کو ادا کرتے ہوئے موقع ہو تو کوئی چھوٹی موٹی تجارت کر لیں، اسی طرح وضوء خانہ اور بیت الخلاء کی صفائی کے لئے نمازیوں کی تعداد کے اعتبار سے مناسب تعداد میں عملہ رکھا جائے، جھاڑو دینے اور صفائی کرنے کے لئے مسجد کی وسعت کے اعتبار سے علیحدہ عملہ ہو، ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ ان کاموں کے لئے جز وقتی ملازم رکھا جائے، اس پر توجہ کی بہت زیادہ ضرورت ہے، مسجد کی تعمیر وتزئین پر اور آج کل قالینوں اور جائے نمازوں پر کافی پیسے خرچ کئے جاتے ہیں؛ لیکن مسجد کے اصل کاموں میں بخل سے کام لیا جاتا ہے۔
(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.