ایک اور آفتاب غروب ہوگیا!

از قلم:انوارالحق قاسمی ،نیپالی۔
ابھی حضرت مولانا متین الحق اسامہ قاسمی۔ رحمۃ اللہ علیہ۔صدر جمیعت علماء اترپردیش و قاضی شہر کانپور کے اس دار فانی سے دار بقاء کی طرف رحلت فرما جانے کا صدمہ تازہ ہی تھا،کہ آج بروز پیر،شام تقریبا چھ بجے ناچیز عید الاضحی کے عنوان پر ایک مضمون لکھنے میں محواور مصروف تھا، کہ اچانک میرے چھوٹے بھائی حضرت مولانا نثار احمد صاحب ایک بجلی کی طرح سر پر گرنےوالی المناک خبر کہ کئی نسلوں کے معلم،فن حدیث و تفسیر کے ماہر، حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا ۔رحمتہ اللہ علیہ۔ کے داماد، امیر جماعت حضرت مولانا محمد سعد صاحب ۔حفظہ اللہ۔ کے سسر، مظاہر علوم سہارنپور کے شیخ الحدیث وناظم اعلی، استاذ الاساتذہ حضرت مولانا محمد سلمان صاحب داعی اجل کو لبیک کہہ گئے،إنا لله وإنا اليه راجعون۔
واقعتامجھے یقین نہیں ہو رہا تھا ،کہ حضرت ہم سے جدا ہو چکے ہیں ،تو اس علم یقین کے حصول کے لیےاحقرالوری نے فیس بک پر ایک مشہور اردو نیوز "عصر حاضر” کو سرچ کیا، تو یکایک ناچیز کی نظر پاؤں تلے زمین میں زلزلہ بپا کر دینے والی ذکر کردہ خبرپر پڑی، دونوں آنکھیں فورا بند ہو گئیں، جسم میں لرزہ طاری ہو گیا ،اخذ کی طاقت یدین سے مفقود ہوگئی، اورموبائل ہاتھ سے زمین پر گر پڑا۔
ان چند مہینوں میں کئی جید اور مشتہر روزگار شخصیت کے خالق حقیقی سے جاملنے کی وجہ سے علم دوست حضرات میں بے چینی کی کیفیت پیدا ہو چکی ہے، ان کا کہنا ہے: کہ ایسا لگتا ہے کہ موجودہ دور میں علمی مراکز کے مقفل اور بند ہونے کی وجہ سےباصلاحیت علمائے کرام اپنے مالک حقیقی سے جامل رہے ہیں، قیامت کی علامتوں میں سے ایک علامت یہ بھی ہے، کہ قرب قیامت اس دنیا سے علم اٹھا لیا جائے گا ،علم اٹھانے کی صورت یہی ہےکہ اس دنیائے فانی سےیکے بعد دیگر موقر علمائے کرام اٹھا لیےجائیں گے اور ایک وقت آئے گا کہ اس روئے زمین پر ایک بھی عالم نہیں رہیں گے، اللہ تبارک و تعالی ہم خردوں کے استفادے کے لیے باحیات علماء کرام کے سائے کو تادیر قائم رکھے ۔
حضرت مولانا سلیمان۔ علیہ الرحمہ۔ کا شمار ان ہی مقتدر علماء میں تھا جن کے وجود سے عالم منور تھا ،اور انہیں سب لوگ اپنا محبوب سمجھتے تھے، اہل علم ان کی بہت قدر کرتے تھے، اورعجیب اتفاق یہ ہے کہ اتنے بڑے بڑے علماء کرام اس دنیا فانی دنیا سے رحلت فرما رہے ہیں؛ مگر اپنے پیچھے اپنا کوئی ثانی چھوڑ کر نہیں جا رہے ہیں، اللہ تبارک و تعالی امت کی حال پر رحم فرمائے،آمین۔
حضرت مرحوم و مغفور بیک وقت جید مدرس، باکمال خطیب، بے مثال منتظم اور زبردست انشاء پرداز تھے، ایک طویل عرصے تک حضرت شیخ الحدیث۔نوراللہ مرقدہ ۔سے علم حدیث کی مشہور و معروف اور مقبول کتاب "مشکوۃ شریف” اور اسی طریقے سے علم تفسیر کی یگانہ روزگار کتاب :جلال شریف ” متعلق رہے ہیں، حضرت کا انداز درس بہت ہی ممتاز تھا، انتظامی امور میں بھی ایک انفرادی حیثیت رکھتے تھے، حضرت ہی کے دور نظامت میں "مظاہرعلوم جدید "کو متنوع ترقیات ملی ہیں، نئے نئےشعبہ جات، تخصص کے درجات اور دیدہ زیب، دلکش اور خوش نما عمارات کا عظیم سلسلہ شروع ہوا اور تمام عمارات مکمل ہوئیں، حضرت علیہ الرحمہ مختلف اوصاف حمیدہ اور خصائل حسنہ سے متصف تھے، حضرت کے انتقال فرما جانے کی وجہ سےعلماء،طلباء ہر ایک رنجیدہ اور کبیدہ خاطر نظر آ رہے ہیں۔
والد محترم حضرت مولانا محمد عزرائیل صاحب مظاہری ۔زیدمجددہم۔ بانی معہد ام حبیبہ للبنات جینگڑیا، روتہٹ، نیپال و مرکزی ممبر جمیعت علمائے نیپال کے اخص الخاص استاذ تھے ،حضرت شیخ الحدیث ۔علیہ الرحمہ۔کے انتقال فرماجانےکی وجہ سے والد محترم کو کافی صدمہ اور رنج ہواہے، والد محترم فرما رہے تھے: کہ حضرت علیہ الرحمہ سے فن حدیث کی ایک معتبر کتاب "مشکات شریف "پڑھا ہوں، حضرت بہت ہی عمدہ اسلوب میں درس دیا کرتے تھے،حضرت کادرس کافی مقبول ومحبوب تھا، انتظامی امور میں بھی حضرت کی خدمات بے شمار ہیں، حضرت علیہ الرحمہ نے ہر لائن سے مظاھرعلوم جدید کو نمایاں ترقیات سے نوازا ہے، حضرت کی خدمات جلیلہ کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔ متوسلین،علماء، طلباء ہرایک سےعاجزانہ عرض گذار ہے ،کہ ہم تمام، حضرت علیہ الرحمہ کے لئے خصوصی ایصال ثواب کا اہتمام کریں، اور دعا کریں کہ اللہ رب العالمین حضرت الاستاذ کے تمام گناہوں کو معاف فرمائے، جنت الفردوس میں اعلی اور نمایاں مقام عطا فرمائے،تمام متعلقین و متوسلین،پس ماندگان،اور علوم نبویہ کے شیدائیوں کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائیں اور مظاہر علوم سہارنپور کو حضرت کا نعم البدل منتظم،شیخ الحدیث عطا فرمائے، آمین۔

Comments are closed.