قربانی کے ضروری مسائل سوال وجواب کے انداز میں

ترتیب وپیشکش : مفتی ریاض احمد قاسمی 

استاد حدیث وفقہ جامعہ رحمانی مونگیر

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سوال ۔۔۔۔۔ ایام قربانی گزر جانے کے بعد صاحب نصاب شخص قربانی نہ کر سکے تواس کے لئے قربانی کا جانور صدقہ کرنا یا اس کی قیمت صدقہ کرنا واجب ہے۔ اس کی کیا دلیل ہے؟
الجواب باسم ملہم الصواب
ایام قربانی گزر جائے اور صاحب نصاب شخص قربانی نہ کر سکے تو احناف کے نزدیک قربانی کا جانور موجود ہونے پر اسے صدقہ کرنا واجب ہے،اسے بیچنا یا اپنے مصرف میں لانا جائز نہیں ہے، اس کی دلیل حدیث شریف ہے: حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ابو قبیصہ ذویب رضی اللہ تعالی عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں قربانی کے اونٹوں کے ساتھ روانہ فرماتےاور ارشاد فرماتےکہ ان میں سے جو مرنے لگے اسے ذبح کر دینا،پھر اس کے گلے کا پٹا خون میں رنگ دینا اور اس کی گردن پر بھی خون لگا دینا (تاکہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ یہ قربانی کا جانور ہے بس اغنیاء اس سے اجتناب کریں) تم اور تمہارے ساتھیوں میں سے کوئی اس سے نہ کھانا ۔(مسلم شریف حدیث نمبر 1326 )اور حضرت ناجیہ اسلمی رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث میں یہ بھی ہے کہ اسے لوگوں کے لیے چھوڑ دینا تاکہ وہ اس میں سے کھائیں( ترمزی شریف حدیث نمبر 910)
ان احادیث سے بطریق دلالۃ النص معلوم ہوا کہ قربانی کا جانور جب کسی وجہ سے قربان نہیں کیا جا سکے تو اسے فقراء پر صدقہ کر دیا جائے اور اغنیاء اس میں سے نہ کھائیں، اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ذویب اور ان کے رفقاء کو اس میں سے کھانے سے منع فرمایا۔
اس حدیث شریف کی تائید قیاس صحیح سے بھی ہوتی ہے کہ اگر کوئی شخص نذر مان لے کہ میں یہ بکری صدقہ کروں گا تو اس پر واجب ہے کہ وہ بکری فقراء پر صدقہ کرے اور اگر صدقہ سے پہلے وہ مرنے لگے تو اسے ذبح کرکے گوشت صدقہ کرنا واجب ہے، اس میں سے اغنیاء کو کھانا، یا اسے اپنے مصرف میں لا کر دوسرا صدقۃ کرنا جائز نہیں ہے ، اسی طرح جو جانور قربانی کے لیے مختص کر دیا جائے وہ بھی ایام قربانی میں نذرکے درجےمیں ہو جاتا ہے، اسے ایام قربانی میں قربان کرنا واجب ہے اور ضیافت خداوندی عارض ہونے کی وجہ سے سب کے لئے اس میں سے کھانا جائز ہے ، لیکن جب یہ عارض ضیافت ختم ہو جائے اور کسی وجہ سے قربانی نہ ہوسکے تو اصل حکم کے مطابق اسے فقراء پر صدقہ کرنا ہی متعین ہے۔
اس مسئلے کی دوسری صورت یہ ہے کہ قربانی ذمہ میں واجب تھی لیکن ایام قربانی میں اس نے قربانی نہیں کی اور اس کے پاس قربانی کا جانور موجود نہیں ہے ، تو اب اسے قربانی کا ثواب تو نہیں مل سکتا، لیکن واجب قربانی کی حتی المقدور تلافی کے لئے اس پر استحساناً واجب ہے کہ وہ ایک بکری کی قیمت صدقہ کرے۔ دراصل یہ ایک استحسانی حکم ہے جس کی بنیاد احتیاط فی العبادات کے اصول پر ہے، لیکن وجہ استحسان کی تفصیل سے پہلے مختصرا یہ تحقیق ضروری ہے کہ قربانی تین وجہوں سے ہر صاحب استطاعت پر واجب ہے:
پہلی وجہ۔۔۔۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرمایا ہے: فصل لربک وانحر۔۔۔۔ جمہور مفسرین کے نزدیک وانحر سے مراد قربانی ہے۔ اس امر خداوندی کے بعد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب تک حیات سے رہے پابندی سے قربانی فرماتے رہے، پس امرِ صریح اور مواظبتِ تامہ سے معلوم ہوا کہ قربانی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر واجب تھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی شان اور اہتمام سے امت کو قربانی کرنے کی تاکید فرمائی، جس سے ظاہر ہوا کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت نہیں تھی، لہذا قربانی جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر واجب تھی اسی طرح آپ کی امت پر بھی واجب رہی۔
دوسری وجہ ۔۔۔۔۔۔۔حضرت جندب ابن سفیان بجلی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قربانی کے دن حاضر تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے نماز سے پہلے قربانی کا جانور ذبح کر لیا ہو وہ اس کی جگہ دوسرا جانور قربانی کرے اور جس نے ذبح نہ کیا ہو تو وہ ذبح کرے ۔(بخاری شریف،911)
اس حدیث شریف میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو دوبارہ قربانی کرنے کا حکم فرمایا جنہوں نے نماز عید سے پہلے ہی قربانی کر لی تھی اور جنہوں نے قربانی نہیں کی تھی انہیں قربانی کرنے کا حکم فرمایا ،اہل علم جانتے ہیں کہ شارع کی طرف سے کسی عمل کا حکم ہو اور اس کے غلط ہونے پر دہرانے کا حکم ہو تو یہ اس عمل کے وجوب کی قوی دلیل ہے ۔
تیسری وجہ ۔۔۔۔۔۔ مثبت پہلو سے قربانی کا یا اس کے دہرانےکا حکم دینے کے ساتھ ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منفی پہلو سے بھی اس کے ترک پر وعید ارشاد فرمائی ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو صاحب وسعت ہو، اس کے باوجود قربانی نہ کرے تو ہرگز ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے۔ یہ حدیث مسند احمد اور سنن ابن ماجہ میں مروی ہے، اور دور جدید کے مشہور محقق : احمد شاکر نے اسے حسن اور شیخ البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔(الدررالسنیۃ)
انہی وجوہ کی بنا پر احناف کے علاوہ امام شام اوزعی، امام مصر لیث ابن سعد ، علامہ ابن تیمیہ اور ان کے علاوہ دیگر محققین کے نزدیک قربانی واجب ہے۔
اس تحقیق کے بعد زیر بحث مسئلہ کی طرف آنا چاہیے کہ قربانی ایک واجبِ مالی ہے اور شریعت میں جتنے بھی مالی واجبات ہیں ان سب کا مقصد حاجت مندوں کی حاجت روائی اور امداد ہے، تاکہ نادار لوگوں کو بھی ان کا رزق موعود اللہ کی طرف سے پہنچ جاے، اس مقصد کے پیش نظر اگر غور کیا جائے تو قربانی کے باب میں بھی اصل حکم یہی ہونا چاہیے تھا کہ اسے حاجت مندوں پر صدقہ کرکے ان کی حاجت روائی کی جائے، لیکن ایک تو حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی یادگار کا احیاء ملحوظ ہے، دوسرے ایام قربانی کو اللہ تعالی نے فریضہ حج کے صدقہ طفیل میں اپنی طرف سے ایام ضیافت قرار دیا ہے، اس لئے ان دنوں میں صدقہ کے بجائے خاص قربانی کا حکم دیا گیا اور اس میں سے سب کے لیے کھانا مشروع کیا گیا، لیکن جب یہ ایام گزر جائیں، تو یہ دونوں مقاصد باقی نہیں رہتے، لہٰذا اب حکم اصل مقصد کی طرف لوٹ جاتا ہے اور حاجت مندوں کی حاجت روائی کے لئے قربانی کے جانور کے بجائے اس کی قیمت کا صدقہ کرنا واجب ہو جاتا ہے، کیونکہ جانور کے مقابلے میں قیمت فقراء کے حق میں زیادہ نفع بخش ہے اور اس سے مختلف قسم کی حاجت روائی زیادہ آسان ہے، اس وجہِ استحسان کی طرف علامہ حسامی رحمتہ اللہ علیہ نے اختصار کے ساتھ اشارہ فرمایا ہے:
ولا نوجب التصدق بالشاۃاو بالقیمۃ، باعتبار قیامہ مقام التضحیۃ، بل باعتبار احتمال قیام التضحیۃ فی ایا مھا مقام التصدق اصلاً، اذ ھو المشروع فی باب المال۔(ص٣٩)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ایام قربانی کے بعد اس کی قیمت صدقہ کرنے کا حکم منصوص نہیں ہے کہ اس پرنص کا مطالبہ کیا جائے، بلکہ ذمہ سے واجب مالی کو حتی المقدور ادا کرنے کے لیے ایک احتیاطی اور استحسانی حکم ہے، لیکن چونکہ اصل حکم واجب ہے، اس لئے یہ حکم بھی واجب ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
نوٹ۔۔۔۔۔جو حضرات فقہ اور اصولِ فقہ کو نہیں مانتے، ان کے لئے اس سے اختلاف کی گنجائش ہو سکتی ہے۔

Comments are closed.