اردو زبان اور اس کی حفاظت کا مسئلہ!

مولانا محمد قمر الزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام موئی کلاں کنڈہ پرتاپگڑھ 9506600725
میرا ماننا ہے کہ اردو زبان کی نشر و اشاعت میں مدارس اسلامیہ اور ان کے فیض یافتگان کا ایسا عظیم اور نمایاں کردار ہے، جو اپنا ایک ممتاز اور منفرد مقام رکھتا ہے ۔ بقول ڈاکٹر شکیل احمد اردو کی قبولیت اور اثر پذیری کے صدیوں اس طویل ارتقائی سفر میں دربار ،دبستان ،خانقاہ اور بازار سبھی کچھ آئے، لیکن جس گروہ اور جس اکائی نے اردو زبان و ادب کو بہت زیادہ فیض پہنچایا اور متاثر کیا وہ علماء دین اور مدارس و مکاتب اسلامیہ ہیں ،،
میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ اُردو کو عوام کے تعاون سے عوامی زبان بنانے کا شرف بھی علماء دین اور مدارس ہی کو حاصل ہے ۔
میں ادب برائے ادب کے قائل کالجوں اور یونیورسٹیوں میں درس دینے والے اُردو کے پروفیسر اور لیکچرر حضرات سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ شعر العجم (کئی جلدیں) مقابلئہ انیس و دبیر اور مقالات شبلی ،مقدمہ شعر و شاعری اور گل رعنا جیسی کوئی کتاب انہوں نے تصنیف کی بھی ہے کیا ؟
میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ ہی بتائیں علامہ شبلی نعمانی رح نیاز فتح پوری، علامہ سید سلیمان ندوی رح مولانا الطاف حسین حالی ، مولانا ابو الکلام آزاد ، تمنا عمادی، جعفر شاہ پھلواری، حبیب الرحمن خان شیروانی ،،مولانا عبد الحئی حسنی رح ،جناب رشید حسن خاں مرحوم فخر مشرق علامہ شفیق جونپوری مرحوم فیض احمد فیض جناب اسرار حسن خان معروف بہ مجروح سلطانپوری مرحوم ،فضا ابن فیضی مرحوم ، عامر عثمانی ، عبد الحلیم شرر ، حسرت موہانی ،انجم مانپوری گیاوی مولانا علی میاں ندوی ، مناظر احسن گیلانی ، مولانا مودودی رح حفظ الرحمن سیوہاروی ،یہ سب کہاں کے اصلا فیض یافتہ اور پروردہ تھے ؟
علماء کرام نے تصنیف و تالیف اور ترجمہ کے ذریعہ اردو زبان کی نشر و اشاعت میں جو حصہ لیا ہے ،اس کا احاطہ کرنا بہت مشکل ہے ، اس کا فی الجملہ اندازہ اس کیا جاسکتا ہے کہ صرف دار العلوم دیوبند اور ندوہ و مظاہر اور سلفیہ و اشرفیہ کے فضلاء نے جو کتابیں تصنیف کیں ہیں ان کی تعداد بیسوں ہزار ہے ۔ دار المصنفین ، دار المؤلفین اور ندوة المصنفین مجلس تحقیقات شرعیہ فرقانیہ اکیڈمی بنگلور دار العلوم فرنگی محل لکھنؤ حیدر آباد دکن میں مکتبہ آصفیہ، دائرہ معارف اور دیگر علمی و تصنیفی ادارے جو علماء نے قائم کئے، ان کی خدمات کا کون انکار کرسکتا ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ اُردو زبان و ادب اور صحافت کی آبیاری ہمیشہ مدارس عربیہ اور مکاتب اسلامیہ میں ہوئی ہے ۔ اس وقت ہندوستان میں اردو صرف اور صرف مدرسوں اور مکتبوں سے توانائی حاصل کر رہی ہے ،اگر خدا نخواستہ مدارس و مکاتب کو ختم کرنے کی سازش کامیاب ہوگئی تو اُردو زبان سسک سسک اور بلک بلک کر دم توڑ دے گی ۔ اس لیے اُردو زبان و ادب کی بقا کے لیے مدارس عربیہ اور مکاتب اسلامیہ کی حفاظت ضروری ہے ۔
آج بھی اُردو کتابوں کے ناشرین کی تجارت کا ایک اہم حصہ اسلامی کتب اور قرآن و حدیث نیز دیگر اسلامیات کی اشاعت پر مشتمل ہے ، ان کتابوں کے مصنف اور ان اداروں کے منیجر و ناشر اکثر علماء مدارس ہی ہیں ۔
خود راقم الحروف پانچ سال سے روزانہ ایک مضمون اُردو میں تحریر کر رہا ہے ، اور اس کو پڑھنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے ۔ الحمد للّٰہ و الشکر لللہ
بہر حال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج سے کچھ دنوں پہلے راقم الحروف نے اُردو کی حفاظت کا مسئلہ اس عنوان پر خامہ فرسائی کی تھی ، چونکہ ابھی ایک بحث اُردو زبان اور خلقیہ کے تعلق سے چھڑی ہے ، اس لئے افادیہ عام کی وجہ سے اس مضمون کو دوبارہ قند مکرر کے طور پر پیش کر رہا ہوں ۔۔ م۔ ق ۔ ن
اردو زبان اور اس کی حفاظت کا مسئلہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سلیقہ سے ہواؤں میں جو خوشبو گھول سکتے ہیں
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جو اردو بول سکتے ہیں
کسی بھی قوم کے لیے زبان کا مسئلہ بہت اہم ہوتا ہے، اس کو سرسری انداز میں نہیں لینا چاہیے، بلکہ اس کی حفاظت اور فروغ کے لیے ہمہ جہت جہد و جہد اور کوشش کرتے رہنا چاہیے۔ ، زبان کسی بھی قوم کے وجود و بقا کی ضمانت ہے، اور یہ اس کے تشخص اور تعارف کا بہترین ذریعہ ہے، جس قوم نے اپنی زبان کی حفاظت کرلی، اس نے گویا اپنے وجود و بقا کی گارنٹی اور ضمانت فراہم کرلیا۔۔ اسرائیلی (لوگ) برسہا برس دنیا میں ذلیل و خوار بھٹکتے رہے، ایک طویل مدت تک اس کا نہ کوئی علاقہ رہا اور نہ خطہ اور نہ حکومت، لیکن اس قوم نے اپنی زبان کا کبھی سودا نہیں کیا اور نہ ہی کسی زبان سے یہ متاثر ہوئے، اس نے ہیبرو (عبرانی) زبان اور اس کے رسم الخط کو باقی رکھا اور وہ اس کو مادری اور قومی زبان سمجھتے رہے، جس کا نتیجہ ہے کہ اس قوم کا آج وجود باقی ہے اور اس نے اپنا لوہا منوا لیا ہے ۔ وہ قوم جس کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر نہیں ہے، پوری دنیا کا ہیرو بنا ہوا ہے۔
کہا جاتا ہے اور یہ حقیقت بھی ہے کہ اگر کسی قوم کے وجود کو مٹانا ہو اور اس کی ملی اور تہذیبی شناخت کو ختم کرنا ہو،تو اس کی زبان اور اس کے رسم الخط کو مٹا دو، وہ قوم خود بخود مٹ جائے گی اور اس کی شناخت ختم ہوجائے گی۔۔
آج مسلمانوں کے خلاف بھی یہ سازش ہورہی ہے کہ ان کا رشتہ اردو سے کاٹ دیا جائے یا کم ازکم اردو کا رسم الخط بدل دیا جائے، تاکہ یہ زبان اپنی موت آپ مرجائے۔۔ اس کے لیے حکومت کے پاس جتنے حربے ہیں وہ سب استعمال کر رہی ہے۔ موجودہ قومی تعلیمی پالیسی جو کئی سو صفحات پر مشتمل ہے، اس میں اردو کا تذکرہ تک نہیں ہے اور اگر ہے بھی تواشارہ و کنایہ میں ہے۔ اسی طرح نظامیہ مدارس کے حوالے سے بھی کوئی گفتگو نہیں آئی ہے، جو آج اردو کی بقا ، حفاظت اور فروغ کا سب سے بڑا ذریعہ ہے ۔
اس لیے اردو زبان کی بقا و حفاظت کی کوشش، آج ہم سب کو خود حل کرنا ہے، کیونکہ اس کی حفاظت سے ہمارا ایمان و عقیدہ محفوظ رہے گا ہماری ملی قومی اور دینی شناخت کی حافظت ہوگی، اس کے لیے ہم سب کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا اور اس کے لیے فکر مند ہونا ہوگا۔۔
ہندوستان بلکہ پورے بر صغیر میں ہماری علمی وراثت فارسی کے بعد بہت حد تک اردو زبان میں محفوظ ہے، اس زبان کے ذریعہ اسلام کی اشاعت بھی ہوئی ہے اور اس ملک کی تعمیر و ترقی اور آزادی میں بھی اردو زبان کا بڑا دخل رہا ہے، اس زبان نے دلوں کو جوڑنے اور سماج کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ زبان کسی ایک علاقہ اور خطہ کی نہیں ہے یا ایک مذھب والوں کی زبان نہیں ہے، بلکہ دنیا کے بہت سے ملکوں میں یہ زبان بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ ہندوستان کے بہت سے صوبوں میں اس کو دوسری زبان کی حیثیت حاصل ہے۔ اقوام متحدہ نے بھی بین الاقوامی زبان کی حیثیت سے اس کو تسلیم کیا ہے۔۔
اس زبان میں جو مٹھاس ہے اور چاشنی ہے، وہ عربی اور فارسی کے علاوہ کسی اور زبان میں نہیں پائی جاتی ہے۔ اردو کئی زبانوں کی زبان ہے اس اعتبار سے بھی اس کی ایک الگ پہچان اور شناخت ہے۔۔
لیکن افسوس کہ آج اردو زبان رو بزوال ہے، اس میں بہت زیادہ گراوٹ آگئی ہے، اردو کی روٹی کھانے والے خود اس سے بے اعتنائی برت رہے ہیں اور اس کا جنازہ نکال رہے ہیں۔ جو بہت افسوس کی بات ہے۔۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ یہ زبان زندہ رہے اور اس کے ذریعہ سے ہماری تہذیب، شناخت باقی رہے اور ہمارے علمی ورثہ کی حفاظت ہو تو ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اردو کے تحفظ کے لیے اور اس کی حفاظت کے لیے تن من دھن کوشش کریں اور اس زبان کو زندگی اور تابندگی بخشنے کے لیے وہ سب کچھ کریں ، جو اس کے لیے ضروری ہے۔۔۔ انفرادی اور اجتماعی طور پر کیا کوششیں ہوسکتی ہیں ان میں سے چند باتیں ہم یہاں بیان کرتے ہیں۔
اردو کتابوں کے مطالعہ کا ہم سب اہتمام کریں، گھر والوں کو بھی اس کا پابند اور مکلف بنائیں۔
گھر میں یا ہم جہاں کہیں رہیں اردو بولنے کا اہتمام کریں، بلکہ اردو زبان میں ہی گفتگو کریں۔ اور گھر کے تمام افراد کو بھی اس کی تاکید کریں۔
گھر میں اردو کتابوں کا بڑا ذخیرہ رکھیں جس کے مطالعہ سے دینی اور ادبی معلومات میں اضافہ ہو۔
ہر گھر میں اردو کی کئی کئی لغتیں اور ڈکشنریاں ہوں۔ خاص طور پر فیروز اللغات، لغات کشوری، فرہنگ آصفیہ اور قومی لغات وغیرہ
کم از ایک اردو روزنامہ اخبار ایک ہفتہ واری اخبار اور ایک ماہنامہ مجلہ ضرور جاری کروائیں اور اہتمام سے اس کا سارے لوگ مطالعہ کریں۔
ادبی اور شعری نشستوں کا اہتمام بھی اردو، کے فروغ میں بہت موثر ہے اس لیے اس کا بھی اہتمام ہم سب کریں۔ اور وقفہ وقفہ سے ادبی پروگرام ضرور منعقد کریں۔
اپنی دکانوں کے بورڈ اردو میں بھی لکھوائیں۔ اور اس کی تشہیر کے لیے جو پمپلٹ شائع کریں اس کو اردو میں بھی لکھوائیں۔
ہر بڑی آبادی میں اردو لائبریری کے قیام کی فکر کریں، کیونکہ اس سے پڑھنے لکھنے اور مطالعہ کا ماحول بنے گا۔
اردو کے نام پر بحال ملازمین اور حضرات اساتذہ اردو زبان کی ترقی کے لیے ضرور کوشش کریں۔ کیونکہ وہ ان کی روزی روٹی کا ذریعہ ہے۔
جن محکموں میں اردو میں درخواست دی جاسکتی ہے اور وہاں اردو مترجمین بحال ہیں وہاں ضرور ہم اردو میں درخواست پیش کریں۔
جن اسکولوں میں اردو یونٹ نہیں ہے وہاں اس کے لیے بااثر لوگ کوشش کریں اور جہاں پہلے سے یونٹ موجود ہے لیکن اساتذہ نہیں ہیں، جگہ خالی ہے، اس جگہوں کے پر کرنے کے لیے جد و جہد کریں۔
اردو کی ترقی کے لیے جو کمیٹیاں اور انجمنیں ہیں وہ اردو کے فروغ کے لیے جی جان لگا کر کوشش کریں۔
جو لوگ اردو کی خدمت کر رہے ہیں، مصنف ہوں یا مولف ادیب ہوں یا شاعر مترجم ہوں یا صحافی ہم ان کی مالی اعانت بھی کریں اور ان کو اسناد اور طمغے سے بھی نوازیں تاکہ ان کی حوصلہ افزائی ہو اور وہ جی جان لگا کر اس کی خدمت میں مصروف رہیں۔۔
ہر گھر میں بچوں کے لیے بھی لائبریری قائم کریں جہاں ادب اطفال یعنی بچوں کے ادب پر جتنی کتابیں ہیں ان کو ضرور اکھٹا کرین۔ مائل خیر آبادی ، طالب ہاشمی عقیدت اللہ قاسمی شفیع نیر حکیم سعید دھلوی اور ابو المجاہد زاہد بچوں کے مشہور ادیب ہیں۔ ان کی کتابوں کو خریدیں اور بچوں کو انہیں پڑھنے کا مکلف بنائیں۔
اپنے بچوں کو حفظ اس وقت کرائیں جب ناظرہ کے ساتھ اردو ٹھوس ہوجائے۔ اس سے پہلے حفظ میں داخلہ نہ کرائیں۔ نیز اپنے بچوں اگر کونونٹ میں پڑھا رہے ہیں تو اس کے الگ سے ان کی اردو کی تعلیم کا بھرپور انتظام کریں اس کے لیے اتالیق رکھیں۔
مدارس اسلامیہ میں فراغت تک نصاب میں اُردو کتابوں کو شامل کیا جائے اور نظم و نثر کی جملہ اصناف کیساتھ اُردو قواعد میں ان کو ماہر بنایا جائے ،اس کے لئے اردو زبان کےماہر علماء کرام باقاعدہ نصاب تیار کریں ، زمانہ کے اسلوب کی رعایت کرتے ہوئے ۔
امید کہ ان گزارشات پر عمل کرنے کی ہم سب بھر پور کوشش کریں اور اس زبان کو زندہ و تابندہ رکھنے کی کوشش کریں۔
نوٹ / اس مضمون کو دوسروں تک بھی ایک امانت اور صدقئہ جاریہ سمجھ کر پہنچائیں ۔
Comments are closed.