چور بھگاؤ، وقف بچاؤ!

از قلم:مدثراحمد شیموگہ ۔8310980542
ملک میں حالیہ دنوں میں منظور ہونے والےوقف ترمیمی قانون نے ایک بارپھر مسلمانوں کے اندر اضطراب، بے چینی اور تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ ایسامحسوس ہو رہا ہے کہ برسوں سے جن املاک، اداروں اور زمینوں کو ہمارے آباؤ اجداد نے دینی، تعلیمی، فلاحی اور رفاہی مقاصد کے لیے وقف کیا تھا، اب وہ ایک منظم قانون سازی کے ذریعے مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکالنےکی تیاری کی جا رہی ہے۔ملک بھر میں وقف بچاؤ مہم کی شکل میں جلوس، احتجاج، جلسے، ہیومن چین کااحتجاج، کالی پٹیوں کا احتجاج ، سوشل میڈیامہم، اور سمیناروں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ ملک کی کئی نامور مذہبی، سماجی، ملی اور سیاسی تنظیمیں میدان میں آ چکی ہیں، اور اپنے اپنے انداز میں اس قانون کے خلاف آواز بلند کر رہی ہیں۔ یہ ایک خوش آئند پہلو ہے، لیکن ہمیں اس موقع پر صرف مخالفت پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے بلکہ ایک خوداحتسابی اور ندامت کے عمل کی بھی ضرورت ہے۔یہ سچ ہے کہ پارلیمنٹ میں جو قانون منظور ہوا ہے، اس کو روکنے یا منسوخ کرانے کا اختیار صرف عدلیہ، خاص طور پر سپریم کورٹ کے پاس ہے، لیکن مسلمانوں کا سڑکوں پر نکلنا، اپنے غم و غصے کا اظہار کرنا اس بات کی علامت ہے کہ امت ابھی مکمل طور پر مردہ نہیں ہوئی۔ دلوں میں درد باقی ہے، شعور کی چنگاریاں سلگ رہی ہیں۔مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے اپنے گھر کے اندر کی صفائی پہلے کی ہے؟ کیا ہم نے وقف کے حقیقی دشمنوں کو پہچانا ہے؟ وہ دشمن جو نہ ایوان میں بیٹھے ہیں اور نہ سرکاری عہدوں پر، بلکہ وہ جو ہماری ہی صفوں میں چھپے ہوئے ہیں، جو ہماری مسجدوں، مدرسوں، ٹرسٹوں، قبرستانوں، یتیم خانوں، درگاہوں، دینی اداروں اور لنگروں کے وارث بن بیٹھے ہیں۔ہر ریاست میں ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں مسلمانوں کے خود ساختہ لیڈروں، ملّی و سیاسی ذمہ داروں اور ادارہ جاتی منیجروں نے وقف کی زمینوں پر ناجائز قبضے کیے۔ وقف کی جائیدادوں کوبے دریغ بیچا، کوڑیوں کے دام لیز پر دیا، اداروں کے بینک کھاتوں سے رقوم اپنی جیب میں بھریں، یتیموں،بیواؤں اور مسکینوں کے لیے وقف کی گئی املاک کو ذاتی جائیدادوں میں بدل دیا۔افسوس کہ ان سب جرائم کے باوجود امت مسلمہ کی جانب سے کوئی بڑی اور منظم تحریک ان افراد کے خلاف نہیں اٹھی۔ نہ کسی کا بائیکاٹ کیا گیا، نہ کسی کے خلاف احتجاج، نہ ہی کسی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا۔ ہم خاموش رہے، یہ سوچ کر کہ چلو اپنے ہی لوگ ہیں۔یقیناً آج ہم جس حال میں ہیں، یہ ہمارا اجتماعی گناہ ہے۔ اگر ملت وقت پر بیدار ہوتی، اگر وقف بورڈز، مساجد کمیٹیوں، مدرسہ ٹرسٹوں اور درگاہوں کے انتظامات میں شفافیت، احتساب اور عوامی نگرانی کو رائج کیاجاتا، تو شاید آج یہ نوبت نہ آتی کہ ہمیں وقف کے تحفظ کے لیے سڑکوں پر آنا پڑتا۔ہمیں اب سوچنے کی ضرورت ہےکہ کیا وقف محض زمین کا نام ہے یاایک امانت ہے؟کیا ہمارے اکابرین نے وقف کا نظام اس لیے قائم کیا تھا کہ ہم اس کو ذاتی فائدوں کے لیے استعمال کریں؟کیا ہم نے کبھی اپنے محلے، شہریا ریاست میں وقف بورڈ کی سالانہ رپورٹ دیکھی؟۔کیا ہم جانتے ہیں کہ ہمارے علاقے میں کتنی وقف زمینیں ہیں، اور وہ کن مقاصد کے لیے استعمال ہو رہی ہیں؟اگر ان سوالات کا جواب نہیں ہے تو ہمیں خود سے پوچھنا ہوگا کہ ہم واقعی وقف بچاؤ تحریک میں مخلص ہیں یا صرف نعرے لگا کر مطمئن ہو رہے ہیں۔اب وقت ہے کہ ہم نعرے سے آگے بڑھیں چوروں کو بھگائیں، بے ایمانوں کامحاسبہ کریں، وقف بورڈز میں دیانتدار افراد کو مقرر کریں، ہر وقف ادارےکی آڈٹ رپورٹ کو عوامی بنائیں، اسکولوں اور مدارس کی آمدنی و خرچ کو شفاف بنائیں، اور سب سے بڑھ کر عوام اس جدوجہد کا حصہ بنے۔یاد رکھیں اگر ہم نے آج اپنے داخلی دشمنوں کو نہ پہچانا، تو بیرونی دشمن صرف قانون بناکر نہیں بلکہ ہماری بے حسی کا فائدہ اٹھا کر سب کچھ چھین لیں گے۔چوربھگاؤ، وقف بچاؤ صرف نعرہ نہیں، ایک عملی تحریک بننی چاہیے ،اور اس کا آغاز ہمیں اپنے محلے، اپنے شہر اور اپنے دل سے کرنا ہوگا۔

Comments are closed.