Baseerat Online News Portal

شرعی رہنمائی : قربانی کا جانور وزن سے خرید و فروخت کرنا

قول سدید : مفتی احمد نادر القاسمی
اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا

اب عید قرباں کے ایام قریب آتے جارہے ہیں اور الحمدللہ ملک میں جاری لاک ڈاٶن میں پہلے جیسی سختی نہ ہونے کی وجہ سے اگرچہ وافر مقدار میں جانوروں کی دستیابی نہ صحیح ۔مگر خال خال قربانی کے جانور بھی نظر آجا رہے ہیں۔دوسری طرف ملک میں پھیلی معاشی ابتری اور بےروزگاری نے ملک کے ہرطبقہ کو یکساں طور پر متاثرکیاہے۔ سواۓ سرکاری ملازمین کے۔۔اس لٸے لوگوں میں قربانی کے لٸے پہلے جیسی فراوانی بھی نہیں ہے۔ ۔اب دیکھٸیے اس صورت حال میں اس سال بقرعید کیسی رہتی ہے۔۔اللہ کرے پوری دنیا کے مسلمانوں کی بقرعید اچھی اور مسرت وشادمانی سے بھر پورہو اوربیش بہا سعادتوں کا گنجینہ لے کر ایام قربانی اورماہ ذی الحجہ آٸے ۔اور روۓ زمین پر آباد پوری انسانیت کے لٸے خیروبرکت کاسامان بنے۔اللھم أھلہ علینا بالأمن والایمان والسلامة والاسلام۔۔آمین یارب العالمین۔۔

خریدوفروخت میں اشیا کے کیلی یاوزنی ہونے کامدارعرف وعادت پر۔ہے۔

اس مختصر سی تمہید کے بعدہم اصل موضوع کا رخ کرتے ہیں :
بنیادی طورپر یہ بات ذہن میں رہنی چاہٸے کہ شریعت اسلامی نے خریدوفروخت۔اور بزنس و تجارت کے معاملات۔میں اکثر لوگوں میں راٸج انہیں اعراف و عادات اور اصول وضوابط کو تبدیل کیا ہے ۔جو ظلم ۔ناانصافی ۔دھوکہ ۔غرر۔اورسود ورباجیسے امور کو شامل شامل تھے ۔یاناپ تول میں کمی زیادتی ۔سے متعلق تھے۔یاناجاٸز وباطل طریقے سے دوسروں کا مال لے لینے کے زمرے میں آتےتھے۔۔مگر جوچیزیں ان قباحتوں کو متضمن نہیں تھیں۔ان اعراف وعادات اور طور طریقوں کو علی حالہ شریعت نے باقی رکھا۔اور یہ صراحت کردی:”خیارکم فی الجاھلیة خیارکم فی الاسلام“۔جو چیزیں بعثت سے پہلے لوگوں میں اچھی چلی آرہی تھیں اورمعاشرے میں جاری تھیں۔اسے بعثت کےبعدبھی اچھاسمجھتے ہوۓ باقی رکھاگیا۔ان میں بیش تر چیزیں ایسی ہیں جوعرب کے معاشرہ میں آپسی۔ لین دین اور تجارتی طورطریقوں سے تعلق رکھتی تھیں۔جیسے اشیا ٕخوردونوش میں کھجور۔انگور کشمش۔اور دیگر ڈراٸی فروٹس وغیرہ کا۔وزن۔ یعنی تول کر بیچاجانا۔جسے وزنی کہاگیا۔کپڑے ۔چٹاٸی ۔ٹاٹ اور لکڑی کی چیزوں کا کیل۔یعنی ناپ کر بیچاجانا۔جسے کیلی کہاگیا۔۔اور۔پھلوں میں انار۔سیب۔ااورتازہ انجیر ۔موز۔یعنی بنانا وغیرہ ۔کا۔عدد۔ یعنی گن کر فروخت کیاجانا راٸج تھا۔۔جسے عددی۔کہاگیا۔اور غلہ جات مداور پیمانوں سے۔ناپ کرفروخت کٸے جانے کاچلن تھا اورزمانہ قدیم سے چلاآرہاتھا۔۔۔یہ ساری اصطلاحات اور ان کی تفصیلات کتب احادیث رسولﷺ اور فقہ اسلامی کے ذخیرہ ،میں موجودہیں۔
ان میں سے جتنی چیز یں جس طرح بھی خریدی اور بیچی جاتی تھیں ۔اسلام نے اسی طرح باقی رکھا ۔کوٸی نکیر نہیں کی سواۓ سوداور غررپرمبنی معاملات کے ۔جیسے بیع عینہ۔۔بیع مزابنہ ۔بیع محاقلہ ۔بیع مالیس بید الناس۔اچھی کھجور کےبدلے خراب کھجور کاتبادلہ۔مساوی درجہ کی ایک ہی چیز میں شبہ ربا کی وجہ سے کمی زیادتی کی ممانعت وغیرہ۔۔۔اس کامطلب یہ ہواکہ خریدوفرخت کے طورطریقے انسان اور علاقاٸی عرف ورواج پر مبنی ہوتے ہیں۔جیسے خود ہمارے بھارت میں۔ایک صوبے میں سیب تول کر فروخت ہوتاہے دوسرے میں گنتی سے۔ایسے ہی بنانا۔۔
توگویا لوگوں کے درمیان جس چیز کےجس طرح فروخت ہونے کارواج بن جاۓ ۔اسے۔وہاں کا عرف قرار دیتے ہوۓ درست تسلیم کیاجاۓ گا۔۔عرف کی اس معتبریت کی دلیل قران میں بھی موجود ہے۔:”خذ العفووأمربالعرف وأعرض عن الجاھلین“(سورہ اعراف۔١٩٩)[ آپ درگذر سے کام لیجۓ۔اورنیک کام کی تعلیم دیجٸے۔اورناسمجھ لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کیجٸے]۔
اسی طرح لوگوں ۔بطورخاص اہل حرفت اوراہل پیشہ کے ۔کاروباری طورطریقوں کو شرعااورقانونا تسلیم کٸے جانے سے متعلق علما ٕ اصول نے ۔اس فقہی قاعدہ کو بنیادی حیثیت دی ہے۔:”العادة محکمة“{الاشباہ قاعدہ نمبر ٦}(لوگوں کا عرف بھی تسلیم شدہ حقیقت ہے)اسی طرح یہ مشہور ذیلی فقہی قاعدہ بھی عرف کو معتبر قرار دینے کی بابت ثبوت میں پیش کیاجاتاہے۔:”المعروف عرفا۔کالمشروط شرعا“۔یا۔” المعروف کالمشروط“(الاشباہ لابن نجیم المصری)۔ مگر یہ بات یاد رہے کہ ان تمام قواعد اورنصوص کی روشنی میں ۔عوام میں راٸج کسی چیز کےمعاملاتی نہج اورلوگوں کے اعراف و عادات کے معتبر ہونے کےلٸے ضروری ہے کہ۔وہ کتاب وسنت کے کسی نص صریح سے متصادم نہ ہو۔یاوہ عرف فاسد نہ ہوجولوگوں کی جہالت کی وجہ سے رواج پاگیاہو۔جیسے ہندوستان کے بعض علاقوں کی خواتین میں سر پہ دوپٹہ نہ رکھنے کارواج ۔اسی طرح بہار میں سودبھرنہ کا چلن شادی میں رشتہ طے کرتے وقت لڑکے والے کی طرف سے نقد رقم کے مطالبے اورشراٸط کا رواج وغیرہ۔ظاہر ہے اس طرح کا عرف فاسد ہے اور ۔نص شرعی سے متصادم ہے۔اس لٸے اس کااعتبار نہیں ہوگا۔”لأن التعامل بخلاف النص لایعتبر“( غمز عیون البصاٸرشرح الاشباہ للحموی۔ج١ص۔٢٧٠)
اب کبھی عرف قولی بھی ہوتاہے اور کبھی عملی بھی ہوتا ہے اور دونوں ہی شرعا معتبر ہیں۔۔۔۔۔۔۔

جب یہ بات پاۓ ثبوت کو پہونچ گٸی کہ عرف ورواج کی بھی شرعی حیثیت ہے اور اس پر حکم شرعی مرتب ہوتاہے بلکہ علما ٕ اصول نے عرف وعادرت کو ادلہ مختلف فیھا میں شمار کیا ہے۔جس کامطلب یہ ہےکہ ۔کتاب۔سنت اجماع اورقیاس کے۔بعد یہ بھی ایک دلیل شرعی ہے جو اجتہاد واستنباط میں مساٸل شرعیہ کی اساس بن سکتا ۔بلکہ بنتاہے۔تو ہم جاٸزہ لیتے ہیں ۔کہ زیر بحث مسٸلہ :”قربانی کا جانور وزن سے فروخت کرنا“جاٸز ہے یانہیں۔
عرف و عادت اور خریدوفروخت کے معاملات کے اس سے مربوط ہونے کی جو تفصیل اوپر پیش کی گٸی ہے اس کی روشنی میں کہاجاسکتاہے کہ چونکہ اس میں مبیع اور ثمن کاتعین ۔اورمبیع کی موجودگی۔نیز عاقدین کی موجودگی پاٸی جارہی ہے ۔اور کسی قسم کا غرر ۔دھوکہ اور جہالت بھی نہیں ہے ۔اسلٸے اسکے جواز میں کوٸی شبہ نہیں ہے۔۔بلکہ وہ جانور جو محض انداز اور تخمین سے فروخت ہوتے ہیں ۔اورخواہ مخواہ عاقدین ۔وزن اور گوشت کا تخمینہ لگانے پر الجھتے رہتے اور قیمت کےتعلق سے تکرار پہ اتر آتے ہیں ۔اس کے باوجود اطمینان نہیں ہوتا اورتسکین قلب کی خاطر دوسروں سے دریافت کرتے پھرتے ہیں کہ کہیں میرے ساتھ جانور میں ٹھگی تو نہیں ہوگٸی ہے۔ ان تمام چیزوں سے بچتے ہوۓ بہتر ہے کہ بجاۓ تخمین وانداز کے چھوٹے جانور وزن سے خریدے اور بیچے جاٸیں۔اس لٸے کہ معاملہ بیع وشرا میں جانبین کامبیع وثمن پراطمینان قلبی کا حاصل ہونا۔بدلین پر قبضہ کا یقینی ہونا اورتراضی طرفین ہی معاملہ کی اصل روح ہے۔اوراسی بات کو آیت قرانی:”إلا أن تکون تجارة عن تراض منکم“(سورہ نسا ٕ۔٢٩) میں واضح کیاگیاہے۔جومکمل طور پرہیں پایاجارہاہے۔۔اوریہی وجہ ہے کہ علما ٕ اصول وقواعد نے اس کی صراحت کی ہےکہ:”وفیما لانص فیہ من الاموال الربویة۔یعتبر فیہ العرف فی کونہ کیلیا أووزنیا۔أما المنصوص علی کیلہ أووزنہ فلااعتبار بالعرف فیہ عندأبی حنیفة۔خلافالأبی یوسف۔ وقواہ فی فتح القدیر من باب الربا ولاخصوصیة للربا۔ وإنما العرف غیر معتبر فی المنصوص علیہ۔“(غمزعیون البصاٸر ۔شرح الاشباہ۔للحموی۔ج۔١۔ص۔٢٦٩۔٧٠)۔مذکورہ بالا عربی عبارت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ خریدوفروخت کے وہ معاملات جن کے کیلی یاوزنی۔ہونے کی صراحت کتاب وسنت میں نہیں ہے ۔ان میں اہل حرفت اورلوگوں کے عرف وطریقہ کو معتبر مانا۔۔اورقابل قبول گرداناجاۓ گا۔”مارآہ المسلمون حسنا فھوعنداللہ حسن۔“۔روی عن عبداللہ ابن مسعود۔۔من حدیث ابی واٸل عن ابن مسعود۔۔ان اللہ نظر فی قلوب العباد فاختارلہ محمداﷺ،فبعثہ برسالتہ۔ثم نظر فی قلوب العبادفاختارلہ أصحابا فجعلھم أنصاردینہ ووزرا ٕنبیہ۔فما رآہ المسلمون حسنا فھو عنداللہ حسن۔ومارآہ المٶمنون قبیحا فھو عنداللہ قبیح۔۔موقوف حسن۔۔المقاصد الحسنة۔للسخاوی۔۔(حوالہ۔مذکور)(جب اللہ تعالی نےجب پہلے اپنے خاص بندوں کے قلوب کی طرف دیکھا تواس کے لٸے نبی خاتم محمدﷺ کو چن لیا۔اورپھر جب اپنے عام بندوں کے اخلاص ومروت سے پر قلوب کی طرف دیکھا تو آپﷺ کے احاب کو چن لیا اوران کواپنے دین کا مددگار اور اپنے نبی کا حامی وزیر بنادیا۔۔اس لٸیے جس چیز کومومنین نے اچھا سمجھا وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھی۔اورجس چیز کوانھوں نے قبیح سمجھا۔وہ اللہ کے نزدیک بھی قبیح۔)
خلاصہ۔بحث:
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اگر موجودہ عہد میں قربانی کے چھوٹے جانوروں جیسے بکرے ۔بھیڑ اوردنبے۔ کا وزن سے بکنے اور حریدٕے جانے کاچلن ہوجاتاہے۔یاہے۔اور مارکٹ میں اسی طرح قربانی کے خریدے جارہے ہیں تو اس میں میری سمجھ سے کوٸی شرعی قباحت نہیں۔ہے۔۔اورعرف پر مبنی ہونے۔اور کوٸی منصوص شرعی۔قباحت نہ ہونے کی وجہ سے جاٸزودرست ہے۔۔واللہ ولی التوفیق ۔یھدینا الی سبیل الحق والسداد

Comments are closed.