ملک کوحقیقی آزادی کی ضرورت از: محمد سعیدالحق ندوی جامعہ اسلامیہ مسیح العلوم ،بنگلور

باسمہ تعالیٰ
ملک کوحقیقی آزادی کی ضرورت
از: محمد سعیدالحق ندوی
جامعہ اسلامیہ مسیح العلوم ،بنگلور
ہمارے ملک بھارت کا ہر باشندہ اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ ہمارایہ پیاراملک 15؍اگست 1947 ء کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوگیا ۔ اس آزادی کے لئے ملک کے باشندوں بالخصوص مسلمانوں نے بہت قربانی دی ، بے شمار لوگوں کی زندگی زندانوں میں گزری تو بہت ساروں نے تختہ دار کو چوما ، اورنہ جانے کتنے ساروں کو انڈومان نکوبار میں قید کیا گیا ،جسے سزائے کالاپانی سے یا دکیا جاتاہے۔ دوسوسال تک انگریزوں کی غلامی کے بعد باشندگان ہند نے یہ خواب دیکھا تھا کہ اب ہم میں سے ہر ایک باشندہ آزادہے ، ہم میں سے ایک کو وہ تمام حقوق حاصل ہوں گے جو کسی آزاد ملک کے باشندہ کو حاصل ہوتے ہیں۔ لیکن باشندگانِ ہند کو وہ حقیقی آزادی اب تک حاصل نہیں ہوسکی جس کا انہوںنے خواب دیکھا تھا ۔
سب سے پہلا حادثہ تو یہ پیش آیا کہ ملک جغرافیائی طور پر تقسیم ہوگیا اور ایک ہی ملک کے باشندوں کے درمیان سرحد کی ایک ایسی لکیر کھینچ دی گئی کہ ایک ہی ملک کے باشندے ایک دوسرے سے جداہوگئے ۔ حالت ایسی ہوگئی کہ پوری دنیا سے ہمدردی کا اظہارکیا جاسکتاہے لیکن اپنے پڑوسی جو کبھی ایک ہی ملک کے باشندے تھے ، آپس میں رشتہ داری تھی اور آج بھی ہے، ان سے اظہارہمدردی بھی ملک سے غداری شمارکیا جانے لگا۔ اس سے دونوں کے ملک کے بے شمار خاندان متاثرہوئے ۔اس طرح اپنوں کی جدائی کا ایسادرد جھیلنا پڑاجس کی تلافی ناممکن نہیں تو بہت مشکل ضرورہے۔
تقسیم کا سلسلہ اگر یہیں رک جاتاتو بھی قابل برداشت تھا ، لیکن یہ سلسلہ دراز ہی ہوتاگیا اور باشندگان ِہند کو مزید کئی تقسیموں کا درد جھیلنا پڑا اور آج تک جھیلنا پڑرہاہے، شاید ملک میں چھپے ہوئے ملک کے اندرونی دشمنوں کو یہ آزادی اچھی نہیں لگی،انہوں نے اس کو ذات پات، رنگ ونسل، مذہب کے خانوں میں بھی تقسیم کردیا ۔ اورسب سے بڑی تقسیم جو وجود میں آئی وہ ہے امیر وغریب کی تقسیم ۔ ملک کی دولت چند گنے چنے ہاتھوں میں سمٹ میں کر رہ گئی ،جس کا نتیجہ یہ ہواکہ ایک چھوٹاسا طبقہ جس کے ہاتھوں میں دولت ہے وہ مالدارسے مالدار ہوتاچلاگیا اورملک کا بڑاطبقہ غربت کے اندھے غارمیں گرتاہی چلاگیا،یہی وجہ ہے کہ ملک کے بیشتر باشندے آج تک اپنی بنیادی ضرورت کے لئے بھی محتاج ہیں ۔ آج بھی بہت بڑی آبادی کے پاس سر چھپانے کے لئے نہ ڈھنگ کا گھر ہے اور نہ ہی تن چھپانے کے لئے بدن پر کپڑا۔ نہ بچوں کو تعلیم دلانے کے لئے بہتر اسکو ل ہے نہ علاج کرانے کے لئے معقول اسپتال۔ نہ گزران ِمعاش کے لئے کوئی معقول ذریعہ معاش ۔سیدھی سی بات ہے کہ ملک کے وسائل پر اس ملک کے باشندے کا برابر کا حق ہے ،کیونکہ اس ملک کا باشندہ ہونے کے ناطے وہ ان وسائل کا مالک ہے لیکن ان پرہوس کے پجاری سرمایہ داروں ، طاقت ودولت کے گھمنڈ میں چور کرپٹ سیاست دانوں کا ایسا غاصبانہ قبضہ ہواکہ وہی آج اس کے مالک بنے بیٹھے ہیں ۔
یوں تو ہماراملک بھارت بڑاہی اچھا رہا، انسانیت نوازی کے لئے اس کو جانا جاتارہا،بالخصوص یہاں کی گنگاجمنی تہذیب کو بڑی شہرت ملی ، اوریہ شہرت کیوں نہ ملتی جب کہ ایک ہی ملک میں اتنی زیادہ زبان ، رنگ ،نسل ، اورمذہب کے ماننے والے اس ملک میں صدیوں سے پیارومحبت کے ساتھ زندگی گزارتے آرہے تھے، لیکن اس ملک کی بڑی بدقسمتی یہ رہی کہ ملک کا زمام ِاقتدار جن کے ہاتھوں میں آیاوہ ملک کے مخلص نہیں رہے ، ہمارے سیاستداں بہت ہی زیادہ بدعنوان اورکرپٹ نکلے اور انہوں نے ملک کو دیمک کی طرح چاٹ کر صاف کردیا۔ اس طبقہ نے ملک کی آبادی کو ہمیشہ بس اپنے اقتدارکا زینہ سمجھا ، اسے ملک کے صلاح وفلاح ، ترقی سے برائے نام مطلب رہا ، اور جب اس طبقہ نے وہ کام نہیں کیا جو کرنا چاہئے تو ملک کے سیدھے سادھے لوگوں کو بے وقوف بنانا اور دوسرے ایسے جذباتی مسائل میں الجھانا ان کے لئے ضروری بھی تھااوران کی مجبوری بھی ، تاکہ لوگ اس میں الجھ کر اپنے بنیادی مسائل سے دور رہیں، انہیں مذہب کا ایسا افیم پلادیا گیا ہے کہ انہیں اس کی پرواہ ہی نہیں کہ ہماراملک کہاں جارہاہے، ہم ترقی میں کتنے پیچھے جاچکے ہیں۔ ہمارا ملک کتنے کمزور لوگوں کے ہاتھ میں ہے کہ نیپال جیسا کمزور ملک بھی ہمیں نہ صرف آنکھیں دکھا رہاہے ،بلکہ ہماری زمین اپنے ملک کے نقشہ میں شامل کرکے پوری ڈھٹائی کے ساتھ پارلیمنٹ سے پاس کرارہاہے اور ہم ہیں کہ ہمیں ہندو ،مسلم سے فرصت ہی نہیں ۔ورنہ ۷۳ ؍سال کی مدت کسی ملک کی ترقی کے لئے کم نہیں ہوتے ،بالخصوص ہمارے جیسے ملک کے لئے جہاں افراد ی قوت (man power)کی بہتات ہو، جہاں پر ہر طرح کی صلاحیت وذہانت موجود ہو ، جس سے دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ ممالک نہ صرف فائدہ اٹھارہے ہیں بلکہ اپنے ملک کی شہریت تک دے رہے ہوں۔ یہ ہماری بدنصیبی ہے کہ ہماری ذہانت سے دنیا کے دوسرے ممالک تو فائدہ اٹھارہے ہیں اور ترقی کے منازل طے کررہے جب کہ ہم اپنی صلاحیت کو اپنے ملک میں استعمال کرنے سے قاصر ہیں۔ ہماری حالت یہ ہے کہ آج بھی ملک کے باشندے اپنی بنیادی ضرورت پوری کرنے سے قاصر ہیں۔
آج ہمارے ملک کو جس چیز نے سب سے زیادہ نقصان پہونچایا ، وہ ہے فرقہ پرستی ، جس نے اپنے ہی ملک کے باشندوں کے درمیان نفرت کی ایسی دیوار کھڑی کردی ہے کہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن گئے ، بالخصوص ہمارے ہندوبھائیوں کے ذہن کو اس قدر پراگندہ کیا گیا کہ وہ جس کے ساتھ برسوں سے رہ رہے ہیں ، اسی کے جان کے دشمن بن گئے ہیں ، مختلف بہانوں سے ایک مسلمان کو برسرعام ،دن دہاڑے ، کبھی قانون کے رکھوالوں کے سامنے تو کبھی ان کی شمولیت کے ساتھ پیٹ پیٹ کر ماردیا جارہاہے۔ اور اس میں سب سے برااور زہریلاکردار اداکیاہے ملک کے میڈیا چینل نے ۔ آج جب کہ ایک طرف چین تو دوسری طرف نیپال جیسا کمزور ملک ہمارے فوجی جوانوں پر حملہ کررہاہے۔ اور یہ دلال میڈیا خاموش ہے۔
مطلب صاف ہے کہ ہمارے ملک اور ملک کے باشندوں کو حقیقی آزادی اب بھی نہیں ملی ہے۔ملک کو حقیقی آزادی اس وقت ملے گی جب ہمارا ملک غربت سے آزادی حاصل کرلے گا،بھوک مری سے آزادی حاصل کرلے گا، جب اس ملک کے ہر باشندہ کی بنیادی ضرورت پوری کردی جائے گی۔ جب ہمارے ملک کو جہالت سے آزادی مل جائے گی، فرقہ پرستی سے آزادی مل جائے گی ،آپس کی دشمنی سے نجات مل جائے گی۔جب ایک غریب کے پاس بھی اپنا مکان ہوگا، اس کے بچوں کے تعلیم حاصل کرنے کی لئے معیاری اسکول اورعلاج ومعالجہ کے معقول ہاسپیٹلس ہوں گے۔
Comments are closed.