Baseerat Online News Portal

عالمی پیمانےپر 2020 میں ہونے والی اموات اور کورونا کا واویلا؛لمحہ فکریہ!

قول سدید: مفتی احمدنادرالقاسمی
اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا
موت وحیات کا فلسفہ:
اسلام کا مسلمہ عقیدہ اور واضح نظریہ ہے کہ انسان سمیت ہرجاندار کو اللہ تعالی جو اس کائنات کا خالق ومالک ہے ،زندگی بھی دیتاہے اور وقت مقررہ کے بعد اسے موت بھی دیتاہے۔وہی رب خالق وارض وسما ٕ موت وحیات کا خالق ومالک ہے ۔اس میں کسی کا عمل دخل نہیں ۔یہ تو انسان ہے جو اپنی دلی تسکین کے لئے ظاہری اسباب کو ہی جاندار کے فناہونے کی وجہ سمجھ بیٹھتاہے۔”تبارک الذی بیدہ الملک وھوعلی کل شیٸ قدیر ،الذی خلق الموت والحیات لیبلوکم أیکم أحسن عملا ،وھوالعزیزالغفور“(سورۃ الملک:١۔٢)
روح؛ایک ایسی غیر مرئی شئی اور جوہر لطیف ہے جو کسی چیز سے وابستہ ہوجائے تو وہ جاندار اور زندہ کہلاتی ہے،اس کے بھی مراتب ہیں۔ وہی روح انسان اور جاندار کے اندر بھی ہوتی ہے اوردیگر نباتات کے اندر بھی۔جب روح نباتات سے ختم ہوجائے تووہ خشک ہوجاتاہے اور جب وہی روح انسان، جانوراور دیگر رینگنے والے دموی اورخون والے حشرات الارض سے نکل جائےتو مردہ کہلاتے ہیں۔البتہ اطبا ٕ اپنی تحقیق کے مطابق جاندار اجسام سے روح کے نکلنے میں ترتیب قائم کرتے ہیں ،روح رفتہ رفتہ جسم سے نکلتی ہے۔پہلے ٹیشوز مرتے ہیں اور جسم کے دیگر سیلس کو موت واقع ہوتی ہے اور پھر پورا جسم روح سے خالی ہوتاہے۔مگراسلامی فلسفہ کے مطابق جس طرح یکبارگی روح کسی شئی کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے تو زندہ ہوجاتاہے اور جب روح نکل جاتی ہے مردہ ہوجاتاہے ۔اس میں کوئی ترتیب اورتدریج کامعاملہ نہیں ہے۔اس کی کیفیت کیا ہے؟ شکل کیاہے ؟انسان اس حقیقت سے آشنا نہیں ہے اور اس کو اسکاعلم دیاگیاہے یہاں تک کہ انبیا ٕ کوبھی نہیں۔اس کی حقیقت سے تو اس کا پیداکرنے والا خالق ورب ہی واقف ہے کہ کب آئے گی؟ کہاں آئے گی؟ کیسے آئے گی ؟”وماتدری نفس بأی أرض تموت“
”یہ حیات وموت کاہے فلسفہ * یہ سمجھ لے کس کی مجال ہے“
اسی لئے تو قرآن نے اس کی وضاحت کی:”یسئلونک عن الروح،قل الروح من أمرربی،وماأوتیتم من العلم إلا قلیلا“(سورہ إسرا ٕ۔٨٥)
جب سے یہ دنیا وجودمیں آئی ہے، ہر روز بے شمار جاندار پیداہوتے اور مرتے چلے آرہے ہیں ۔یہ سلسلہ حیات وموت جاری ہے۔اورتا قیام قیامت جاری رہے گا،انسان اس سے واقف اور آشناہے۔مگر انسان کی یہ فطرت ہے کہ وہ اس وقت مارے خوف کے تلملااٹھتاہے، جب موت کو اپنی نظروں کے سامنے دیکھتاہے۔اس وقت بھی روئے زمین پر آباد انسانوں کابڑا گروہ موت کوتو سمجھتاہے مگر روح کوجسم سے جداہونے کی حقیقت اور اس کے پیداکرنے والے سے آشنا نہیں ہےاور نہ ہی اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ وہ اپنے خالق کو پہچانےبلکہ محض اپنی جان بچانے کی محفوظ مقامات میں پناہ لینےیا من کی تسلی کی خاطر دوائیں وغیرہ لینے کی تدبیر لاحاصل کرتاہےجبکہ دوا بیماری کو تو ٹھیک کرسکتی ہے ۔مگر یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ دوا اور طبی تدابیر موت سے چھٹکارا نہیں دلاسکتیں۔
اس وقت عالمی سطح پر کوروناکے نام پر ایک کہرام برپا ہے ۔ ہر شخص ایک دوسرے کی ذات کو اپنی جان کے لئے خطرہ محسوس کررہاہے ۔پوری دنیا ایک دوسرے سے کترارہی ہے۔وسائل زندگی کی صنعتوں کی تیاری موقوف ہوگئی ہے،جینے کی تمناضرور ہے مگر جینے کے طریقوں سے مرنے اوربیماری چمٹ جانے کے خوف سے راہ فرار اختیا رکئے ہوئے ہے مگر اللہ ہی کو معلوم اس کاوجود ہے بھی یانہیں ۔بہر حال ایک دجالی خوف ہے جو اس کا پیچھا نہیں چھوڑرہاہےیاکسی مقصد کے حصول کے لئے مطلب پرست دنیا نے خوف وہراس کا جال بچھارکھاہے۔نہ تو دنیا جاننے کی کوشش کررہی ہے اور نہ ہی اس خوف کے طلسم سے باہر آرہی ہے۔پوری دنیا اس سے ہاری اورتھکی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔اب تھوڑی بہت چلت پھرت ہوئی ہے مگر کیفیت بس یہ ہے:
”اس بدنصیب شہر میں چلتے ہیں آدمی * اک دوسرے کے سائے سے بچ کر الگ الگ“
مگر دنیا کے اہل دانش سے یہ سوال ہے کہ لوگوں کے مرنے کی اوربھی بہت سی وجوہات ہیں ۔کبھی دنیا نے سنجیدگی سے ان پربھی غور کیا ؟ کبھی وہی بےچینی اور احتیاط جو اس وقت دکھائی جارہی ہے ،ان کے خاتمہ پربھی توجہ دی گئی؟ اور WHO جیسےاداروں نے واویلا مچایا ؟نہیں !کیونکہ ان سے معاشی اورسیاسی مفادات وابستہ ہیں ،لوگ مرتے ہیں تو مریں ہمیں اس سے کیا غرض ، ہمیں تو بس بزنس چاہئے۔
ذراغور فرمائیے!
ایک اہم اورمعتمد رپورٹ کے مطابق اسی سال 2020میں۔369602معمر حضرات کی موت ہوئی۔ملیریا بخارسے 340534افراد لقمہ اجل بنے۔353696 لوگوں نے خودکشی کی۔393479 اشخاص نےسڑک حادثے اور اکسیڈینٹ میں اپنی جان گنوائی ۔HIVایڈز جیسی مہلک بیماری سے 240950مریضوں کی جان گئی۔شراب اورالکحل سے5588471 لوگ موت کے گھاٹ اترے ۔سگریٹ،افیم ،چرس،کوکین اور دیگر نشیلی اشیا ءکے عادی لوگوں میں 816498 لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھے۔کینسرجیسی لاعلاج بیماری سے دنیامیں1167714مریضوں کی موت ہوئی اور اب دیکھئے جسےکرونا کہا جارہاہےاب تک دنیا میں صرف578446لوگوں کا انتقال ہواہے۔
اب موجودہ صورتحال کا تجزیہ کیجئے اور ہمدرد دنیا کی انسانی ہمدردی کا ماتم کیجئیے۔کیا کبھی دنیانے منشیات اور شراب پرپابندی لگانے کی بات کی؟ اورکرونا جیسی بےچینی پیداہوئی؟ جواب یہ ہے کہ نہیں۔آج پوری دنیامیں آبکاری اور شراب کی مصنوعات کا جائزہ لیں گے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ دنیا میں جتنے اہتمام اور خوبصورتی کے ساتھ شراب جیسا مھذب زہر بنایااورخوب صورت بوتلوں میں پیک کر کےفروخت کیا جاتاہے اتنے اہتمام سےانسان کو زندگی دینےوالا دودھ ،گھی اور حیات بخش اشیا بھی نہیں بیچی جاتی جبکہ شراب اور الکحل سے ساڑھے پانچ لاکھ لوگوں کی جان گئی۔ اسی طرح سگریٹ اور دیگر منشیات جبکہ8 لاکھ سے زائد افراد اس کی وجہ سے مرے۔اسی طرح کینسر جیسی بیماری پر دنیا اتنا بےچین ہوئی ؟ جبکہ 12 لاکھ کے قریب لوگ اس بیماری کی وجہ سے دنیاسےگئے۔دنیا نےٹریفک نظام کودرست کرنے یاکم کرنے اور گاڑی اور پیادہ کے راستے الگ کرنے ،چار چکہ اور دوچکہ گاڑیوں کے راستے الگ بنانے یا گاڑیاں کم کرنے کی طرف توجہ دی ؟ تاکہ سڑک حادثات کو کم کیا جاسکے۔ اور ویسی ہی بےقراری آئی جیسی کروناکے نام پر دنیا میں جاری ہے ؟ جبکہ آج کی علم ودانش سے مالامال دنیا اس کا کیانام دے گی؟ یہ وہ حقائق ہیں جن کو اجاگر کریں گے تو مفاد پرست دنیا یاتو آپ کو مجرموں کی فہرست ڈال دے گی یانہیں توکم ازکم احمق ضرورگردانے گی ،مگر آپ کا فرض ہے کہ انسانیت کی بقا کے لئے حق کی آواز بلند کرتے رہئے۔
آئیےتعمیر جہاں اور انسانیت کی فلاح کی جانب قدم بڑھانے کا عہد کریں اور ان کاساتھ دیں جو انسانیت سے محبت کرتے اور انسانیت کادردرکھتے ہیں ۔ اللہ تعالی انسانیت کو حق وسداد کی راہ پہ گامزن فرمائے۔آمین

Comments are closed.