Baseerat Online News Portal

                       "خدا خیر کرے”     (افسانہ

"خدا خیر کرے”     (افسانہ)

مدت گزر جانے کے بعد آج بھی اس جھونپڑی سے وہی آواز آتی ہے، جب  بوڑھا غنی  اپنی جھونپڑی میں تنہا پڑا اپنی ماں کا لکھا ہوا خط پڑھتا  اور چیختا ہے "خدا خیر کرے” _

نومبر کی وہ ایک ایسی شام تھی جب سورج کی ڈوبتی ہوئی کرنیں اس کے آنسوؤں کو تیروں کی مانند چیرتی ہوئی اندھیرے میں گم ہو جانے کی کوشش کر رہی تھیں، ہر بار کی طرح اس دن بھی محمودہ اس کے آنسو اور بڑ بڑاہٹ کو جو بچپن سے سنتی آرہی تھی ان سنا کر اسکی بوسیدہ جھونپڑی  کے قریب سے جلد از جلد گزر جانے کی کوشش کر رہی تھی لیکن اس دن اس نے  بڑھیا کے آنسوؤں سے دل کو چھلنی کر دینے والے درد کو ٹپکتے دیکھا تھا ، بڑبڑاہٹ میں ایک قسم کی کراہ سنی تھی جس نے دور تک اس کے کانوں کا پیچھا کیا تھا جیسے وہ اپنے درد کا علاج اس کے پاس تلاش کر رہی ہو، پھر کیا تھا! یکا یک  پے در پے ایک لرزہ خیز آواز "خدا خیر کرے، خدا خیر کرے” اس کے کانوں سے ٹکرائی، خدا کا نام سنتے ہی اس کی کیفیت بدل گئی _

سورج ڈوبنے کے قریب تھا اور وہاں سے گھر جانے تک کا فاصلہ تقریباً دو کلو میٹر، دوری سے زیادہ محمودہ کو رات کے اندھیرے میں  اس گھنے جنگل سے گزرنے کی دہشت پریشان کرنے لگی جو  ان گنت چھوٹے بڑے زہریلے کیڑے مکوڑوں اور خطرناک  جانوروں کا ٹھکانہ تھا، کالی رات کے سناٹے میں سائیں سائیں کی آواز اس کے  پورے جسم کو ایسا سن کر جاتی کہ خوف کے مارے قدم اٹھاؤ تو  کسی بھاری بھرکم پتھر کا گماں ہوتا تھا _ایک طرف وہ خوف سے گھری ہوئی، تو دوسری جانب بڑھیا کی آہ تھی، وہ اچانک پیچھے کی جانب مڑی اور تیز قدموں سے چلتی ہوئی بوڑھیا کی چھونپڑی کے قریب پہنچ گئی، بڑھیا کی کراہ ابھی بھی جاری تھی_ محمودہ ڈرتے ڈرتے چھونپڑی کے اندر داخل ہوئی جو گھاس پھونس کی بنی ہوئی تھی، اس کے کالے رنگ سے اس کی بنا کی مدت معلوم ہو رہی تھی_ وہ بہت عرصہ  پرانی بنائی گئی چھونپڑی تھی جس میں نا تو کوئی روشندان تھا اور نا ہی کوئی کواڑ،  کونے میں ایک چراغ تھا جو اس کی بے بسی پے جلتے جلتے ادھ مرا ہو چکا تھا گویا مہینوں سے  کسی نے اس میں  تیل نہیں ڈالا ہو، مکڑی کے جالے سے ڈھکا ہوا ایک گھڑا جس میں چُلّو بھر ساکت گدلا پانی کسی ہلچل کے انتظار میں  کونے میں پڑا تھا _بڑھیا کی کراہ مسلسل تیز ہوتی جا رہی تھی  یہاں تک کہ گھگھی بندھ گئی محمودہ نے جلدی سے  تھرمس سے پانی نکال کر پلایا وہ بڑے غور سے محمودہ کے چہرے کو دیکھتی رہی اور دعا دی "خدا خیر کرے” تمہارا _ محمودہ ادھر اُدھر نظریں دوڑانے لگی، تبھی اس کی نظر دھول میں اٹے ایک لفافہ پر پڑی اس نے اسے اٹھایا،  مٹی کی نمی اور ایک لمبے عرصے سے زمین پر پڑے رہنے کے باعث اس کی حالت خستہ ہو چکی تھی، محمودہ نے دھول کو صاف کیا اور بڑے احتیاط سے لفافے کو کھولا اس میں ایک کاغذ کا ٹکڑا تھا جو دراصل  ایک  ماں کا اپنے بیٹے کے نام خط تھا جس میں لکھا تھا _

” میرے لختِ جگر غنی” تم غنی ہوکر بھی فقیر ہوگئے”، تمہیں ولایت گئے تقریباً بیس سال کا عرصہ گزر گیا، تمہارے بابا کو اس دنیاۓ فانی سے رخصت ہوۓ پورے پانچ سال ہوگئے، ولایت جاکر تم اتنے مصروف ہو گئے کہ ماں باپ کا خیال تک نہیں رہا، میرے لختِ جگر کیا تمہیں کبھی ماں اور بابا کی یاد نہیں آئی؟ کیا کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ وہ ایک ٹوٹی بوسیدہ جھونپڑی میں کس طرح زندگی بسر کر رہے ہوں گے ؟ ہر روز میری آنکھیں تمہارے انتظار کا ماتم مناتی ہیں، میرے اعضاء کمزور اور جسم لاغر ہو چکا ہے، میرے لختِ جگر قریب ہے کہ میں غم واندوہ  سے نڈھال، حواس باختہ، در در کی ٹھوکریں کھاتی پھروں لیکن میرے بیٹے غنی تمہاری ماں کی دعاء ہمیشہ تمہارے ساتھ ہے میرے لختِ جگر غنی!   "خدا خیر کرے”  تمہارا _”

بوڑھیا کی کراہ چیخ وپکارمیں بدل گئی تھی وہ زاروقطار رو رہی تھی  وہ اپنے بالوں کو بے رحمی سے نوچ کر  سر سے جدا اور اپنے گالوں کو بری طرح زخمی کر رہی تھی پیر سے معذور ہونے کی وجہ سے اپنے کولہوں کے سہارے  بدن کو گھسیٹ کر چھونپڑی سے  نکل بھاگنے کی ایسے کوشش کر رہی تھی گویا اب جھونپڑی کی زندگی اس پر  تنگ ہو چکی ہو، جھونپڑی سے  نکلتے ہی  آہ  میں لپٹا ہوا ایک جملہ اس کی زبان سے نکلا "خدا خیر کرے” اور وہ ہمیشہ کے لئے ٹھنڈی ہو گئ،  محمودہ کے ہاتھ سے لفافہ چھوٹ گیا، بستی والوں کی افسردہ نگاہیں اس کو  تکتی رہ گئیں اور "خدا خیر کرے” کی گونج  چاروں سمت پھیل گئی_

(ثروت انیس)

Comments are closed.