جہاں بھی گنجائش ہو قربانی ضرور کی جائے:امارت شرعیہ

جہاں بھی گنجائش ہو قربانی ضرور کی جائے:امارت شرعیہ

 

موجودہ حالات میں جبکہ کورونا کا مرض بڑی تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے ، کئی صوبوں نے اس خطرناک صورت حال کی وجہ سے دوبارہ لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا ہے ۔ عید الاضحی بھی قریب ہے ، جس میں پوری دنیا کے صاحب استطاعت مسلمان قربانی کرتے ہیں ۔ لاک ڈاؤن کی اس صورت میں قربانی کے متعلق امارت شرعیہ سے لوگ سوال کر رہے ہیں کہ ان حالات میں قربانی کی کیا شکل ہو گی ، اس سلسلہ میں امارت شرعیہ کے قائم مقام ناظم مولانا محمد شبلی القاسمی صاحب نے وضاحت کرتے ہوئے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ قربانی ہر صاحب نصاب مسلمان پر واجب ہے ، یہ حضرت ابراہیم علی نبینا و علیہ الصلوٰۃ و السلام کی سنت ہے ، جس کو اس امت میں بھی باقی رکھا گیا ہے، یہ شعائر اسلام میں سے ہے ۔ قربانی کے ایام میں اللہ تعالیٰ کو قربانی سے زیادہ کوئی عمل محبوب نہیں ہے ۔ اللہ کے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ واضح ارشاد ہمارے لیے رہنما اصول کی حیثیت رکھتا ہے ۔’’ قربانی کے دن بنی آدم کے اعمال میں سے اللہ تعالیٰ کو اتنا زیادہ محبوب عمل کوئی نہیں جتنا قربانی کے دن قربانی کرنا ہے)ترمذی و ابن ماجہ(اور مسند احمد کی ایک روایت میں بطور وعید اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد موجودہے کہ جو شخص قربانی کی طاقت رکھتا ہو ، پھر بھی قربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے۔

 

اس طرح کے ارشادات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ قربانی کے بدلہ اس کی قیمت کا صدقہ کرنا یا اس کو غربائ و مساکین کی دوسری ضرورتوں کی تکمیل میں خرچ کر دینا قربانی کا ہرگزبدل نہیں ہو سکتا ۔ جس طرح نما ز کا بدل روزہ اور روزہ کا بدل نماز نہیں ہو سکتی، یہی جمہور کا مسلک ہے اور اسی پر امت کا عمل ہے۔ اس لیے قربانی کے ایام میں ہر صاحب نصاب مسلمان ضرور قربانی کرے ، اگر استطاعت کے باوجود کوئی قربانی نہیں کرے گا تو وہ واجب کو چھوڑنے کا گنہگار ہوگا،اس لیے جہاں بھی گنجائش ہو وہاں قربانی ضرور کی جائے ۔

 

البتہ اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ قربانی کے فضلات یعنی خون ، غلاظت ، کھال ،اوجھڑیاں و غیرہ ایسی جگہوں پر نہ ڈالے جائیں جس سے کسی کو تکلیف ہو اور اور وہ کسی فتنے کا سبب بنے ، قربانی کے فضلات کو کسی محفوظ مقام پر گہرا گڈھا کھود کر دفن کر دیا جائے ، تاکہ لوگوں کی نگاہوں اور جانوروں کی دسترس سے دور رہے اور کسی کے لیے کراہیت کا سبب نہ بنے اور نہ ہی کسی کو فتنہ کا موقع مل سکے ۔

Comments are closed.