جمعہ نامہ : ہدایت و گمرہی کے دنیاوی و اخروی ثمرات ڈاکٹر سلیم خان

جمعہ نامہ : ہدایت و گمرہی کے دنیاوی و اخروی ثمرات
- ڈاکٹر سلیم خان
ارشادِ ربانی ہے :’’ یاد کرو وہ وقت جبکہ ہم نے فرشتوں سے کہا تھا کہ آدمؑ کو سجدہ کرو وہ سب تو سجدہ کر گئے، مگر ایک ابلیس تھا کہ انکار کر بیٹھا۔ ہم نے آدمؑ سے کہا کہ "دیکھو، یہ تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہے، ‘‘۔ اس آیت میں ابلیس کی نافرمانی کو بنی آدم کی دشمنی سےتعبیر کرکےخبردار کیا گیا : ’’ ایسا نہ ہو کہ یہ تمہیں جنت سے نکلوا دے اور تم مصیبت میں پڑ جاؤ ۔یہاں تو تمہیں یہ آسائشیں حاصل ہیں کہ نہ بھوکے ننگے رہتے ہو ۔ نہ پیاس اور دھوپ تمہیں ستاتی ہے‘‘ ۔ اس کے باوجود انسانی عزم کی کمی کا فائدہ اٹھاکر شیطان لعین آدم ؑاور حوا کو جنت سے نکلوانے میں کامیاب ہوگیا حالانکہ خالق کائنات خبردار کرچکاتھا : ’’ ہم نے اِس سے پہلے آدمؑ کو ایک حکم دیا تھا، مگر وہ بھول گیا اور ہم نے اُس میں عزم نہ پایا ‘‘۔فطرتِ انسانی کی کمزوریاں نسیان اور عزم کی کمی کے اثرات دنیوی و اخروی زندگی پر پڑتے ہیں ۔
حضرت آدم کو قبولیتِ توبہ کے بعد دنیا میں بھیجتے وقت یہ ہدایت دی گئی کہ: "تم دونوں (یعنی انسان اور شیطان) یہاں سے اتر جاؤ تم ایک دُوسرے کے دشمن رہو گے اب اگر میری طرف سے تمہیں کوئی ہدایت پہنچے تو جو کوئی میری اُس ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ بھٹکے گا نہ بد بختی میں مبتلا ہو گا ‘‘۔ یعنی الہامی ہدایت کا سلسلہ جاری رہے گااور اس کی پیروی یا روگردانی نتیجہ خیز ہوگی ۔ الہامی رہنمائی کا خوش بخت پابند راہِ راست پر گامزن رہے گا اور تارک دربدر بھٹکتا پھرے گا نیز دنیوی تنگی کا شکارہو جائےگا: ’’ اور جو میرے "ذِکر”(درسِ نصیحت) سے منہ موڑے گا اُس کے لیے دنیا میں تنگ زندگی ہو گی ‘‘۔ تنگی و خوشحالی کو عام طور پر دولت سے جوڑ کر دیکھا جاتا ہے لیکن اس کی مستقل پیمائش نہیں ہے۔ ایک فرد کی کشادگی دوسرے کے لیے تنگی ہوسکتی ہے بلکہ جس انسان کے لیے ایک معمولی سائیکل کل کشادگی کی علامت تھی آج وہ ہیلی کاپٹرمیں بھی تنگی محسوس کر سکتا ہے ۔
سورۂ نحل میں اہل ایمان کے لیے یہ خوشخبری ہے کہ :”جس شخص نے بھی مومن ہونے کی حالت میں اچھے اعمال کیے ہوں گے خواہ وہ مرد ہو یا عورت ہم اسے اچھی زندگی بسر کرائیں گے۔“ یہ اچھی زندگی ضروری نہیں دولت و ثروت سے مالا مال ہو۔ علم و فضل ، عزت و وقار، عزم و حوصلہ اور سب سے اہم سکونِ قلب سے بڑی کوئی نعمت نہیں جو بے نیازی اور توکل سے حاصل ہوتی ہے۔ ہدایت الٰہی پر عمل در آمد کو اجتماعی زندگی میں بھی عمومی خوشحالی اور رزق کی فراوانی کی ضمانت قرار دیا گیا ہے ۔ فرمان ِ ربانی ہے : ”اگر بستی والے ایمان لے آتے تو ہم ان پر آسمان و زمین دونوں طرف سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے“ ۔ اس کے برعکس امن و امان کو سرکشی اور بغاوت غارت کردیتی ہے: ”اللہ ایک بستی کی مثال دیتا ہے جو بڑی پُر امن اور مطمئن تھی، اس کا رزق اس کو ہر جگہ سے بڑی فراوانی کے ساتھ پہنچ رہا تھا۔ پھر اس نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری شروع کردی، تو اللہ نے اُن کے کرتوت کی وجہ سے اُن کو یہ مزہ چکھایا کہ بھوک اور خوف اُن کا اوڑھنا بچھونا بن گئے“۔ موجودہ حالت پر یہ آیت من و عن صادق آتی ہے۔
اجتماعی عذاب تو دنیا کی حد تک ہے مگر انفرادی نافرمانی کی سزا کا دائرۂ کار آخرت تک پھیلا ہوا ہے۔ سورۂ طٰہ میں فرمایا:’’اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اٹھائیں گے‘‘۔ اس دن اندھا اٹھائے جانے پر انسان کہے گا:’’پروردگار، دُنیا میں تو میں آنکھوں والا تھا، یہاں مجھے اندھا کیوں اُٹھایا؟اس سوال کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرمائے گا:’’ہاں، اِسی طرح تو ہماری آیات کو، جبکہ وہ تیرے پاس آئی تھیں، تُو نے بھُلا دیا تھا اُسی طرح آج تو بھلایا جا رہا ہے‘‘۔بات شروع ہوئی تھی عزم کی کمی کے باعث بھول جانے سے اور پھر لوٹ کر وہیں پہنچ گئی۔الٰہی ہدایت کو نظر انداز کرنے والوں کی جانب سے روزِ قیامت اللہ تعالیٰ کا نظرکرم پھیر لینا وہ عظیم ترین خسارہ ہے لیکن ہلکی پھلکی سزائیں تو دنیا میں بھی ملتی رہتی ہیں فرمانِ خداوندی ہے:’’ اِس طرح ہم حد سے گزرنے والے اور اپنے رب کی آیات نہ ماننے والے کو (دُنیا میں) بدلہ دیتے ہیں، اور آخرت کا عذاب زیادہ سخت اور زیادہ دیر پا ہے‘‘۔
Comments are closed.