حیوانیت ایسی کہ حیواں بھی خجل  نوراللہ نور

حیوانیت ایسی کہ حیواں بھی خجل

 

نوراللہ نور

 

ہم حضرت انسان اپنی عدیم النظیر تخلیق پر دیگر حشرات الارض سے تفاخرانہ طور پر پیش آتے ہیں اور اپنے بشری امتیاز و افتخار پر نازاں ہے نیابت خداوندی پر مغرور ہیں ۔

مگر ہم اپنے گریبان میں جھانکیں اور سماج و معاشرہ کی طور طریق اور ان کی ذہنی انحطاط و پستی کو دیکھیں تو ہمارا بشریت کا زعم غیر معقول سا لگتا ہے ہم اپنی نقل و حمل؛ قول عمل ؛ پر نگاہ ڈالیں تو ہماری اشرفیت کا بھرم شکشتہ لگے گا اگر ہم ذہنی ازمہلال کا جائزہ لیں تو ہمیں خلق خدا میں ہم ہی ذہنی مریض اور غلاظت سے پر اور سفاکیت کا مجسمہ لگیں گے ہمارے انسانیت کے منافی عمل اور کردار نے ہمیں بشریت سے خارج کر دیا ہے ۔۔

 

یوں‌تو ہم عظمت و رفعت کی قصہ سناتے تھکتے نہیں اور تفاخر تو اس طور پر ہوتا ہے کہ خدا کہ کارخانے میں ہم سے بہتر کوئی شی ہے ہی نہیں لیکن روز معاشرے میں ایسے شرمناک واقعات اور حیا سوز حوداثات وجود میں آتے ہیں کہ انسانیت کا وقار مجروح ہو جاتا ہے ہم خدا کی واقعتا عظیم شاہکار ہے لیکن شب و روز ہماری سوسائٹی اور معاشرے سے ایسے عمل سرزد ہوتے ہیں کہ ہم سے بہتر یہ مویشی اور حیوانات اپنے آپ کو سمجھتے ہیں اور ہماری بے شرمی پر پشیماں اور انگشت بدنداں رہتے ہیں ۔

 

ہماری اس زوال کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے خدا کی نعمتوں کو اس کا صحیح حق نہیں دیا ہمیشہ تساہلی و کسل مندی دکھائی اب دیکھیں کہ خاتون جس کی تخلیق رب نے اس کاینات کے رنگ کو دوبالا کرنے کے لئے کی تھی جس کی ناز و ادا سے اس جہاں کو مزید خوبصورت بنایا جس کی تخلیق انس و محبت ؛ درد و تکلیف کے ازالے کے لئے کیا انسان کے تجرد کے اوقات کو خوشگوار بنانے کے لئے اس مخلوق کو وجود بخشا مگر ہمارے سماج نے اس کی محبت کو داغدار کیا ؛ اسے نعمت خدا کے بجائے محض ایک تسکین قلب کا سامان سمجھا ؛ اس نازک کلی کو اپنی ہوس اور شہوت رانی کا ایک سامان گردانا اور اس کو رسوا کیا ۔

 

معاشرہ اس غلاظت میں اس قدر پھنسا ہوا ہے کہ روز ایک دوشیزہ کی عصمت پامال ہوتی ہے ہر شب ایک عفیفہ لاچار کمسن کی رداء عفت چاک ہوتی ہے اور یہ معاملہ اس قدر طول پکڑا ہوا ہے کہ ہماری درندگی پر حیوان بھی ششدر ہے سماج کے درندے اس قدر آزاد پھرتے ہیں کہ ہمہ وقت ہماری بچیاں خایف رہتی ہیں انہوں نے جواں سال دوشیزاؤں کے ساتھ تو تشد روا ہی رکھی مگر نو عمر اور کمسن بچیاں جو برابر سے اس دنیا سے واقف بھی نہیں ہوتی ہیں وہ بھی ان کی چیوانیت کے نذر ہوتی ہے یقینا یہ انسان انسان کہنے کا مستحق نہیں ہے ۔

اس طرح کی سرخیوں سے اخبار کے پنے پر ہوتے ہیں ہزاروں نربھیا ان کے ہتھے چڑھ گئیں ہیں مگر گزشتہ کل کی خبر کو دیکھ کر بے حد غصہ بھی آتا ہے اور شرم سے گردن خم ہوجاتی ہے ایک بچی جو طفولیت کے عہد سے نکلی بھی نہیں تھی ابھی وہ کھلونے اور گڑیوں سے کھیلنے والی تھی کہ ایک ذلیل اس گڑیہ کی مسکان کا دشمن بن گیا‌ اپنی ہوس کا شکار بنایا اور اس کے ساتھ وہ تشدد روا رکھا کہ ہماری انسانیت کی منھ پر زوردار طمانچہ رسید کیا ہے اور وہ بچی شاید یوں گویا ہے کہ تم سے بہتر یہ جانور کتے بلی ہیں جو انس و محبت سے میرے قریب آتے ہیں مگر تم تو ان سے بھی بدتر ہو

المیہ یہ ہیکہ تحفظ نسواں کے نام پر بے شمار تنظیمیں اور ادارے ہیں مگر ان کو روز بڑھتے ایسے واقعات کے بڑھنے سے کوئی سروکار نہیں ہے کبھی وہ بروقت ان کے لیے آواز بلند نہیں کرتے ہیں یہ تحفظ خواتین کے نام پر ان کے نام کا استعمال اور استحصال کرتے ہیں اور قابل تحیر امر یہ ہیکہ بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ کا نعرہ دینے والے ہی لوگ ان کا استحصال کرتے ہیں روساء شہر کے نذر ان کی عفت ہو جاتی ہے

ہم صالح معاشرے کی شب وروز ورد لگاتے ہیں ایک شفاف معاشرے کی تشکیل کا دعوی کرتے ہیں لیکن ہمارے رویوں اور کرتوتوں سے یہ ہمارا دعویٰ معدوم نظر آتا ہے یقینا انسان بہت گر چکا ہے اور اب تو خوف محسوس ہوتا ہے کہ نہ جانے کون نیک طینت اور کون غلیظ طبیعت کا حامل ہے اور انسانوں کے عمل اتنے گھٹیا ہوگیے ہیں حیوانیت میں ہم حیوانوں سے دس قدم آگے ہیں

افسوس ہے ایسے معاشرے پر اور تف ہے ایسے سماج پر جو معصوم بچی کی معاملے پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں

Comments are closed.