چین کے بجائے ” چنا ” پر گفتگو  نوراللہ نور

چین کے بجاے ” چنا ” پر گفتگو

نوراللہ نور

مودی جی متعلق میرا خیال تھا کہ وہ کیسے بھی ہوں مگر ان میں تھوڑی بہت حساسیت اور سنجیدگی باقی ہے فکرو نظر کی قدرے استعداد اب بھی موجود ہیں لیکن جب سے میں نے انکا کل گزشتہ والا بیان سنا ہے ان کے متعلق سنجیدگی نقد و نظر کی بصیرت کا بھرم کافور ہوگیا کیونکہ حالات کسی اور چیز کا متقاضی تھا اور جناب کسی اور رو میں بہہ رہے تھے مزید برآں سفید جھوٹ کا مفہوم سمجھ میں آگیا اور حقائق سے چشم پوشی کا نیا حیلہ بھی متعارف ہوا ۔

یہ وقت تھا کہ جب کہ معاشی ابتری پر گفتگو کی جاتی اس کے سدباب کے لیے تبادلہ خیال ہوتا برق رفتاری سے بڑھ رہے کے لیے کیا سبیل ہوگی ؟ چین کی دراندازی کے مدعی کو عوام کے سامنے لایا جاتا اور جواب دہ ہونا چاہیے تھا کہ یہ معاملہ کیوں کر پیش آیا ؟ کیا صرف مصنوعات کا بایکاٹ اس کا درست جواب ہے مہلوکین کے اہل خانہ کی غمخواری ہوتی اور ان کے امداد کے سلسلے میں گفت و شنید ہوتی لیکن ان سارے مسائل سے صرف نظر مودی جی دانے غلے پر بات کر رہے تھے ہمیشہ کی طرح عہد و پیمان کی بوچھار ہورہی تھی کہ ہر ایک کو اناج مفت فراہم کیا جائے گا پانچ یا اس سے زائد گیہوں یا آٹا دیا جائے گا اور اس کے ساتھ ایک کلو چنا بھی. قابل افسوس ہے کہ ملک کا ذمہدار شخص جن حالات میں ملک اندرونی و بیرونی جنگ سے جوجھ رہا ہے اس طرح کی غیر ضروری باتیں کیسے کرسکتا ہے جہاں بات چاینہ کی سفاکیت اور دیدہ دلیری پر ہونا چاہیے وہاں چنا ؛ گیہوں اور آٹا کی بات کر رہے ہیں ۔

کچھ لوگوں کو میرے مذکورہ بالا والا تحریر پر اشکال ہوگا کہ جب مودی جی اتنے فکر مند ہیں بار بار عوام کے روبرو ہورہے ہیں اور ہمیں اضطراری کیفیت سے نکالنے کے لیے کوشاں ہیں پھر بھی آپ نالاں ہیں اس کا جواب یہ ہیکہ اگر اتنے ہی متفکر ہوتے تو یہ نوبت ہی نہیں آتی اور ہم کب کا اس مہاماری سے نجات پالیتے لیکن نہ تو وہ ڈاکٹروں کا تعاون کیا اور نہ ہی کوئی موزوں پہل کیا ۔

ان کے بیان میں یہ بات بھی آی کہ آیندہ ماہ تہواروں اور تقاریب سے پر ہے اس اور چونکہ ان کی وجہ سے اخراجات بڑھ جاتے ہیں اس لیے مرکزی حکومت ان کی مدد کے لئے نومبر تک اسی کڑوڑ پریوار نومبر تک مفت اناج مہیا کرایے گی لیکن حقیقت میں یہ پندرہ لاکھ کے وعدوں کی طرح ایک وعدہ ہی ہے کیونکہ اگر واقعتا ذرا بھی ان کو غربا کا خیال ہوتا تو پی ایم فنڈ کی رقم ایمانداری سے ان کے حق داروں تک پہونچ جاتا اور یہ نوبت نہیں آتی اور ہر شاہراہ اور نکڑ ناکے پر کاسہ لیس خستہ حال وپریشان کھڑا نظر نہیں آتا یہ ان کے بیان میں یہ ساری بے سود اور من گھڑت باتیں تو ہوی ہی لیکن ان سب کے علاوہ ان کا متعصب چہرہ کھل کر آیا سامنے آگیا انہوں نے برادران وطن کے تہوار اور اس میں مدد کی یقین دھانی کرائی لیکن مسلمانوں کے تہوار بقرعید کا جو عنقریب آنے والا ہے اس کا تزکرہ بھی مناسب نہیں سمجھا اور مدد تو دور کی بات ہے ۔

دوسری بات یہ کہ سب کے سامنے کذب بیانی کے سارے حدود پار کردیے انہوں نے اتنی ساری رقومات کا اعلان کیا جن کی تعداد سن کر ایسا لگا کہ اگر یہ مصرف میں آجائے تو ملک کا نقشہ ہی بدل جائے اور غریبوں کے درمیان تقسیم ہونے والی رقم اتنی بتای کہ سچ میں ساری غربت بیک لمحہ رفو چکر ہوجاتی لیکن یہ سارا صرف ایک جھوٹ تھا کیونکہ اگر ہر غریب کو اتنے پیسے دینے کا اعلان ہوا ہے اور اس پر عمل بھی شروع ہوگیا ہے تو بے روزگاروں کا ہجوم کیوں ہے ہر ایک کی زبان پر تنگی رزق کا شکوہ ہے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے سینکڑوں میل ؛ کارخانے پر قفل پڑا ہوا ہے ہر معاشی تنگی کا عالم یہ یہ ہیکہ ا کمسن بچے بھی اپنی شکم کی آگ بجھانے کے لیے جدو جہد کر رہا ہے کہیں پر کوی معصوم ماسک فروخت کر رہا ہے تو کہیں پر چلچلاتی دھوپ میں سبزی کے ٹھیلے گھسیٹ رہا ہے جب ہر ایک کے کھاتے میں اتنے پیسے پہونچ رہے ہیں کہ باآسانی بیٹھ کر کھا سکتے ہیں تو پھر یہ منظر کیوں ہے ملک کا ؟ یا تو عوام جھوٹ بول رہی یا جناب عوام کا حال سب پر عیاں ہے البتہ صاحب پر شبہ ضرور ہے ۔

خلاصہ یہ ہیکہ جو محل گفتگو تھا جن مسائل کا حل نکالنا چاہیے اور اس پر گفتگو کرنی چاہیے اس پر ایک لفظ نہیں اور جھوٹے دعووں اور سنہرے اور سبز باغ دکھانے میں مصروف رہے

Comments are closed.