Baseerat Online News Portal

حیدراباد کی عظیم شخصیت مولانا نصیر الدین

پروفیسر محسن عثمانی ندوی
مرد سپاہی تھا وہ اس کی زرہ لاالہ
سایہ شمشیرمیں اس کی پنہ لا الہ
یہ دنیا سرائے فانی ہے یہاں جو آتا ہے وہ جانے کے لئے ہی آتا ہے لیکن حیدراباد کے مولا نا نصیر الدین کا انتقال ایسا خلا ہے جسے آسانی سے پر نہیں کیا جاسکتا ہے ، درسگاہ جہاد وشہادت کے حوالہ سے ، وحدت اسلامی کی تنظیم کے حوالہ سے ،جامعۃ البنات کے حوالہ سے ،مسلمانوں کے احتجاجات کے حوالہ سے ،ملت کے معاملات میں حق گوئی وبیبا کی کے حوالہ سے ان کی شخصیت ہمیشہ یاد رکھی جائے ۔ابھی زیادہ عرصہ نہیں گذرا کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی گئی اور کشمیریوں کی آزادی سلب کی گئی دفعہ ۳۷۰ ختم کی گئی ہر جمہوریت پسند نے اس اقدام کوناپسند کیا لیکن مولانا نصیر الدین نے باقاعدہ احتجاج کیا اور خود کو گرفتاری کے لئے پیش کیا ۔پولیس نے ان کو حراست میں لے لیا ۔مولانا نے اپنی تقریر میں کہا تھا حکومت کا فیصلہ ہندوستان کی تاریخ کا روز سیاہ ہے ۔ایک مولانا نصیر الدین نہیں ہندوستان کے لاکھوں ہندو مسلمان حکومت کی کاروائی سے مطمئن نہیں تھے ۔اس برائی کو برا سمجھنے والوں کی تعداد بہت تھی لیکن آگے بڑھ کر احتجاج کرکے روکنے کی کوشش ہر شخص نے نہیں کی ۔ جرآت ہمت شجاعت سے کام لینے، ظالم کا گریبان پکڑنے کی کوشش بہت کم لوگ کرتے ہیںبہت کم لوگ ہیں جو اس کے بارے میں سوچتے بھی ہیں۔ اکثریت نہیں غالب اکثریت عہدہ ومنصب والوں میں ایسے ہی لوگوں کی ہوتی ہے جنہیں روٹی کپڑے مکان کے سوا کسی چیز کی فکر نہیں ہوتی ہے ۔ وہ ملت کے کسی کام کے نہیں ہوتے ہیں بلکہ وہ دوسروں کو بھی ملی کاموں میں حصہ لینے سے ڈراتے ہیں ۔مسلمانوں کی عددی اکثریت ایسے ہیں مردہ قسم کے لوگوں پر مشتمل ہے ۔ہم لوگ درحقیقت مردہ خانہ میں زندگی گذارتے ہیں، لاشوں کے درمیان ۔بے جان انسانوں کے درمیان مرکزی حکومت نے جب مسلمانون کے خلاف سی اے اے اور ان آر سی کے قوانین پاس کئے تواس شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف پورے ملک میں احتجاجات ہوئے، حیدرباد میں یہ احتجاج آل پارٹی ملین مارچ کا احتجاج تھا کئی کیلومیٹر کا جلوس، اس احتجاج کے قائدین میں مولانا نصیر الدین صاحب کی شخصیت بہت نمایاں تھی جنہوں انسانوں کے جم غفیر کے سامنے حکومت کی غیر منصفانہ بالیسی پر پرجوش تقریر کی تھی ، ان کی تقریر میں علم کی روشنی اور جذبہ کی فراوانی اور مرد مومن کی غیرت ایمانی موجود تھی۔
ہر سال فلسطین کا مسئلہ اور بیت المقدس کا مسئلہ سامنے آتا ہے یہ مسئلہ ہر مسلمان کے دل کا داغ اور سینہ کا چراغ ہے ،اسرائیل کی جارحیت کے خلاف تقریریں ہوتی ہیں مولانا نصیر الدین بہت اہتمام کی ساتھ اس دن احتجاجی جلسے ہر سال منعقد کرتے تھے اور مسلمانوں کے ضمیر کو زندہ اور بیدار رکھنے کی کوشش کرتے تھے تاکہ لوگ مسئلہ فلسطین کو بھول نہ جائیں اور داغ ہائے سینہ تازہ رہیں ۔کسے معلوم تھا کہ عرب کی حکومتیںبھی بیت المقدس کو بھول جائیں گی اور سعودی عرب کے فرمانروا کے اسرائیل سے تعلقات قائم ہوجائیں گے اور علماء دین پر بھی مرگ سکوت طاری ہوجائے گا اور وہ عرب حکومتوں پر تنقید بھی نہیں کرسکیں گے ۔ان کی زبانوں پر تالے اور منہ میں چھالے پڑجائیں گے ۔ افسوس ’’قافلہ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں ‘‘
طلاق ثلاثہ کے مسئلہ پر حکومت نے جب مسلم مخالف رویہ اختیار کیا تو حکومت کی نا انصافی کے خلاف مولانا نصیر الدین حق کی آواز بن گئے اور انہوںنے حکومت کی اسلام دشمنی کے خلاف مسلسل تقریریں کیں اور قوم کے ضمیر کو بیدار کرنے کی کوشش کی ۔ روہنگیا کے مسلمانوں پر جب ظلم کے پہاڑ توڑے گئے تو یہ مولانا نصیر الدین تھے جنہوں نے حیدراباد میں جلسوں اور جلوسوں کا پر وگرام منعقد کیا اور مظلوم مسلمانوں سے یک جہتی کا اظہار کیا ۔ظلم کے پہاڑ تو ٹوٹتے رہیں گے اور ابھی آثار نہیں ہیں کہ یہ سلسلہ رک جائے گا لیکن مولانا نصیر الدین ہمارے درمیان باطل سے پنجہ آزمائی کے لئے نہیں ہوں گے اور ایسے ہر موقعہ پر ان کی یاد آئے گی اور دلوں کو تڑپائے گی ۔ مولانا نصیر الدین کا انتقال ایک شخص کا انتقال نہیں ہے مسلمانوں کے سواد اعظم کا ایک عظیم قائدسے محروم ہونا ہے ۔
مولانا نصیر الدین حقیقی معنی میں ایک زندہ انسان تھے اورایک زندہ انسان کی خصوصیات رکھتے تھے ،غریبوں کی مدد اور دستگیری ، محتاجوں کی حاجت روائی ، مشکلات میں گھرے ہوئے خاندانوں کی مشکل کشائی ، بادوستاں تلطف ، نرم دم گفتگو گرم دم جستجو ، اسلام مخالف طاقتوں کے لئے فولاد ، زبان سے ہمیشہ حرف حق کہنے والے ، کسی سے نہ ڈرنے والے ، ابھی کچہہ پہلے کسی اخبار میں خبر پڑھی تھی کسی چڑیا گھر میں ایک شیر کی موت ہوگئی، آج ایسا ہی محسوس ہوتا ہیٍ کہ انسانوں کے چڑیا گھر میں ایک ببر شیر فوت ہوگیا ، اب کون بلند آہنگی سے حق کا آوازہ بلند کرے گا ۔جس کی صوت جس کی سطوت جس کی صولت سے بزم کافری تھرا جائے گی ۔
مولانا نصیر الدین صاحب کی ان کی حق گوئی ، بیباکی اور ان کی قربانیوں کی وجہ سے میرے دل میں بڑی عزت تھی وہ اکثر وبیشتر اس عاجز کے گھر بھی تشریف لاتے اور میری عزت افزائی فرماتے اپنے ساتھ’’ وحدت‘‘ کے شمارے بھی لاتے جس میں اس کوتاہ قلم کے مضامین بھی شائع ہوا کرتے تھے پاکستان کے ترجمان القرآن کے شمارے بھی لاکر دیا کرتے تھے حالات حاضرہ پر اور مسلمانوں کے مسائل پر ان سے گفتگو ہواکرتی تھی وحدت اسلامی کی تنظیم کے کئی اجتماعات میں جو مختلف شہروں میں منعقد ہوتے تھے انہوں نے شریک ہونے کی دعوت دی اور مجھ سے تقریریں کروائیں بلکہ شروع شروع میں تو انہوں نے وحدت کی تنظیم میں آندھرا پردیش کی نظامت کی دعوت بھی دے ڈالی ،میں نے معذر ت کرلی اور کہا کہ میں توابھی تک صرف قرطاس وقلم کی بساط سجا کر لکھنے پڑھنے کا کام کرتا آیا ہوں ، عملی میدان میں اترنا بہت مشکل ہے اورپھر میں نے کہا کہ میر تقی میر کا شعر بالکل میرے حسب حال ہے
ہوگا کسی دیوار کے سایہ کے تلے میر
کیا کام محبت سے اس آرام طلب کو
مولانا نصیر الدین صاحب کا مجھ پر بہت لطف وکر م تھا اور میری بہت عزت افزائی کرتے تھے میری ہر تحریر کو جو منصف اخبارمیں شائع ہوتی تھی نہ صرف خود پڑھتے تھے بلکہ وحدث اسلامی کی تنظیم کے ہر ہفتہ کے اجتماع میں اس کو سنانے کا اہتمام کرتے تھے میری بہت سی باتوں سے اتفاق کرتے تھے وہ تحریک مزاحمت کے قائد تھے ان کی ساری انرجی اسی مزاحمت اور کشمکش میں صرف ہوتی تھی، بلا شبہہ ظلم کے آگے سر نہ جھکانا بہت بڑی اسلامی قدر ہے ، میں نے اپنے خیالات سے انہیں ادب واحترام کے ساتھ آگاہ کیا تھا ۔ میں نے عرض کیا تھا مزاحمت ضروری کام ہے ظلم کے سامنے سر نہیں جھکانا چاہئے ، لیکن یہ مسئلہ کا اصل حل نہیں ہے ۔جو اصل راستہ ہے جس میں مسئلہ کا حل چھپا ہوا ہے وہ مسلمانوں نے صدیوں سے چھوڑرکھا ہے ۔ تمام انبیاء کرام تمام بنی نوع انسان کو حق کی دعوت دیتے تھے اور جو حق کی دعوت قبول کرلیتے تھے ان کی تربیت فرماتے تھے اب مسلمان یہ کرتے ہیں کہ صدیوں پہلے جو حق کی دعوت قبول کرچکے ہیں صرف ان ہی کے درمیان کام کرتے ہیں۔مسلمانوں کی اصلاح وتربیت کا کام بھی اہم ہے لیکن صرف ان کے درمیان کام کرنا انبیاء کا طریقہ نہیں ہیٍ ۔یہ طریقہ وہاں تو قابل قبول ہے جہاں صرف مسلمان بستے ہوں لیکن غیر مسلموں کی اکثریت کے درمیان رہ کر صرف مسلمانوں کے درمیان کام کرنا غیر انبیائی طریقہ ہے ۔مسلمانوں نے مدتوں سے انبیاء کرام کے طریقہ کو چھوڑ رکھا ہے گاڑی پٹری سے اتر گئی ہے ڈیریلمنٹ ہو گیا ہے لاکھوں لوگ جہنم کے شعلوں کی لپیٹ میں آسکتے ہیں ۔لاکھوں اور کروروں لوگ زبان حال سے کہہ رہے ہیں ماجائنا من نذیر ہمارے پاس کوئی ڈرانے والا آیا ہی نہیں جہاد وشہادت تو مؤمن کے شوق کی معراج ہے لیکن اس سے پہلے ابلاغ اور تفہیم کا پورا حق ادا کرنا ضروری ہے ۔حیدراباد کے حضرت شاہ جمال الرحمن صاحب نے ایک بار اپنی مجلس میںفرمایا تھاکہ ایک شخص کے تین بیٹے ہوں ایک صحتمندہو اور دو بیمار ہوں تو کیا ایک باپ کے لئے یہ مناسب ہوگا کہ وہ اپنے دو بیمار بیٹوں کی فکر نہ کرے ۔ بیمار بیٹوں کے علاج کی بھی فکر کرنا صحیح نقطہ نظر ہے ۔ لیکن مسلمانوں کی چھوٹی بڑی تمام تنظیمیں صرف ایک صحتمند بیٹے کی فکر میں مبتلا ہیں ۔اور دوبیمار بیٹوں سے لاپرواہ ہیں ۔برادران وطن تک توحید کا پیغام پہونچانے کے بہت سے طریقے ہوسکتے ہیں ایک طریقہ وہ تھا جو صوفیۃ کرام نیٍ اس ملک میں اختیار کیا تھا ۔ ہر بستی اور ہر شہر میں ایک دو شخص ہواکرتے تھے جو غیر مسلموں کی عقیدت اور محبت کا مرکز بن جایاکرتے تھے بہت سے غیر مسلم ان کے ہاتھ پر اسلام بھی قبول کرلیتے تھے ۔
میںنے مولانا نصیر الدین صاحب سے عرض کیا تھا کہ ظلم کا مقابلہ اور مزاحمت اور اس راہ میں قربانی دینا قابل ستائش قدر ہے اور اس کی ضرورت بھی ہے لیکن صرف اس سے مسئلہ حل نہیں ہوگا ۔فارسی کے ایک شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اے اعرابی تو کعبہ جانا چاہتا ہے لیکن یہ راہ جو تونے اختیار کی ہے وہ تو ترکستان جانے والی ہے۔’’ این راہ کہ تو می روی بترکستان است ‘‘ یعنی اس راستہ چلنے سے تمہارا مقصد حاصل نہیں ہوگا ہماری ملت اسلامیہ کے تمام قائدین ملت کو کعبہ کی طرف لے جانا چاہتے ہیں لیکن غلطی سے راستہ ترکستان کا اختیار کرلیتے ہیں۔
راقم سطور نے اپنے نقطہ نظر کو کئی بار بیان کیا ہے میں نے لکھا ہے کہ اللہ تعالی نے مسلمانوں کو خیر امت کا لقب عطا فرمایا تھا اس لئے کہ ان کا فرض منصبی ’’اخرجت للناس ‘‘ تھا یعنی تمام بنی نوع انسان کو مخاطب بنانا ،لیکن مسلمانوں نے ہمیشہ( شروع کی چند صدیوںکو چھوڑ کر) صرف مسلمانوں کو اپنامخاطب بنایا اور پھر آہستہ آہستہ ان کا پورا نقطہ نظر تبدیل ہوکر رہ گیا ۔تمام رسول قوم کوجبسا کہ قرآن میں ہے لسان قوم میں دعوت دیتے آئے تھے لیکن نقطہ نظر کی تبدیلی کی وجہ سے ہندوستان میں گذشتہ دوسوس برس میں علماء نے جتنے مدارس قائم کئے وہ صرف مسلمانوںمیں کام کرنے والے اور لسان المسلمین میں کلام کرنے والے علماء تیار کرنے کے لئے تھے اور آج تک مسلمانوںکو اپنی غلطیوں کا شعور نہیں ہے اور لسان قوم کی فکر نہیں ہے ۔مسلمان بتدر یج کعبہ کی راہ سے دور اور ترکستان سے قریب ہوتے جارہے ہیں۔راقم سطور نے تبلیغی جماعت کے امیر مولانا سعد صاحب سے نظام الدین میں مل کر یہ تجویز پیش کی تھی کہ تبلیغی جماعت کے چھ اصول ہیں ان میں ایک اکرام مسلم بھی ہے اسی کے ساتھ خدمت خلق اور خدمت انسانیت کی ایک شق بھی شامل کرلی جائے تاکہ برادران وطن سے بھی ’’ الخلق عیال اللہ‘‘ کے تحت کسی قدر تبلیغی کام کرنے والوں کا رابطہ ہو اور ان کو مانوس کرنے کی کوشش کی جائے لیکن کیا کیا جائے کہ ہمارے صالحین اور قائدین سب کو متفقہ طور ’’ترکستان ‘‘ جانے پر اصرار ہے چاہے یہ راستہ’’ قبرستان‘‘ سے کیوں نہ گذرتا ہو ۔چاہے اس میں جان اور ایمان سب گنوانا پڑے ۔پرسنل لا سے ہاتھ دھونا پڑے۔اور ناکامی مقدر بن جائے کیونکہ کسی چیز کے صحیح ہونے کی ان کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ علماء اور خاص طور بقیۃ السلف قسم کے علماء اس کو پیش کرتے ہوں اگر وہ یہ بات نہیں کہتے ہیں تو کسی پروفیسر ،کسی رائٹر کسی تھنکر کے کہنے سے یہ ہات کیسے مان لی جائے ۔اسی لئے ہماری بات اگر چہ قرآن کے مطالعہ پر مبنی ہے لیکن نقار خانہ میں طوطی کی آواز ہے اور ایک دور افتادہ صدا ۔اور صدا بصحراء۔ایک آوازہ جسے نہ کوئی گوش شنوا میسرآیا نہ کوئی دیدہ بینا نہ کوئی قلب عبرت پذیر ۔
یارب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے مری بات
دے اور دل ان کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور
ملت کی فکر کرنا اور اس کی خبر گیری کرنا خود بہت قابل ستائش بات ہے حدیث میں اس کی تاکید ہے ،ملت میں فراغت سے زندگی گذارنے والے طبقہ نے زندگی کو پھولوں کی سیج بنا رکھا ہے یہ طبقہ ساحل پر بیٹھ کر طوفانوںکا نظارہ کرتا ہے ۔ایسے بے شعوراور دین سے دور طبقہ کی بھی حفاظت اور دستگیری کا ذمہ مولانا نصیر الدین صاحب نے لیا تھا اور انہوں نے بڑی قربانیاں دی تھیں اور ان کے خاندان کے لوگوں نے بھی قربانیاں دی تھیں اللہ تعالی ان کی قربانیوں کا ان کو اجرجزیل اور ان کے گھر والوں کو صبر جمیل عطا فرمائے اور ان کی قبر کو نور سے منور اور جنت الفردوس کے پھولوں سے معطر کرے آمین۔

Comments are closed.