Baseerat Online News Portal

شرعی رہنمائی:ہیلتھ انشورنس اورموجودہ حالات،ایک شرعی جائزہ!

مفتی احمدنادرالقاسمی
اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا
ہیلتھ انشورنس جو اپنی حقیقت اورمعاملات کی نوعیت کے اعتبارسےجوئے،قماراورسٹے جیسے غیرشرعی امور کوشامل ہے۔
اس وقت دنیا کی بڑی بڑی تجارتی کمپنیاں اور بطور خاص جوطب وعلاج اورمیڈیکل سے وابستہ ہیں،اپنی کمپنیوں اورشرکاء کونئی زندگی دینےاورکاروبارچلانے کے لئےعالمی پیمانے پرحکومتوں کوبھی اورانفرادی طورپربھی لوگوں کو علاج کے بڑے بڑے پیکج کی ترغیب دیتی ہیںتاکہ حکومتیں ان سے معالجاتی معاہدے کریں اوراپنے عوام کو اپنی اسکیموں کے ذریعہ اس پر آمادہ کریں۔
اس طرح نجی اور پرائیویٹ کمپنیاں اور میڈیکل انشورنس کے ادارے بھی ہیں جو اس میدان میں کام کرتے ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ اس وقت میڈیکل انشورنس کایہ معاملہ سرکاری اور غیرسرکاری سطح پرکس طرح انجام پاتاہےاور اس کی کتنی صورتیں ہیں؟
بہرحال غور کرنے سے ہیلتھ انشورنس کی تین شکلیں سامنے آتی ہیں:نمبر1 :مکمل سرکاری۔ جوسرکاری ملازمین کے لئےلازم ہے۔نمبر2 : غیرسرکاری کمپنیز کی طرف سے ملازمین کےلئے انشورنس۔یہ بھی سرکاری ہدایات کے مطابق بعض اوقات لازمی ہوتے ہیںجیسے بعض مسلم ملکوں میں ہے۔نمبر3 :عام لوگ جوکسی ملازمت وغیرہ سے وابستہ نہیں ہوتے۔
سرکاری ملازمین کے ہیلتھ انشورنس کی شکل یہ ہوتی ہے کہ ملازم کی مرضی کا اس میں دخل نہیں ہوتا۔ملازم چاہے یانہ چاہےاس کاL.ICبھی ہوگااور میڈیکل انشورنس بھی۔سرکاری ملازمین کو علما ٕ اور ماہرین شریعت مضطر کے حکم میں رکھتے ہیںاوراضطرار کی وجہ سے ان کو مجبورکے زمرے میں رکھ کراس مجبوری اورعمل کو انکے لئے رافع اثم مانتے ہوئےشرعی قباحت اورقمار وجوئے کے گناہ سے ان کو مستثنی قرار دیتے ہیں۔
اس کے علاوہ پرائیویٹ ملازمت میں وہ کمپنیاں جن کو حکومت مجبور کرتی ہے کہ آپ کو کمپنی چلانے یا باقی رکھنے کےلئے اپنے ملازمین کا میڈیکل انشورنس لازما کراناہوگا،ان کے بارے میں بھی علما ٕ کی رائے شریعت کے مقاصد خمسہ:حفظ جان ،حفظ دین،حفظ نسل ،حفظ عقل،حفظ مال اورخود اپنے اور اپنے ماتحتوں کی بنیادی ضروریات زندگی کے حصول اورمصالح ،نیز دفع مضرت کے پیش نظرجواز اورکمپنیوں کی طرف سے میڈیکل انشورنس کئے جانے کے باوجودوہاں ملازمت کرنے اوراپنی ملازمت کوان کمپنیوں میں جاری رکھنے کی ہےاور اسے بھی علما ٕ ضرورت وحاجت اوراضطرار کے زمرے میں ہی شامل کرتے ہیں۔اوریہ کمپنیاں بھی حکومت کے نہج پرہی ملازمین کی تنخواہ سے ہرسال انشورنس کی رقم وضع کرتی ہیںاورنیاسال شروع ہوتے ہی پچھلی رقم ختم ہوجاتی ہے۔
تیسرےعام لوگ ہیں جن پرانشورنس کرنے کےلئے کسی کا دباؤ نہیں ہے،بلکہ وہ محض بیماری کے خوف اور مستقبل کے اندیشوں میں مبتلاہوکرکہ اگر میں بیمار ہوا تو اتنے پیسے کہاں سے آئیں گے؟یااس لالچ میں کہ اگر میں بیمار ہواتو خطیر رقم کا میڈیکل ٹریٹمنٹ مجھے اس انشورنس کی وجہ سے مل جائے گا ،میڈیکل انشورنس کرواتے ہیں۔پرائیویٹ کمپنیوں کا نشانہ ایسے ہی افرادہوتے ہیں۔ایسے لوگ جو اضطرار وضرورت کے زمرے میں نہیں آتے ان کے لئے آیت قرانی:”یاایھا الذین آمنوا إنما الخمروالمیسروالأنصاب والأزلام رجس من عمل الشیطان فاجتنبوہ لعلکم تفلحون۔“(سورہ مادہ:٩٠)(اے ایمان والو بے شک شراب ،جوا،مورتیاںاورفال نکالنے کےتیر گندی باتیں اورشیطانی کام ہیں۔ان سے بچو تاکہ تمہارا بھلاہو) کی روسے میڈیکل انشورنس کرانے کو شرعاممنوع اورناجائز قراردیاگیا ہے۔چونکہ معاملات کے اعتبار اس کے اندر قمار اور جوئے جیسی چیزیں پائی جاتی ہیںجو کسی بھی اہل ایمان کے لئے روا نہیں۔یہی وجہ ہے کہ اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے پندرہویں انٹرنیشنل فقہی سمینار منعقدہ جامعہ صدیقیہ میسور میں شرکا ٕ سمینار اور علما ٕومفتیان نے اجتماعی طور پراسے ناجائز قرار دیا۔اور مندرجہ ذیل فیصلے کئے:
1۔میڈیکل انشورنس ۔انشورنس کے دوسرے تمام شعبوں کی طرح بلاشبہ مختلف قسم کےناجاٸزامور پر مشتمل ہے۔لہذا عام حالات میں میڈیکل انشورنس ناجاٸز ہے۔اوراس حکم میں سرکاری وغیر سرکاری اداروں میں کوٸی فرق نہیں ہے۔۔
2۔اگرقانونی مجبوری کے تحت میڈیکل انشورنس لازمی ہوتواس کی گنجاٸش ہے۔لیکن جمع کردہ رقم سے زاٸد جوعلاج میں خرچ ہو صاحب استطاعت کےلٸے اس کے بقدر بلانیت ثواب صدقہ کرنا واجب ہے۔
اب آپ اس فیصلے پر غور کریں اپنی نوعیت اور حقیقت کے اعتبار سے یہ ایک شرعی اعتبار سے ممنوع عمل ہے اور عام ہے۔غیر مسلم ممالک کی تو میں بات نہیں کرتا۔ کیونکہ وہ اسلام کے مکلف اوراحکام دین کے مخاطب نہیں ہیں ۔مگر مسلم ملکوں میں ۔قانون کی روسے سرکاری اور۔غیرسرکاری ہر سطح پر عام ہے ۔اوربغیر کسی دینی شرعی تأمل کے ہورہاہے ۔بلکہ وہاں کے معاشرہ کا جزبن چکا ہے۔یہ کیوں ہے۔؟ اس کی دلیل ان حکومتوں کے پاس کیا ہے ؟۔اور کیوں اپنے سرکاری غیر سرکاری ملازمین کو اس پر مجبور کرتی ہے۔اللہ ہی کو معلوم اس کی جواب دہی کے ذمہ دار خود وہاں کی حکومت اور علما ٕومفتیان ہیں کہ وہ کس طرح اس کو اختیار کے باوجود اضطرار کے زمرے میں شامل کرتے ہیں۔وہ ۔تووہ خودہی جانیں۔ ہم تو صرف اتنا کہ سکتے ہیں:”ولاتزروازرة وزر أخری“(سورہ اسرا:١٥)
اب دوسری بداحتیاطی پر بھی غور فرمالیجٸے ۔کتنے ایسے صاحب استطاعت لوگ ہیں جو اسپتال سے انشورنس کافاٸدہ اٹھا کر آتے ہیں اور حساب جوڑ کر اپنی جمع کردہ رقم سے زاٸد بلانیت ثواب صدقہ کرتے ہیں۔؟۔الاماشا ٕاللہ۔اس طرح ہماری زندگی میں سود قمار ۔سٹے اور جوۓ جیسے شیطانی اعمال داخل ہوتے جارہے ہیں۔اور ہمیں اس کی حرمت کا احساس تک نہیں ہے۔اللہ حفاظت فرماۓ۔
اب اس وقت موجودہ حالات کے پس منظر میں بڑی تعداد میں یہ کمپنیاں میڈیکل کیٸر کی بڑی بڑی اسکیموں اور اضافی آفرس کے ساتھ میدان میں ہیں۔خوب موبائل پہ پیغامات موصول ہوتے ہیں ۔لوگوں کے فون آتے ہیں ۔حکم شرعی جاننے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مختلف طرح سے گھما پھیرا کر سوالات کرتے ہیں ۔حالات کی ابتری اور معاشی پریشانی کی بات کرتے ہیں۔۔میں نے سوچا اہل نظر تک اس کی شرعیہ پوزیشن پہونچ جاۓ۔تاکہ ساٸل کو مطمٸن کرنا اور ان کی دینی رہنماٸی کرنا آسان ہو۔۔”ان اللہ اشتری من المومنین انفسھم وأموالھم بأن لھم الجنة۔“(سورہ توبہ:١١١)
خلاصہ بحث:
اس پور بحث کا خلاصہ یہ کہ مڈیکل انشورنس کے ناجاٸز ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہ معاملہ وقت کے ساتھ مشروط ہوتاہے ۔کہ اگر آنشورنس کرانے والا شخص اس مدت میں بیمار ہواتو اس کو اضافی پیکج کا فاٸدہ ملے گا اور اگر بیمار نہیں ہواتو اس نے جو پیسے انشورنس میں جمع کٸے تھے وہ ختم اورسوخت ہوجاٸیں گے ۔اور یہی جوۓ میں ہوتاہے ۔اسلٸے معاملہ کی یہ شکل ایک طرح علاج کے نام پر جوۓ اور سٹے کی بنتی ہے۔جو بنص صریح حرام اور ممنوع ہے۔
اسے سامنے رکھتے ہوۓ اہل ایمان کوچاہٸیے کہ اپنے حال اور مستقبل میں۔پیش آنے والے معاملاتاور نفع۔نقصان ہر چیز میں اپنے خالق ومالک کی ذات پر اعتماد وبھروسہ رکھے۔وھو علی کل شیٸ قدیر۔۔۔وعلی اللہ فلیتوکل المومنون۔۔اللہ تعالی ہر بلا اور آزماٸش سے اہل ایمان کو محفوظ رکھے آمین۔

Comments are closed.