وہ تو خیر ہے کہ وکاس دوبے کوئی سلیم اور ندیم نہیں ہے….!

مفتی احمد نادر القاسمی

اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا

آج ملک کے آٹھ پولیس اہلکارکے ایک آتنکی وکاس دوبے اور اس کے گرگوں کے ہاتھوں کانپور میں اپنی جان گنوانے پر پورے ملک میں گہرام مچاہواہے۔مگر ملک کی گودی میڈیا اور اباب اقتدار کی زبان اور کردار کا اندازہ لگاٸیے۔۔یہی اگر کوٸی ایسا شخص ہوتا اوربدقسمتی اسکے نام کے ساتھ سلیم اور ندیم لگا ہوتا تو پھر دیکھتے میڈیا کاجلوہ ۔اور پولیس اہلکاروں کاایکشن۔وہ کوٸی بڑا آتنک وادی ہوتا اور مسلمان آتنک وادی ہوتا۔اور پولیس اس کی آڑ میں کانپور کے نہ جانے کتنے گھروں میں طوفان مچارہی ہوتی ۔کتنے نوجوانوں کو اس کاساتھی بتاکر انکاونٹر کیاگیاہوتا۔ مسلم محلوں اورگھروں میں مجرموں کو پناہ دینے کے نام پر آگ لگاٸی گٸی ہوتی۔کتنے نوجوانوں کے پاس صرف ان کا موباٸل نمبر ہونے کی بنیاد پر مجرم بنیاگیا ہوتااور ان کویاتو موت کی گھاٹ اتار دیا جاتا یامدتوں کے لٸیے جیل کی سلاخوں میں ڈالا جاتا۔۔نہ جانے کن۔کن ملکوں اور آتنکی سنگٹھنوں سے ان کے تارجوڑے جاتے جن کاکبھی انھوں نے نام بھی نہ سناہوتا۔۔پوری مسلم قوم اس کی وجہ سے دہشت میں مبتلا کردی ہوتی۔۔یوگی جی پوری مسلم قوم کے خلاف آگ اگل رہے ہوتے۔دوچار ملابھی ان کی وجہ سے پوری مسلم قوم کو گالیاں دینے اورکوسنے کے لٸے۔ٹی اسکرین پربلالٸے ہوتے۔۔ٹی وی پر کہیں بلابول ۔کہیں مقابلہ۔ کہیں آمنا سامنا پروگرام چل رہاہوتا۔انڈیا ٹی وی بھی کسی ایسے سوال کرنے والے کو پکڑ لے آیاہوتاکہ۔”ہم مانتے ہیں کہ سارے مسلمان آتنک وادی نہیں ہوتے ۔مگر جوپکڑا جاتاہے۔وہ مسلمان ہی کیوں ہوتاہے“اور وہ بھی نہیں بخشاجاتا جن کے ساتھ ان کی تصویریں ہوتیں۔گودی۔میڈیا ان کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر لاتی اور خوب نٸے نٸے رشتہ تلاش کرتی اور جوڑتی۔ ۔آج کیوں گودی مڈیا کا وہ صر نہیں ہے؟ ۔کیا۔صرف اسلٸے کہ اس کانام وکاس دوبے ہے ۔کوٸی سلیم اور ندیم نہیں ہے۔آج صرف وہ ایک سر پھرا گینگسٹر اوربدماش ہے۔اسے کہتے ہیں۔جرنلزم جانب داری۔

آج ملک کے لٸے یہ سوال بھی بڑا اہم اور غور طلب ہے۔مکہ مسجد میں دھماکہ ہوتو مسلمان پکڑا جاۓ۔اجمیر میں ہوتو مسلمان کانام آٸے۔مہرولی میں دھماکہ ہوتو مسلم نوجوانوں سے جوڑاجاۓ۔ملک میں کہیں کچھ ہوجاۓ۔نام ۔نامی چور”بہادر “کا آٸے۔یہ مثل بہار میں مشہور ہے۔یہ سلسلہ گانگریسی اقتدار میں بھی تھا اور ۔اب جب سے حکمراں جماعت برسرے اقتدار ہے۔بطور خاص ملک میں کہیں ۔اس طرح کی وارتیں کیوں نہیں ہورہی ہیں۔؟ اس کا مطلب ہے کہ کوٸی گروہ ہے جوہمارے ملک کو کھوکھلا کرنا اور سفید وسیاہ کامالک بننے کی خواہش میں وہ سب کروا رہاتھا اور سارے گناہ اس مجبور وبے بس قوم کے سر مڑھ رہاتھا۔میں اپنے ملک کی برسرے اقتدار جماعت کو یہ مشورہ دونگا کہ ملک کو بچاٸیے ہمارے قاٸدین اور سیاسی رہنماووں کے پاس بڑی سمجھ اور سوجھ بوجھ ہے وہ ملک چلارہے ہیں۔ان کے اوپر اتنے بڑے ملک ایکسو پینتیس کڑور انسانوں کی ذمہ داری اور جواب دہی ہے۔۔ملک کے عوام نے ان پر اعتماد کرکے ذمہ دارنہ عہدے تک پہونچایاہے۔ وہ تمام عناصر جو ملک کی قومی اور جہوری دیواروں کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں ۔ان سے ملک کو پاک کیجٸے۔مذھبی۔اور نسلی وقومی تعصب اور جانب داری کا عینک اترٸیے۔مشترکہ۔اور حقیقی ۔”سب کا ساتھ سب کاوکاس“ والے فارمولے کو حقیقت کاروپ دیجۓ۔اس میں بہت جان ہے۔ ملک کے جرنلزم شعبہ کو ہدایات جاری کیجٸے کہ وہ ایسی زبان اور لہجہ اختیار کریں جو ملک کو جوڑنے والا ہو تفریق پیدا کرنے والا اور جانب دارانہ نہ ہو ۔ان تمام ایسے تتوں کو جڑسے ختم کرنے کی جانب توجہ دجٸے جو دیش کی یکجہتی کا گلہ گھونٹنا چاہتے ہیں تب ملک میں خوشحالی کے پھول کھلیں گے۔ملک آگے بڑھے گا۔ اور” آتم نربھربھارت“اور خوداعتماد۔نٸے بھارت کا نرمان ہوگا ۔پورا ملک اپنے ملک کی بقااور محبت میں ہمیشہ اپنی حکومت کے ساتھ گندھے سے گندھا ملاکر چلتارہا ہے ۔اور آج بھی اپنی لاچاری اور بے بسی اور پیٹ پر پتھر باندھ کر بھی کھڑا ہے۔شاید کہ اترجاۓ ترے دل میں مری بات۔

Comments are closed.