حیف در چشم زدن صحبت یار آخر شد

حیف در چشم زدن صحبت یار آخر شد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

*محمد جاوید قاسمی*

*حق ایجوکیشن ایںنڈ ریسرچ فاؤنڈیشن کانپور*

 

تقریباً رات کا تین بج رہا تھا، نیند پوری طرح اپنی آغوش میں لیے ہوئے تھی، اچانک کانوں میں ایک آواز آئی” سر اٹھیے مولانا کا انتقال ہو گیا ” یہ آواز تھی حق ایجوکیشن کے شعبہ انگریزی کے استاذ مولانا انس صاحب کی، جھٹکے سے اٹھ کر بیٹھ گیا اور بے ساختہ زبان سے نکلا کون مولانا؟ مولانا انس صاحب دبی دبی آواز میں بولے اپنے مولانا اسامہ صاحب ” ارے انا لللہ وانا الیہ راجعون ” ایک دم دل و دماغ پر سناٹا چھا گیا اور کچھ دیر کے لیے تو کچھ بول ہی نہ سکا، دھیرے دھیرے سبھی اساتذہ بیدار ہوکر ایک جگہ جمع ہو گئے، ہر ایک حزن و ملال کا پیکر بنا ہوا تھا، کوئی تو بالکل خاموش بیٹھا تھا اور کوئی جنوں میں فقط ” ارے یہ کیا ہو گیا اللہ اکبر ” بولے جا رہا تھا، کسی کو بھی حضرت کے انتقال پر یقین نہیں ہو رہا تھا، نہ دل دماغ کو اور نہ ہی دماغ دل کو سمجھا پا رہا تھا بس یہی لگ رہا تھا کہ یہ افواہ ہے ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔

میں اپنے بستر پر سر لٹکائے ہوئے بیٹھا، سوچ رہا تھا کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے، ابھی چند روز پہلے ہی اسی جگہ حضرت کے ساتھ ہم طعامی و ہم کلامی کا موقع نصیب ہوا تھا اور اگلی جمعرات کو پھر آنے آنے والے تھے۔ یہ کہاں پتا تھا کہ یہی آخری ملاقات ہے۔

دو دن پہلے مفتی حفظ الرحمن صاحب نے ہم اساتذہ حق ایجوکیشن سے دعا کے لیے کہا تھا کہ دعافرمائیں حضرت کی طبیعت ناساز ہے ۔ اس وقت ہم یہی سمجھے تھے کہ عام طور پر شوگر وغیرہ بڑھ جاتی ہے ویسے ہی ہوا ہوگا، پھر کرونا پوزیٹیو کی خبر آئی تب بھی یہی لگا کہ مولانا جلد ہی شفایاب ہوکر ہمارے درمیان تشریف لائیں گے، لیکن اس طرح اچانک چھوڑ کر چلے جائیں گے دماغ کے کسی گوشے میں اس کا تصور بھی نہیں آیا تھا،کچھ اسی طرح بے یقینی کی کیفیت رہی مگر تابکے؟

 

*ہم نے چاہا تھا کہ نہ ہو، مگر ہوئی صبح فراق*

*موت کا جب وقت آجاتا ہے تو ٹلتا نہیں*

 

اتنی غیر متوقع موت کا کسی کو بھی یقین نہیں تھا، جس نے جہاں سنا وہیں دم بخود رہ گیا، ہر طرف سناٹا چھا گیا، دینی و ملی حلقوں میں صف ماتم بچھ گئی کیوں کہ آپ کی وفات کے باعث جو خلا پیدا ہوا ہے وہ بآسانی پر نہ ہوسکے گا، آپ بیک وقت کئی محاذ پر سرگرم عمل تھے، کئی ادارے آپ کی سرپرستی میں چل رہے تھے، کتنی تنظیمیں آپ کی رہ نمائی میں کام کررہی تھیں، بہت سارے لوگ آپ سے وابستہ ہوکر اپنی اخروی زندگی سنوار رہے تھے، بے شمار مواقع پر آپ کی صیابت رائے اور دور اندیشی بڑے بڑے فتنوں کا سد باب ہوتیں، قومی و ملی مسائل کے حل میں آپ کے مشورے بڑے وزنی مانے جاتے مگر آہ!

 

*شخص واحد کی شکل میں قافلہ جاتا رہا*

 

اللہ نے آپ کو گوناگوں خوبیوں سے نوازا تھا، حلم و بردباری، ہمت و جرات، عزم و استقلال، تواضع و انکساری ، سخاوت و فیاضی وغیرہ آپ کے نمایاں اوصاف تھے۔

ایمان و عقیدہ کے تحفظ کے تئیں مولانا حد درجہ غیور و بے باک تھے، اس بارے میں کسی بھی طرح کی نرمی کے روادار نہ تھے، لوگوں کے عقائد برباد ہوں اور حضرت مولانا مطمئن ہوں ، ہو نہیں سکتا تھا، آپ تڑپ اٹھتے اور اس کی اصلاح کے لیے بے قرار ہو جاتے۔

حضرت مولانا کی ایک بہت بڑی خوبی خرد نوازی تھی، آپ ہندوستان کے مقبول و قد آور علما میں سے تھے، اس کے باوجود چھوٹوں پر شفقت، ان کی ضرورتوں کا خیال، باتوں کو دھیان سے سننا اور پوری اپنائیت کا برتاو کرنا آپ کی سرشت میں داخل تھا۔

حضرت مولانا چوں کہ جمیعت علماء ہند کے فعال کارکن و صوبائی صدر تھے اس لیے بعض مرتبہ جمیعت کی کچھ پالیسیوں کو لے کر ہم اعتراضات کرتے، سوالات اٹھاتے، تو مولانا چیں بہ جبیں ہونے کے بجائے نہایت متانت کے ساتھ ہماری معروضات سنتے، مکمل خوش اسلوبی کے ساتھ جوابات دیتے اور سوالات اگر درست ہوتے تو انھیں تسلیم بھی کرتے۔

حضرت مولانا اپنے ماتحتوں کی ضرورت اور آرام کے وقت کا بہت خیال رکھتے تھے، بارہا ایسا ہوا کہ کبھی کسی پروگرام کی رپورٹنگ ، کسی اردو شہ پارے کا انگریزی ترجمہ وغیرہ کی ذمہ داری سپرد کی مگر کبھی بھی تحکمانہ لہجہ نہیں اپنایا، بلکہ کہتے ” یہ۔۔۔۔۔کام کردیں اگر آپ کے پاس ٹائم ہو، یہ۔۔۔۔۔۔دیکھ لیں اگر آرام کا وقت نہ ہو” وغیرہ وغیرہ

چھوٹوں کی حوصلہ افزائی مولانا کی طبیعت میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، مجھے یاد ہے ، میں بی ایڈ کا انٹرنس دے چکا تھا، نتیجہ ابھی آنا تھا لیکن یہ یقینی نہیں تھا کہ کوئی سرکاری کالج مل جائے گا اور میری مالی حالت پرائیویٹ فیس ادا کرنے کی نہیں تھی۔ جب حضرت مولانا کے سامنے یہ بات آئی تو آپ نے اپنی طرف سے پوری فیس کا انتظام کردیا ، لیکن کانسلنگ ہوئی تو مجھے سرکاری کالج مل گیا تو میں نے ان پیسوں کو واپس کرنا چاہا مگر مولانا نے منع کردیا اور کہا محنت سے پڑھیے اور اس پڑھائی میں جو صرفہ آئے گا اسی میں لگائیے۔ اس پڑھائی سےانشا ء اللہ ملت کا فائدہ پہنچے گا۔

اسی طرح مجھے اچھی طرح یاد ہے جب میں نے اپنے گاؤں میں مکتب کے تعمیر کی تفصیل حضرت مولانا کو بتلائی تو بہت مسرور ہوئے، مالی تعاون بھی فرمایا اور گراں قدر مشورے بھی دیے۔

 

آپ کی جادوئی شخصیت کا اثر جو پہلے دن قائم ہوا اخیر تک برقرار رہا، آپ کی دل آویز مسکراہٹ ہر ملاقات میں چہرے پر نظر آتی رہی، تقریبا دس سال تک آپ کی سرپرستی میں خدمت دین کا موقع ملا آپ کے گفتار کی شگفتگی اور مزاج کی شادابی میں کبھی بھی فرق نہیں پایا ، جب بھی ملاقات ہوتی، والہانہ انداز میں پوچھتے ” اور مولانا جاوید صاحب کیسے ہیں ”

آج سے دس سال قبل جب میں پہلی بار حق ایجوکیشن اینڈ ریسرچ فاونڈیشن کان پور میں آیا تو یہ جگہ بالکل ویران اور تباہ حال تھی، کبھی تصور بھی نہیں ہوتا تھا کہ اس ویرانی میں تعلیم و تعلم کا کوئی ایسا گلشن آباد ہوگا جس کی خوشبو ہندوستان کے دور دراز خطوں تک پہنچے گی مگر آج الحمدللہ اسی ویرانی میں ایک ایسا علمی چمن آباد و شاداب ہے جس کی ایک ایک کلی مولانا کے خلوص کی خوشبو میں بسی ہوئی ہے اور ان شاء اللہ جب تک یہ ادارہ باقی رہے گا اس کے درودیوار مولانا کے آہنی عزم کی گواہی دیتے رہیں گے۔

حضرت مولانا بڑی باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے ، آپ کے پاس بیٹھ کر کبھی گرانی نہیں ہوتی تھی، ہنسی مذاق کی باتیں خود بھی کرتے دوسروں سے بھی سنتے، آپ کی مجلس میں طبیعت خوب لگتی تھی، یہی وجہ تھی آپ آئیں اور ملاقات کی آرزو نہ ہو، ہو ہی نہیں سکتا تھا، ہمیشہ آپ کی باتیں سننے، پاس بیٹھنے اور ملنے کی تمنا رہتی۔ جب کوئی یہ خبر سناتا تھا کہ چلیے نیچے بڑے حضرت آیے ہیں، آپ کو بلا رہے ہیں، تو خواہ وہ آٰرام کا وقت ہی کیوں نہ ہو، دلی مسرت ہوتی تھی اور خوشی خوشی آپ کی مجلس میں شریک ہوتا تھا۔

آپ کے انتظامی مزاج نے ہم ماتحتوں کو انتظامی بکھیڑوں سے بے فکر بنا رکھا تھا، کسی معاملے کو لے کر کبھی کوئی تشویش ہی نہیں رہتی تھی ایسا لگتا تھا کسی مشفق کا دست شفقت ہمارے سروں پر ہے، افسوس آپ کی وفات نے اس سہارے کو چھین لیا ، آج اپنی بے بسی اور یتیمی کا بہت احساس ہورہا ہے،

اللہ حضرت مولانا کی مغفرت فرمائے، پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے، ان کے مشن کو بہتر طریقے پر آگے بڑھانے کی توفیق نصیب فرمائے

 

*جس کا سایہ سر پہ تھا اک سایہء بال ہما*

*آج ہم سے وہ مبارک سائباں جاتا رہا*

Comments are closed.