صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تنقید سے بالا تر ہیں

 

مفتی احمد نادر القاسمی

اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا

صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی شخصیات پر گفتگو کوٸی اجتہادی مسٸلہ نہیں ہے کہ لوگ راۓ زنی کریں۔۔۔

پیارے حبیب نبی خاتم المرسین ﷺ کے چہیتوں اور امت کے سب سے مکرم ومحترم۔اور اللہ رب العالمین کی پسندیدہ اور منتخب جماعت صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کےبارے میں قیامت تک آنے والے اشخاص میں سے کس کوبھی ایک لفظ بھی ایسا استعمال کرنے کی نہ تو اجازت ہے اورنہ حق واختیار جس سے ان کی تنقیص ہوتی ہو یاان کی شان میں کمی کا تاثر پیداہوتاہو۔اگر کوٸی شخص ایسا کرنے کی جرأت کرتاہے ۔چاہے شیعہ ہو، سنی ہو، دیوبندی ہو، بریلوی ہو، وہابی ہو اہل حدیث ہو، ہماشما کوٸی بھی ہو تووہ شریعت کی نظر میں گستاخ تصور کیاجاۓ گا۔

اگر کوٸی شخص ایسا کرنے کی جسارت کررہاہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو ان مندرجہ ذیل تین زمروں میں شامل کررہا ہے جو بلاریب دنیاوآخرت دونوں میں باعث ہلاکت وبربادی ہے۔

1۔صحابہ یاصحابیات کےبارے میں تنقیدی زبان کھولنے کا مطلب یہ ہواکہ سب سے پہلے تو وہ قران کے راوی کو متہم کررہا ہے اورراوی قران کومتہم کرنانعوذ باللہ قران کی حقانیت کو مشکوک کرنے کی نازیبا حرکت ہے اسلۓ کہ جب کسی بات کو کہنے والا شخص ہی کریکٹر کا ہلکا قرار پاجاۓ گا تو اس کے حوالے سے آٸی ہوٸی بات بھی اس درجہ کی نہیں رہے گی۔جو اس کامقام ہے اسی کے ساتھ آپ اس بات کوبھی شامل کرلیجٸے کسی آدمی کی ذات پر تبصرہ یا اس کی بات کی تردید کی جرأت کون کرتاہے۔جو اپنے آپ کو اس کٹیگری کا انسان سمجھتاہے۔بھلا یہ بتاٸیے ایساکرنےوالےاور اپنے ذہنی مفروضےسے کسی صحابی کو صحیح اورکسی کو غلط ہونے کی راۓقاٸم کرنے والے شخص کا قد اتنااونچاہے یاہوسکتا؟۔ہرگز نہیں۔کوٸی کتنا بڑے سے بڑا آدمی اپنے زمانے کاہوجاۓ ایک ادنی صحابی کے بھی مقام تک نہیں جا سکتا۔توپھر اس جرأت کی مجال کیسے؟

2۔وہ اس انسانیت کی منتخب اورمقدس جماعت کو متہم کررہاہے جس کواللہ نے بغیر کسی قید وبند کے اپنی پسندیدگی کاپروانہ دےدیاہے۔ گویا وہ اللہ کے اس فیصلہ پر راضی نہیں ۔اس کامطلب تویہ ہوا کہ اللہ رب کریم کافیصلہ اپنی جگہ پر نعوذ باللہ ہمارے من میں جوآۓ گا ہم وہ مانیں گے اور کریں گے۔اگرمعاملہ ایساہی ہے تووہ اپنے ایمان ہی کی خیر مناۓ ۔

3۔اگر وہ خود کو کسی صحابی کی ذات پر انگشت نماٸی یاتنقید کو حق بہ جانب گردانتاہے تو گویاوہ نبی خاتم المرسلین سرور کونینﷺ کے انتخاب۔تربیت اوراعتماد۔نیزفیصلے پر انگشت نماٸی کررہاہے۔نبی کے دنیاکوتربیت دے کر حوالے کۓ ہوۓ بےلوث سرمایہ پرچیں بہ جبیں ہے۔جس کی ہدایت قران نے کی ہے۔ خواہ وہ دینی ہویادنیوی۔مادی ہو یاروحانی۔”ماآتاکم الرسول فخذوہ۔ومانھاکم عنہ فانتھوا“

کیا کوٸی صاحب بصیرت شخص جوآخرت کی جواب دہی پرایمان رکھتاہو خود کو اس زمرے میں شامل کرنے یاہونے کی نادانی کر سکتاہے؟۔ہرگز نہیں۔کسی بھی صاحب ایمان۔ اہل علم۔ کتاب وسنت اورتاریخ اسلامی پر نظررکھنےوالےشخص کو۔خلافت کے نام پر۔ملوکیت کےنام پر۔ جمہوریت اورشوراٸیت کے نام پر اور اہل بیت سے محبت کے نام پر۔یہ حق نہیں ہے کہ کسی صحابی کو اپنے تنقیدی نشتر کانشانہ بناۓ۔ بلکہ میں یہ تک کہنے کی جرأت کروں گاکہ اگر کوٸی ایسی بات جو طبری اور بدایہ والنھایہ یا تاریخ کی کسی کتاب میں بھی موجود ہے تو وہ لاٸق اعتنا ٕ نہیں ہے۔ہرگز قبول نہیں کی جاۓ گی۔صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم کے درمیان رونما ہونے والے۔تاریخی واقعات اپنی جگہ وہ انکا اپنااجتہادی معاملہ ہے۔اور اسکی جواب دہی عنداللہ خود ان کی اپنی ہے ۔اورشان صحابیت اور مقام اپنی جگہ ہے۔ہمارے سامنے جومقام خلفا ٕ اربعہ کا۔خلفا ٕراشدین کا۔ عشرہ مبشرہ کا۔ اہل بیت کا اور عام صحابہ کرام کا اصولی طورپرکتاب وسنت اور سلف صالحین کی تشرحات کی روشنی میں آیا اورامت کےسواداعظم نےماناہے۔ ہم ان کو اعتقادی طور پرتسلیم کرنے کو ذریعہ نجات تصور کرتے ہیں۔

صحابہ کرام کی ذات سے جڑاہوامعاملہ تسلیم ورضا کاہے ۔یہ کوٸی فقہی جزٸیہ اوراجتہادی معاملہ نہیں ہے کہ ہر کوٸی اپنی راۓ دینے اور ان کی حیثت طے کرنے بیٹھ جاۓ اورکوٸی راۓ قاٸم کرے۔بلکہ یہ کتاب وسنت اورارشادات رسول کی روشنی میں واضح اورثابت ہونے والا اعتقادی مسٸلہ ہے جوصرف ماننے اوراعتقاد رکھنے سے تعلق رکھتاہے۔۔راۓ زنی کانہیں ہے۔یہ تو مسشرقین اورملحدین کی کج فہمی ہے کہ انھوں نے صحابہ کرام کے کردار پر انگلی اٹھاکر اور انکے بےداغ کارناموں کو داغدارکرکے اسلامی شریعت اورذخیرہ حدیث کو بے وزن کرناچاہاہے۔اہل ایمان کو ان کی شان میں ہمیشہ زبان ہوشمند استعمال کرنے کی کوشش کرنی چاہے اسی میں نجات ہے۔اور أخیر میں یہ تلخ بات گوارہ کرلیجٸیے بہت لوگ خلافت اورملوکیت کی بحث چھیڑ کر ذہنی تسکین کرتے رہتے اور اس کی آڑ میں صحابہ کرام شان تک بے اعتدالی کی حدتک پہونچ جاتے ہیں ۔کیوں نہیں مسلم ملکوں میں خلافت قاٸم کرلیتے اور وہی خلفا ٕ راشدین کاشفاف نظام راٸج کرلیتے کس چیزنے روک رکھاہے۔؟ لوگ پہلے اپنے دلوں کو صاف کریں اور اللہ کے احکام کے آگے مکمل طور پر سرنگوں اورتسلیم ورضااورسمع وطاعت کامزاج پیداکریں۔کسی کوکرناکچھ نہیں صرف ایک دوسرے کوموردالزام ٹہراناہے ۔نہ کسی کو خلافت راشدہ سے سروکار ہے نہ کتاب وسنت کے احکام کےاجرا ٕ سے۔۔معافی چاہتاہوں اگر کوٸی بات تلخ اورناگوارخاطر ۔اورتنقید گروپ کی پالیسی خلاف ہو ۔ اللہ تعالی پوری امت کو حق وسداد پرقاٸم رکھے۔آمین

Comments are closed.