صدقه قربانی کا بدل نہیں محمد شمس عالم قاسمی

صدقه قربانی کا بدل نہیں

 

محمد شمس عالم قاسمی

روز اول ہی سے اللہ سبحانہ تعالٰی کی خوشنودی و ورضا کے حصول کی خاطر بنی آدم کی طرف سے مختلف طریقوں پر قربانی کا سلسلہ تاحال جاری و ساری ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالٰی ہے

"اور ہر امت کیلئے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر فرمائے ہیں تاکہ وہ ان چوپائے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں دے رکھے ہیں” الحج ٣٤

اللہ رب العزت نے اپنے پیارے حبیب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی قرآن کریم کے اندر سورہ کوثر میں قربانی کرنے کا حکم فرمایا،

” تو آپ اپنے رب کیلئے نماز پڑھئے اور قربانی کیجئے” کوثر ٢

اس آیت شریفہ سے معلوم ہوا کہ صلوةالعید کی طرح قربانی کرنا بھی ہر صاحب نصاب مسلمان مرد و عورت پر واجب اور ضروری ہے

اس کے علاوہ قرآن کریم کی اور بھی متعدد آیات مبارکہ ہیں جن میں قربانی کی حکمتیں اور فضائل تفصیل کے ساتھ بیان کی گئیں ہیں۔

 

حضرت زید بی ارقم رضی اللہ روایت کرتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے عرض، یارسول اللہ! یہ قربانی کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ "تمہارے باپ ابراھیم علیہ السلام کی سنت ہے”

پھر انہوں نے دریافت کیا کہ اس میں ہمارے لئے کیا اجر و ثواب ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ "ہر بال کے بدلے ایک نیکی ہے الخ”

ایک اور حدیث میں آپ علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے کہ "اللہ تعالٰی کے نزدیک قربانی کے دنوں میں ابن آدم کا کوئی عمل خون بہانے(قربانی کرنے)سے زیادہ محبوب نہیں”

نیز آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ "جو شخص قربانی کرنے کی استطاعت رکھتا ہو پھر بھی وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ میں نہ آئے” قربانی کے متعلق اور بھی بہت ساری احادیث موجود ہیں جن سے قربانی کی عظمت و رفعت معلوم ہوتی ہے۔

 

انہیں قرآنی آیات اور احادیث نبویہ کے پیش نظر تمام فقہائے کرام کی متفق علیہ رائے اور پوری امت مسلمہ کا عقیدہ ہے کہ قربانی ہر صاحب نصاب مسلمان پر مرد و عورت پر واجب ہے

لہذا قربانی کے ایام میں جانور ذبح کرنے کے بجائے اس کی قیمت کو غریبوں، مسکینوں، یا دیگر ضرورت مندوں میں تقسیم کر دینے سے قربانی ادا نہیں ہوگی بلکہ واجب کے ترک کرنے کا گناہ ہوگا.

 

موجودہ وقت میں ہمارے بعض نام نہاد مسلم اسکالرس بھی اپنی کم علمی اور بے بصیرتی

کی وجہ سے سوشل میڈیا پر اس بات کی وکالت کر رہے ہیں کہ مسلمانوں کو اس مہاماری(لاک ڈاون) کے پیش نظر قربانی کے جانوروں کی رقم ضرورت مندوں پر صدقہ کر دینی چاہئے

ان حضرات کی خدمت میں عرض یہ ہے کہ

قربانی کی ایک صورت ہے اور ایک روح ہے، صورت تو جانور کو ذبح کرنا ہے، اس کی روح ایثار نفس کا جذبہ پیدا کرنا ہے اور تقرب الی اللہ ہے

در اصل قربانی کی حقیقت تو یہ تھی کہ عاشق خود اپنی جان کو اللہ رب العزت کی بارگاہ میں پیش کرتا، مگر خدا تعالٰی کی رحمت کو یہ گوارا نہ ہوا، اس لیئے حکم دیا کہ تم جانور ذبح کرو ہم یہ سمجھیں گے کہ تم نے اپنے آپ کو قربان کردیا،

اس واقعہ (ذبح اسماعیل علیہ السلام) سے معلوم ہوا کہ ذبح کا اصل مقصد جان کو پیش کرنا ہے؛ چانچہ اس عمل سے انسان میں جاں سپاری اور جاں نثاری کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور یہی اس کی روح ہے تو یہ روح صدقہ سے کیسے حاصل ہوگی؟؟؟

کیونکہ قربانی کی روح تو جان دینا ہے اور صدقہ کی روح مال دینا ہے، نیز صدقہ کیلئے کوئی دن مقرر نہیں، مگر اس کیلئے ایک خاص دن مقرر کیا گیا ہے اور اس کا نام بھی یوم النحر اور یوم الاضحٰی رکھا گیا ہے۔

لہٰذا ایسے لوگوں سے میری درخواست ہے کہ پہلے اسلامی تعلیمات کا گہرائی سے مطالعہ کریں، اس کی حقیقت کو سمجھیں اور قربانی کے متعلق اپنی اس غلط فہمی کو دور کریں!!!

 

لاک ڈاون کے پیش نظر جس جگہ قربانی کرنا ممکن نہ ہو تو وہ حضرات دوسرے مقامات پر جہاں قربانی ہورہی ہو اپنی رقم بھیج کر قربانی میں حصہ لے لیں اس طرح بھی واجب کی ادائیگی ہو جائے گی اور اجر کے مستحق ہوں گے

اللہ تعالٰی ہمیں دین اسلام کی صحیح سمجھ عطا فرمائے اور کماحقہ اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے

آمین یارب العالمین

Comments are closed.