Baseerat Online News Portal

ڈاکٹرکفیل خان؛ ایک مظلوم مسیحا

عبدالمالک عینی مصباحی،بنارس
ڈاکٹر کفیل خان، ایک ایسا نام جو بےبسوں کے حق میں مرہم کی حیثیت رکھتا ہے۔جس نے بحیثیت ڈاکٹر اپنے فرائض انجام دینے میں کبھی بھی غفلت نہیں کی۔وہ جہاں اپنے مذہب پر پابندی سے عمل پیرا ہیں وہیں اپنی ذمہ داری کے تئیں انتہائی حساس بھی ہیں، انہوں نے کبھی بھی مریضوں میں مذہب، ذات پات، رنگ و نسل اور اونچ نیچ کی وجہ سے فرق نہیں کیا بلکہ ہمیشہ ان کا مطمح نظر مریض، مرض اور اس کا بہتر سے بہتر علاج ہی رہا ہے۔
گورکھپور کے ایک متوسط گھرانے سے تعلق ہونے کی وجہ سے ڈاکٹر کفیل خان کی شہرت کا دائرہ بہت محدود تھا؛ لیکن دشمنوں کی مخالفت اور الزام تراشیوں نے ان کی شخصیت میں چار چاند لگا دیا اور ہرمرتبہ ان کی بے گناہی نے اتنا شور مچایا کہ ہزاروں دل ان کے نام کے ساتھ دھڑکنے کے عادی ہوگئے۔ وہ اگست ٢٠١٧ء میں اس وقت سرخیوں کا حصہ بنے جب انہوں نے اتر پریش کے بی آر ڈی (بابا راگھو داس) میڈیکل کالج کے سرکاری اسپتال میں بچوں کے وارڈ میں آکسیجن سیلینڈروں کی کمی کے وقت اپنی جیب سے پیسہ خرچ کرتے ہوئے کئی بچوں کی جان بچانے میں کامیاب ہوئے تھے۔ تاہم اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اتر پردیش کے وزیر اعلٰی یوگی آدتیاناتھ کے احکام پر اسی سال ٢ ستمبر کو انہیں گرفتار کر لیا گیا اور ایک خاطی کے طور پر ان پر مقدمہ چلایا گیا۔ یہ معاملہ ملک کے سبھی اہم ٹیلی ویژن چینلوں اور اہم اخبارات میں چھپتا رہا۔ تب سے ہر ضمانت کے لیے پیش کردہ ان کی درخواست پر ریاستی حکومت نے سخت احتجاج کیا۔ بالآخر اپریل 2018ء میں وہ قید سے اس لیے باہر آنے میں کامیاب ہوئے کیوں کہ انہیں خاطی قرار دینے کے لیے کوئی ثبوت موجود نہیں تھا۔
جب وہ باعزت بری ہوئے تو بلا لحاظ مذہب و ملت لوگوں نے ان کا قید سے باہر خیر مقدم کیا۔ آٹھ مہینے کی قید و بند کے بعد اس کا بیان تھا کہ وہ دماغی طور پر تھکا ہوا، جسمانی طور بیمار اور جذباتی طور پر ٹوٹا ہوا تھا۔ مستقبل کے بارے میں کفیل کا خیال تھا کہ اگر اترپردیش حکومت اسے سابقہ عہدے پر بحال کرے گی تو وہ حسب سابق خدمات انجام دے گا۔ بہ صورت دیگر وہ اپنا خود کا کلینیک شروع کرے گا جہاں اینسیفلائٹیس کے بچوں کا علاج کیا جائے گا۔
مئی ٢٠١٨ میں جب کیرلا نیپاہ وائرس کی چپیٹ میں تھا تو مذکورہ وائرس سے متاثر مریضوں کے علاج کا ارادہ ظاہر کیا اور انہوں نے کیرالہ کے وزیر اعلیٰ پینارائی وجین سے مریضوں کے لیے تعاون کرنے کی اپیل کی تھی، جسے وزیر اعلیٰ نے قبول کر لیا تھا اورانہوں نے ڈاکٹر کفیل کی تعریف اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر بھی کی کہ ایسے موقع پر ان کی پیش قدمی لائق ستائش ہے۔
بہار میں آنے والے سیلاب کے دوران انہوں نے مفت میڈیکل کیمپ لگائے جس سے بہت سارے ان لوگوں کو فائدہ پہنچا جن کی ڈاکٹروں تک رسائی ممکن نہیں تھی۔
ان سب کے بعد ڈاکٹر کفیل مزید ملک و ملت کی خدمات کے لیے پرعزم تھے ہی کہ شہریت کے متنازعہ قانون سی۔اے۔اے کے خلاف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ہونے والے ایک مظاہرے کے دوران مبینہ طور پر اشتعال انگیز بیان دینے کے جرم میں ٢٩ جنوری ٢٠٢٠ کو ممبئی ایرپورٹ سے گرفتار کرلیا گیا۔ یوگی حکومت کا ظلم اس وقت حد پار کر گیا جب انہیں ضمانت ملنے کے باوجود بھی رہا نہیں کیا گیا اور ان پر این۔ایس۔اے کے تحت کارروائی کرتے ہوئے طویل وقت کے لیے سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق اس وقت ڈاکٹر کفیل کے بھائی عدیل خان نے ایک اہم سوال اٹھایا تھا جس کے جواب کے لیے اب تک زبانیں گنگ ہیں انہوں نے کہا تھا: ١٩٨٥ میں سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق ضمانت کے فوراً بعد این۔ایس۔اے نہیں لگایا جاسکتا ہے۔ یہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے۔ ڈاکٹر کفیل کے خلاف جتنے بھی کیسیز ہیں ان میں سب میں ضمانت مل چکی ہے تو پھر اب نیا کیس کیوں؟
این ایس اے (قومی حفاظتی قانون ١٩٨٠) کے نفاذ اور اس کے پس منظر کو سمجھے بغیر ڈاکٹر صاحب کی مظلومیت کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ اس قانون کے تحت ان لوگوں کو، جو ملک و ملت کی حفاظت و سالمیت کے لیے بہت بڑا خطرہ ہوں ان کی وجہ سے سماج کی ہلاکت کا شدید اندیشہ ہو، بغیر اطلاع دیے اور بغیر جرم ثابت ہوئے مرکزی یا ریاستی حکومت یا ضلع مجسٹریٹ کے حکم پر گرفتار کیا جا سکتا ہے اور دس دن سے لے کر بارہ مہینے تک حراست میں رکھا جاسکتا ہے۔ افسوس جس شخص نے زندگی جن لوگوں کی فلاح و صلاح اور ان کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے وقف کردی اس کے ماتھے پر انہیں لوگوں کے خطرے کا داغ لگا کر دار و رسن کے حوالے کردیا گیا۔ ڈاکٹر کفیل کی انسان دوستی اور این ایس اے کا پس منظر پڑھ کر سیاہی سوکھنے لگی ہے اور ذہن پر ایسے سوالات ابھرنے لگے ہیں جن کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ کاش صفورا زرگر کی طرح ان کی رہائی کی بھی کوئی راہ نکل آتی۔

Comments are closed.