حضرت مولانا وصی صدیقی صاحب قاسمی کا وصال ملت کا ایک عظیم خسارہ محمد حسن ندوی استاذ حدیث وفقہ دارالعلوم ماٹلی والا بھروچ

حضرت مولانا وصی صدیقی صاحب قاسمی کا وصال ملت کا ایک عظیم خسارہ
محمد حسن ندوی استاذ حدیث وفقہ دارالعلوم ماٹلی والا بھروچ
رات پونے دس بجے نمازعشاء اور چہل قدمی سے جیسے ہی گھرمیں قدم رکھا
ویسے ہی عزیزی اشھد حسن سلمہ نے اطلاع دی کہ ابو مولانا وصی صاحب کا انتقال ہوگیا ہے ،میں نے کہا ململ کے مولانا ؟اس نے کہا ہاں! ململ کے مولانا کا انتقال ہوگیا ہے ، انااللہ وانا الیہ راجعون دعا پڑھا ،اس خبر کو سننے کے بعد بڑا افسوس ہوا،اچانک خبر سے ذہن و دماغ تھوڑی دیر کے لیے ماءوف سا ہوگیا ،ابھی مولانا مشتاق صاحب نور اللہ مرقدہ استاذ شعبہ حفظ دارالعلوم ماٹلی والا بھروچ کی رحلت کا غم ہلکا نہیں ہوا تھا کہ دوسرا غم آپہنچا ،اس لیے مولانا کی وصالِ پریقین نہیں ہورہاتھا ،عزیزی مفتی اکرام ندوی کو فون کیا،سلام کے بعد انہوں نے بھی کہا کہ ہاں بھائی صاحب مولانا وصی صاحب اللہ کے جوار رحمت میں چلے گئے ہیں، ابھی ململ سے خبرآئی ہے
مولانا کی شخصیت محتاج تعارف نہیں،مولانا بڑے فعال متحرک عالم تھے ،آپ نہ صرف مدرسہ چشمہ فیض ململ مدھوبنی کے مہتمم ،مدرسہ فاطمۃ الزھراء کے بانی وموسس تھے،بلکہ شمالی بہار متھلانچل کے ضلع مدھوبنی کے اکثر دینی علمی اداروں کے سرپرست تھے ،آپ شخص ہی نہیں،بلک شخصیت تھے ،علاقے کی شان اور آبرو تھے،ضلع مدھوبنی میں مسلمان قصبات میں دوقصبات بہت مشہور ہیں ،ایک یکہتہ دوسرا ململ،دونوں قصبے کی شہرت کی وجہ یہ نہیں ہے کہ یہاں کے لوگ زیادہ مال والے ،زیادہ خوشحال ہیں بلکہ اس کی وجہ یہ ہےکہ ان دونوں خاک سے چند ایسے باکمال عالم اور مربی ومصلح پیدا ہوءےہیں جن کے نام سےدونوں قصبات شمالی بہار میں مشہور ہیں ،یکہتہ کی خاک سے حضرت مولانا ممتاز علی المظاہری رحمہ اللہ جیسی عظیم شخصیت پیدا ہوئی ، جو چند سال پہلے اللہ کے پیارے ہوگیے اور ململ سے مکرمی مشفقی حضرت مولانا وصی صاحب قاسمی نور اللہ مرقدہ کی شخصیت ،جوآج ہمارے درمیان نہیں رہے ،آپ گوناگوں خصوصیات کے حامل تھے،آپ دارالعلوم دیوبند کے فاضل تھے،قاضی مجاھدالاسلام قاسمی رحمہ اللہ سے آپ کےبہت اچھے مراسم
تھے ،غالبا دارالعلوم میں دونوں درسی ساتھی تھے ،جب میں امارت شریعہ پٹنہ میں زیر تعلیم تھا،اس وقت آپ اکثر وہاں تشریف لاتے اور قاضی صاحب کے یہاں قیام کرتے ،اس موقع پر میں بھی آپ سے ملاقات کرکے خوشی محسوس کرتا ،آپ کے مفید مشورے سے فایدہ اٹھاتا
بہرحال مولانا کاحادثہ ملت کابہت بڑاحادثہ ہے ،اس پر جتنا افسوس کیاجائے کم ہے
موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس
یوں تو دنیا میں سبھی آیے ہیں مرنے کےلیے
مولانا وصی صاحب کا تعلق میرے گھرانے سے بہت ہی دیرینہ اور گہرا تھا، اس لیے میرے گھر والوں سے بڑی اپناءیت تھی ،سبھوں کے ساتھ خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آتے،آپ جب بھی یکہتہ یا طوفان پور آتےتو ہمارے گھروالد محترم حضرت مولانا احمدحسین صاحب المظاہری رحمہ اللہ سے ملاقات کے لیے ضرور تشریف لاتے،اور والد محترم کا بڑا احترام کرتے اور والد صاحب بھی ان کی آمد پر بہت خوش ہوتے،اورخاطرخواہ اکرام کرتے،اور ان کے ساتھ شفقت کے ساتھ پیش آتے
یہی وجہ ہے کہ سال گزشتہ جب آپ سورت آیے تو ناچیزسےفون پربات کی ،اور کہاکہ بھروچ ضرورآءوگا،چنان چہ آپ یہاں تشریف لاءے،جیسے ہی خبرملی کہ آپ تشریف لاچکےہیں تومیں مفتی مجتبی صاحب کے یہاں حا ضرہوا،اورمولاناوصی صاحب سے ملاقات کی سعادت حاصل ہوئی ،آپ بہت ہی تپاک سے ملے،خبروخیریت کے بعد والد صاحب کے تعلق سے بہت سی باتیں ذکرکیں،کھانے کی دعوت پیش کی تو قبول کیا اور جاتے جاتے میرے اور میرے بچوں کے لیے بہت دعاءیں دیں ،یہ میری آخری ملاقات تھی ،
اخیر میں ے یہی دعاہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت مولانا وصی صاحب قاسمی کی دینی اور علمی خدمات کو قبول فرماکر بخشش کا ذریعہ بنایے آمین
علاقے میں آپ کی پہچان مدرسہ چشمہ فیض کی وجہ سے تھی،یہ مدرسہ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے ملحق مدارس میں ایک مثالی ادارہ ہے ،جہاں سے بڑی تعداد میں طلبہ علمی تشنگی بجھانے کے بعد اعلی تعلیم کے لیے ندوۃ العلماءلکھنو میں داخلہ لیتے ہیں اور یہاں سے فراغت کے بعد مختلف دینی اداروں میں دین کی خدمت انجام دیرہےہیں،یہاں سے پروردہ مثالی طلبہ میں مولانا شکیل ندوی ململی ،مولانا مولانا حسان ندوی ململی ،مولانا منورسلطان ندوی استاذ دارالعلوم ندوۃ العلماء ہیں،جن کی اپنی اپنی جگہ پر ایک انفرادی حیثیت ہے
ظاہر ہے عزیزم مولانا فاتح اقبال ندوی کے لیے یہ ایک بڑا حادثہ فاجعہ ہے،اس لیے بطور تعزیت کے یہ جملہ لکھ رہا ہوں کہ (الصبرعندالصدمۃ الاولی)وہی صبر معتبر ہے جوحاثہ کے اول وقت میں ہو،آپ مولانا کے صحیح وارث ہیں،اللہ تعالی آپ کو حوصلہ دےاور ہمت وحوصلہ کے ساتھ مولانا کے مشن اور کام کوپایےتکمیل تک پہنچانے کی توفیق دے اور تمام پسماندگان کو صبر جمیل عطاکرے آمین
Comments are closed.