کاغذ نہیں دکھائیں گے:بہار میں ہار کی پہلی قسط

ڈاکٹر سلیم خان
"جنگ سے پہلے فتح” ایک محاورہ ہے جو کسی بھی مقابلے یا جنگ میں ذہنی طور پر تیار رہنے اور فاتح ہونے کے یقین کے بارے میں استعمال ہوتا ہے۔ عام طور پریہ اس وقت استعمال ہوتا ہے جب کوئی شخص کسی مشکل کام کا آغاز کرنے سے پہلے پر اعتماد ہو اور اسے یقین ہو کہ وہ کامیاب ہو گا۔ اس طرح کی ذہنی تیاری اور فتح کے لیے بہت ضروری ہے۔کبھی کبھار دشمن بھی اپنی بوکھلاہٹ اور غلطی سے مدمقابل کو یہ احساس دلا دیتا ہے اور ایسا ہی کچھ بہار میں ہوا۔ آپریشن سیندورکی ناکامی کے بعد اپنی شکست کے احساس نے بی جے پی کو بہار میں اسمبلی انتخابات میں کامیابی کے لیےالیکشن کمیشن کو آلۂ کار بنانے پر مجبور کیا اور اس نے ووٹر لسٹ میں اسپیشل انٹینسیو ریویژن (SIR) مہم چلادی۔ کمیشن نے پہلے تو دعویٰ کیا کہ اب تک 94 فیصد فارم تقسیم کیے جا چکے ہیں لیکن پھر ووٹروں کو راحت دیتے ہوئے اعلان کرنا پڑا کہ اب وہ بغیر کاغذ کے اپنے گنتی کے فارم جمع کرا سکتے ہیں۔ یہ حزب اختلاف کےچو طرفہ دباؤ اور شدید مخالفت کا بڑی کامیابی ہے۔ الیکشن کمیشن اس قدر جھک گیا کہ اس نے بتایا اگر کسی ووٹر کے پاس تازہ ترین تصویر نہیں ہے تو وہ بغیر تصویر کے گنتی فارم بھر کر جمع کرا سکتا ہےحالانکہ پہلے تو والدین تک کا برتھ سرٹیفکیٹ مانگا جارہا تھا
مرکزی حکومت کے پنجرے کا طوطا الیکشن کمیشن آف انڈیا اپنے اسی احمقانہ فیصلے کے سبب ذرائع ابلاغ پر چھاگیا تھا۔ اس نے امسال اکتوبر-نومبر میں ہونے والے اسمبلی انتخابات سے قبل 2003 کی بہار ووٹر لسٹ کو اپنی آفیشل ویب سائٹ پر جاری کرنے کا اعلان کرکے بہت بڑا تنازع کھڑا کردیا ۔ اس اقدام کا مقصد ریاست میں خصوصی جانچ پڑتال (اسپیشل انٹینسیو ریویزن) کےذریعہ ووٹرز کی شناخت اور شمولیت کو آسان بنانا بتایا گیا ہے۔کمیشن کے مطابق، 2003 کی ووٹر لسٹ میں شامل60 فیصد یعنی تقریباً 4.96 کروڑ رائے دہندگان کو اپنی تاریخِ پیدائش یا جائے پیدائش کے ثبوت کے طور پر کوئی اضافی دستاویز جمع کرانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ انہیں صرف 2003 کی فہرست کے متعلقہ حصے کو نامزدگی فارم کے ساتھ منسلک کرنا ہوگا یعنی جو مختلف وجوہات کی بناء پر ایسا نہیں کرسکیں گے ان کا نام کاٹ دیا جائے گا۔ ان کے علاوہ باقی 4کروڑ یعنی تقریباً 40 فیصد کو اپنی تاریخِ پیدائش یا جائے پیدائش ثابت کرنے کے لیے کمیشن کی جانب سے منظور شدہ 11 دستاویزات میں سے کوئی ایک پیش کرنا ہوگااورانفرادی طور پر شناخت و تصدیق کے بعد ہی اُن کے نام فہرست میں شامل کیے جائیں گے۔
چیف الیکشن کمشنر گیانیش کمار کے مطابق اس مشق کا مقصد خصوصی جانچ پڑتال کے ذریعے یہ یقینی بناناہے کہ کوئی بھی اہل شہری ووٹر لسٹ میں شامل ہونے سے محروم نہ ر ہے اور نااہل فرد فہرست میں شامل نہ ہونے پائے۔بی جے پی کے صوبائی صدر دلیپ جیسوال نے الیکشن کمیشن کے 2003 کی ووٹر لسٹ جاری کرنے کے فیصلے کوسراہتے ہوئے کہہ دیاکہ ، ’’الیکشن کمیشن نے 2003 کی ووٹر لسٹ جاری کرکے ایک قابل ستائش قدم اٹھایا ہے۔ اس سے ان لوگوں کو بڑی راحت ملی ہے، جن کے نام پہلے ووٹر لسٹ میں تھے، لیکن بعد میں ہٹا دیئے گئے تھے‘‘۔ بہار میں حزب اختلاف کے رہنما تیجسوی یادو نے الزام لگایا کہ اس جائزے کے بعد سب سے پہلے تو ووٹر لسٹ سے غریبوں کا نام کاٹا جائے گا پھر ان کا راشن اور پنشن بھی بند ہوجائے گا۔ اس فیصلے کے خلاف آر جے ڈی نے الیکشن کمیشن سے ملاقات کرکے بتایا کہ یہ غریبوں کو باہر نکالنے کی تیاری ہے۔ رکن پارلیمان منوج جھا کے مطابق اس مشق میں ریاست سے نقل مکانی کرکے باہر جانے والے20 فیصد رائے دہندگان بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔ یہ دراصل کروڈوں لوگوں کو ووٹ دینے کے حق سے محروم کی سازش ہے۔ منوج جھا نے دھمکی دی کہ یہ کہانی محض الیکشن کمیشن سے ملاقات پر ختم نہیں ہوگی بلکہ اس کے خلاف سڑکوں پر عوامی سیلاب آئے گا۔
بہار اسمبلی انتخاب کے پیش نظر ریاست میں ’ایس آئی آر‘ یعنی ووٹرس کی خصوصی گہری نظر ثانی پر ریاستی کانگریس کے صدر راجیش رام نے انتخابی کمیشن پر الزام عائد کیا کہ یہ مشق بی جے پی کو سیاسی فائدہ پہنچانے کے لیے کی جا رہی ہے۔ان کا پہلا اعتراض تو یہ ہے کہ صرف چند ہفتوں میں آٹھ کروڑ ووٹروں کی تصدیق اور نظرثانی ممکن ہی نہیں، اس لیےجلد بازی میں کروڑوں غریب، پسماندہ اور ملک کے مختلف حصوں میں کام کرنے والے مہاجر ووٹرز اپنے حق رائے دہی سے محروم کردئیے جائیں گے۔ان کے مطابق ووٹر لسٹ میں نام شامل کروانے کے لیے شہریوں سے ان کے والدین بلکہ دادا تک کے دستاویزات طلب کرنا غیر منصفانہ ہے۔ انہوں نے یہ انکشاف کیا کہ بہار کےجو تین کروڑ سے زائد افراد کام کے لیے ریاست سے باہر مقیم ہیں اگر وہ مقررہ وقت پر واپس نہیں آ سکے تو ان کے نام ووٹر لسٹ میں شامل نہیں ہو پائیں گے۔راجیش رام نے یہ سنگین الزام بھی لگایا چونکہ یہ ووٹرز روایتی طور پر مہا گٹھ بندھن یا انڈیا اتحاد کے حامی ہیں، اس لیے بی جے پی انہیں باہر رکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔انہوں نے سوال کیا کہ بی جے پی جہاں چاہتی ہے، آدھار کارڈ کو لازمی بنا دیتی ہے، تو پھر ووٹر لسٹ میں آدھار کو کیوں نہیں جوڑا جا رہا؟
کانگریس اس معاملے پر لگاتار سوال اٹھا کر الیکشن کمیشن کو کٹہرے میں کھڑا کر رہی ہے۔ پارٹی کے سینئر لیڈر پون کھیڑا نے تو واضح لفظوں میں کہا کہ ’’ہم سبھی کے پاس ووٹ دینے کا ایک اہم حق ہے، جس کے اوپر سازشاً چوٹ کرنے کے لیے قدم اٹھائے جا رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن تو بس ایک مہرہ ہے، جو یہ قدم اٹھا رہا ہے۔ انہوں نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’جب لوک سبھا میں حزب اختلاف کے قائد راہل گاندھی یا راجیہ سبھا میں حزب اختلاف کے رہنما ملکارجن کھڑگے ووٹر لسٹ یا ووٹنگ کے دن کی فوٹیج طلب کرتے ہیں تو مہینوں تک الیکشن کمیشن کا جواب نہیں آتا ہے، لیکن یہاں ایک ماہ میں پورے بہار کی نئی ووٹر لسٹ بن جائے گی۔‘‘پون کھیڑا نے میڈیا کو جانکاری دیتے ہوئے بتایا کہ جب وہ الیکشن کمیشن کو خط لکھ کر ملاقات کرنے جاتے پر چیف الیکشن کمشنر دھمکانے والے لہجہ میں کہتے ہیں کہ کانگریس کے کس لیڈر سے کتنی دیر ملاقات کرناہے یہ وہ طے کریں گے ۔ای سی میں یہ رعونت پی ایم سے آئی ہے کیونکہ ’جیسا مالک ویسا گھوڑا کچھ نہیں تو تھوڑا تھوڑا‘۔
‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’چیف الیکشن کمشنر نے ایک نئی روایت شروع کی ہے، جس میں وہ صحافیوں کو پیغام بھیج کر خبریں پلانٹ کرتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ وہ بات راز رہ جائے گی۔ لیکن آپ کو بتا دوں، کوئی بات راز نہیں رہتی ہے۔‘‘پون کھیڑا نے نصیحت تک کردی کہ ’’جو بھی لوگ آج ملک کے الگ الگ اداروں میں ہیں، انھیں سمجھ لینا چاہیے کہ وہ جس کرسی پر بیٹھے ہیں، ان سے پہلے کہیں بہتر لوگ ان کرسیوں پر بیٹھ کر جا چکے ہیں، اور آنے والے وقت میں انہی کرسیوں پر آپ سے بھی اچھے لوگ بیٹھیں گے۔ سوال ہے کہ آپ کیا وراثت چھوڑ کر جائیں گے، ملک کے لوگ آپ کو کس لیے یاد رکھیں؟‘‘ اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے وہ بولے ’’کیا ملک الیکشن کمیشن کے افسران کو اس لیے یاد رکھے گا کہ پورا اپوزیشن ووٹر لسٹ مانگ رہا تھا اور آپ نہیں دے رہے تھے؟ ووٹنگ کے ویڈیو فوٹیج 45 دن بعد نہیں دیے جائیں گے۔ مہاراشٹر میں اچانک 5 بجے کے بعد ووٹنگ فیصد بڑھ گیا، لیکن آپ نے آج تک اس پر جواب نہیں دیا؟ اس لیے ہمیں لگتا ہے کہ جمہوری عمل پر بہت بڑا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ یہ خطرہ صرف اپوزیشن کے لیے نہیں، بلکہ ہر ووٹر کو ہے۔‘‘
کانگریس کو شایدیہ اندیشہ لاحق ہوگیا ہے کہ جو کھیلا مہاراشٹر اور ہریانہ میں کھیلا گیا اسے بہار میں زیادہ مہارت کے ساتھ دوہرایا جائے گا۔اس لیے کسی دل جلے عاشق کی مانند پون کھیڑا نے الیکشن کمیشن پر طنز کستے ہوئے کہا کہ ’’ہمیں الیکشن سے مل کر احساس ہوا کہ ہم غلط پتہ پر چلے گئے ہیں۔ الیکشن کمیشن کو اپنی خود کی بلڈنگ میں بیٹھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بی جے پی کا بڑا سا ہیڈکوارٹر ہے، انہیں وہیں ایک منزل لے کر بیٹھ جانا چاہیے۔‘‘ تلخ انداز اختیار کرتے ہوئے وہ بولے ’’الیکشن کمیشن اگر بچولیہ ہے تو ہم بچولیوں سے کیوں ملیں، ہم سیدھا بی جے پی سے بات کریں گے۔‘‘ بعد ازاں انہیں وضاحتی انداز میں کہنا پڑا کہ ’’معاف کیجیے گا، لیکن الیکشن کمیشن کسی پارٹی کا بچولیہ نہیں ہو سکتا۔ سبھی کو اپنے دائرے میں رہ کر کام کرنا ہوگا، یہی جمہوریت کی تعریف ہے۔ میں مکمل انکساری سے الیکشن کمیشن کوخبردار کر رہا ہوں کہ یہ اقتدار آنے جانے والی چیز ہے۔ آپ بی جے پی کی غلامی کیوں کر رہے ہیں؟‘‘الیکشن کمیشن کو بی جے پی اپنا آلۂ کار بنانے کے لیے مجبور ہوئی کیونکہ بہار میں اس کی حالت بہت خراب ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ الیکشن کمیشن کی آڑ میں چور دروازے سے این آر سی نافذ کرنے والی بی جے پی نے اپنے پیروں پر کلہاڑی مار لی ہے اور اسےواپس کروا کر حزب اختلاف نے اسے جو دھول چٹائی وہ انتخاب میں بہت مہنگی پڑے گی۔
Comments are closed.