?جامع آیا صوفیا کی بازیابی اور شایانِ شان افتتاح: عالم ہے فقط مومن ِجانباز کی میراث

✒️محمد اعظم ندوی
[email protected]
جامع آیا صوفیا کو24 نومبر1934ء میں مسجد سے عجائب گھر میں تبدیل کردیا گیا تھا،آج86 برس بعد پھر اس کی سابقہ حیثیت بحال کردی گئی،برسوں کی عدالتی کاروائی کے بعد ترکی کی عدالت عظمی(کونسل آف اسٹیٹ) نے وزارت سیاحت کی ملکیت کے دعوے کو خارج کرکے اس تاریخی عمارت کو فاتح سلطان مہمت (محمد) ٹرسٹ کے حوالہ کردیا،بحث یہ تھی کہ اس متنازعہ عمارت کا ٹائٹل یعنی مالکانہ حق کس کے پاس ہے؟یہ کیس سرے سے تھا ہی نہیں کہ عمارت کلیسا تھی یا مسجد،ٹھیک بابری مسجد کی طرح،ہندوستان میں تو عدالت نے رام للا کوفریق تسلیم کرکے مقدمہ کی نوعیت بدل دی،مگر ترکی میں چلے اس مقدمہ کی کاروائی کے دوران گریک آرتھوڈوکس چرچ نے کبھی فریق بننے کا دعوی پیش کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی،اس واقعہ کو دنیا بھر کا اسلام پسندحلقہ مغرب کے مقابلہ میں ترکی کی ایک خاموش فتح کی علامت کے طور پر دیکھ رہاہے،اور یقینا ایک ایسے وقت میں جب دنیا کی اکثر مساجد مقفل ہیں اس واقعہ نے اہل ایمان کے دلوں کو حرارت اور آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچائی ہے۔
چوتھی صدی عیسوی میں تعمیر ہونے والا آیا صوفیا سابق مشرقی آرتھوڈوکس کلیساتھا،اور پانچویں صدی میں عیسائی دنیا کے دو حصوں میں تقسیم ہونے کے بعد آرتھوڈوکس کے لیے آیا صوفیا ایسے ہی ہیڈکوارٹر تھا جیسا کہ واٹیکن رومن کیتھولک کے لیے، مشرقی دنیا کے عیسائیوں کے لیے اب یہ حیثیت روس میں واقع روسی راسخ الاعتقاد کلیسا(Russian Orthodox Church)کی ہے، آیا صوفیا کے سلسلہ میں عیسائیوں میں یہ توہمات تھیں کہ یہ ان کی آخری پناہ گاہ ہے، جہاں انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا، چنانچہ جب1453ء میں فتح قسطنطنیہ کے وقت محمد فاتح کے فوجیوں نے پورے شہر پر قبضہ کرلیا اور فوجی سطح پر بازنطینیوں کو شکست ہوگئی تو ان کے مذہبی رہنماؤں اور مذہب پرست عیسائیوں نے وہیں پناہ لی تھی، سلطان نے اپنے اعلان کے مطابق ظہر کی نماز وہیں پڑھیں، اور اس کے بعد پہلا جمعہ بھی وہیں پڑھا،اس غیر معمولی واقعہ نے عیسائیوں کا آیا صوفیا کے بارے میں طلسماتی عقیدہ ہمیشہ کے لیے خاک میں ملا کر رکھ دیا، یہ مسجد ”جامع آیا صوفیا“ کے نام سے مشہور ہوگئی۔
خلافت کے خاتمہ کے بعد کمال پاشا کے اسے عجائب گھر میں تبدیل کئے جانے سے قبل تقریبا پانچ سو سال تک وہاں پنجوقتہ جماعت ہوتی رہی، مولانا محمد تقی عثمانی صاحب نے لکھا ہے:”قسطنطنیہ چونکہ سلطان کی طرف سے صلح کی کوشش کے باوجود بزور شمشیر فتح ہوا تھا، اس لیے مسلمان ان کلیساؤں کو باقی رکھنے کے پابند نہ تھے، خاص طور سے آیا صوفیا کے ساتھ جو باطل مذہبی توہمات وابستہ تھے، انہیں ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے لیے بھی سلطان نے یہ اقدام کیا ہوگا“(جہانِ دیدہ، ص:346) اور اب عدالت میں جو قدیم دستاویزات پیش کئے گئے ان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سلطان محمد الفاتح نے اس عمارت کو مال کے ذریعہ خریدا تھا۔
ترکی کے صدر عالی مقام مرد غیوراردوغان جانتے ہیں کہ دنیا اسے قسطنطنیہ کی دوسری فتح کے طور پر دیکھے گی؛چونکہ آیا صوفیا کی حیثیت صرف کلیسا کی نہیں مسیحی دنیا میں ایک عسکری اور سیاسی مرکز کی رہی ہے،ورنہ ترکی میں نہ جانے کتنے گرجا گھر ہیں جن کو ترکی حکومت نے محفوظ رکھا ہے؛اسی لیے اردوغان نے اپنے ایک خطاب میں ترکی کے مشہور شاعر عثمان یوکسل سردنگتچی کا آیا صوفیہ پرلکھا ہوا ایک ولولہ انگیز کلام پیش کیا تھا،جس کے چند اشعار یہ ہیں:”اے آیا صوفیا! اے عالیشان عبادت گاہ!حیران وپریشان نہ ہونا!سلطان محمد الفاتح کی نسلوں میں ایسے جیالے پیدا ہوں گے جو تمام بتوں کو پاش پاش کرکے تجھے دوبارہ مسجد بنائیں گے، وہ اپنے آنسوؤں سے وضو کریں گے، اور تیری دیواروں کے سایہ میں سجدوں میں گر پڑیں گے، تیرے گنبد ومینار سے دوبارہ ایک اللہ کی حمد وثنا کے زمزمے بلند ہوں گے اور نغمے گونجیں گے، یہ دوسری فتح ہوگی، عنقریب شعرا ء اس کی خوشی میں قوت وشوکت سے بھرپور اشعار تخلیق کریں گے، پھر سے تیرے یتیم اور خاموش میناروں سے اذان کا آوازہ بلند ہوگا، اور نعرہئ تکبیر کی صدائیں فضاؤں کو مخمور کردیں گی، ان گنبد ومینار کی بلندیاں اللہ کی تقدیس وتعظیم اور نبوت کے انوار سے روشن ہوجائیں گی، یہاں تک کہ لوگ سوچیں گے کہ دوبارہ فاتح آگیا ہے، یہ سب کچھ ہوگا اے آیا صوفیا! یہ دوسری فتح موت کے بعد دوبارہ جینے کی طرح ہوگا، یہ قدرت کا حتمی فیصلہ ہے،ہرگز غم نہ کھانا!، وہ مبارک دن قریب ہے، وہ آئے گا،شاید کل یا کل سے بھی پہلے“۔
آیا صوفیا کی بازیابی کو”فتح ثانی“کا عنوان دینے کی پاداش میں اس انقلابی شاعر کو1983ء میں تختہ ٔ دار پر چڑھا دیا گیا اور پھانسی کی سزا دے دی گئی؛ لیکن ان کے جذبات آج دنیا کے لاکھوں کروڑوں مسلمانوں کے جذبات ہیں جنہوں نے ترکی کے افسانوی شہر استنبول کے وسط میں واقع جامع آیا صوفیہ میں2ذی الحجہ1441ھ مطابق 24 جولائی 2020ء کو پہلے جمعہ کا پر کیف،انقلاب انگیز اور وجد آفریں منظر دیکھا،جب خطیب برسر منبر شمشیر بکف جلوہ افروز ہوئے،جوان وپیر اورمردوزن نشہ ٔ ظفر میں سرشار نظر آئے،صدر اردوغان نے اپنی پروقار آواز میں قرآن مجید کی مسحور کن تلاوت کی اور پورا مجمع غرق انوار ہوگیا۔
جہاں تک ترکی کے اس فیصلہ کا تعلق ہے تو ہمارا ماننا ہے کہ یہ محض میوزیم میں تبدیل شدہ مسجد کو از سر نو مسجد بنانے کا مسئلہ نہیں، بلکہ اس میں دور رس سیاسی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے اسلام مخالف طاقتوں کواپنی قوت وشوکت کا ایک طاقتور پیغام دیا گیا ہے، آیا صوفیا کی پرشکوہ عمارت اب صرف ایک جامع مسجد نہیں، خصوصا ایسے شہر میں جہاں تین ہزار سے زائد ایک سے بڑھ کر ایک عالیشان مسجدیں پہلے سے ہیں، آیا صوفیا شہرقسطنطنیہ(استنبول)کی فتح اسلامی کی ایک یادگار ہے،جبکہ 1934ء میں اسے میوزیم میں تبدیل کرنا مغرب کے سامنے ترکی کی سیکولر طاقتوں کے سربہ سجود ہونے کی ایک علامت،اورگھٹنے ٹیکنے کا اعتراف تھا، جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی یا جماعت انصاف وترقی نے تقریبا بیس سالوں کی انتھک محنتوں کے بعد ترکی کو سیاسی، معاشی اور عسکری میدانوں میں دوبارہ مغرب کے شانہ بشانہ کھڑا کردیا ہے، اور دنیا کو یہ بتایا ہے قوموں کی نشاۃ ثانیہ میں ان تینوں عناصرکی حیثیت ریڑھ کی ہڈی کی ہے۔
ماضی کی بہت سی غلطیاں آج بھی ترکی کے پاؤں کی زنجیر ہیں؛ لیکن ماضی کی ہی فتوحات، اور دنیا بھر کے مسلمانوں کی اس کی جانب اٹھتی ہوئی امید بھری نگاہیں اسے بے چین کرتی ہیں کہ وہ دوبارہ عالم اسلام کی قیادت کرے، دور اندیش ترکی قائدین خوب جانتے ہیں کہ جنگ ہمیشہ ایک ہی طریقہ پر نہیں جیتی جاسکتی، پینترے بدلنے پڑتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ سیاسی دنیا میں علامتوں اور یادگاروں کی غیر معمولی اہمیت ہے، بلکہ قوموں کے درمیان ثقافتی تصادم کے اس دور کی تیکنیک کے اعتبار سے یہ موضوع حاشیہ پر نہیں رکھا جاسکتا ہے، ثقافتوں کی دنیا میں یہ ایک جوہری اور بنیادی سیاست کا حصہ ہے اور اس کے اثرات دور رس ہیں۔
اس سے پہلے بھی تاریخی آثار کو زندہ کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں؛ لیکن وہ اس کے لیے مناسب وقت نہیں تھا، اس لیے ترکی کو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑی، اس کے برعکس اردوغان نے اپنے ما سبق سیاسی قائدین کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس فیصلہ میں کوئی جلد بازی نہیں کی، پہلے اپنی قوم کو ذہنی وعملی طور پر ایک مناسب مقام پر پہنچایا، اور جب ان کویقین ہوگیا کہ واقعی قوم کی بڑی اکثریت میں اس پہلو سے پختگی آگئی ہے، اور ترکی صرف دعووں کی دنیا میں نہیں واقعتا دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہے، اور بڑی بڑی طاقتوں سے آنکھیں ملا رہا ہے، اس وقت اس نے فتح کی ایک یادگار کو دوبارہ زندہ کیا، اور اپنے اس علامتی عمل سے دنیا کو جو پیغام دینا چاہتا تھا وہ دے دیا کہ ہم قیادت کی صف میں کھڑے ہیں، اب ہم زیادہ دن پچھلی صفوں کے تماشائی نہیں بن سکتے۔
مغربی دنیا کے لیے یہ بات واضح ہوتی جارہی ہے کہ ترکی پر اس نے جو ناروا پابندیاں لگارکھی تھیں، اور جن کو1923ء کے معاہدہ لوزان میں لکھ دیا تھا ایک ایک کر کے ان کے تاروپود بکھر رہے ہیں، ترکی کا مغرب کی ہمسری کرنا بلکہ بعض میدانوں میں اس سے آگے نکل جانا ایک ایسی حقیقت ہے کو آنکھ والوں کے لیے روز روشن کی طرح عیاں ہے، اور اب اس کا انکار ایک امر واقعہ سے چشم پوشی کے مترادف ہے، مغرب کے لیے ترکی کی ترقی پریشان کن ہے، اس کے لیے اس کو ہضم کر پانا اس کی ظالمانہ فطرت کے خلاف ہے، اسی لیے اس نے ترکی میں موجود اپنے وفاداروں کے ذریعہ ٹینکوں اور توپوں کی مدد سے2016ء میں ناکام فوجی بغاوت کا تلخ تجربہ کیا، ترکی نہ صرف ان چالوں کو ناکام بنانے میں کامیاب رہا بلکہ اس نے باصرار اپنا ترقیاتی سفر جاری رکھا اور پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا، اب آیا صوفیا کو دوبارہ مسجد بنا کر دوبارہ کھلے چھپے دشمنوں کو پہچانا جائے گا، اور وہ سرد جنگ تیز تر ہوجائے گی جس کی چکی زمانہ سے چل رہی ہے۔
اب آیا صوفیا پر مغرب کی بے چینی محض اس ایک تاریخی واقعہ کی وجہ سے نہیں، بلکہ اس عمومی پس منظر میں ہے جس میں ترکی اس کی مرضی کے خلاف بڑھتا ہوا نظر آتا ہے،2003ء تک اپنے بجٹ کے لیے عالمی اداروں پر انحصار کرنے والا یہ ملک ایک دہائی میں ہی امداد دینے والا ملک بن کر جی20 اور ترقی یافتہ ممالک کی تنظیم انجمن اقتصادی تعاون وترقی(OECD)کا ممبر بن چکا ہے، رفتہ رفتہ اس کا خود کفیل ہونا، اورڈالر کے مقابلہ اپنے لیرہ کو مضبوط کرنا ایسے اقدامات ہیں جو مغرب کو ایک آنکھ نہیں بھاتے، اس سے پہلے بھی امریکہ کی طرف سے اس پر اقتصادی پابندیوں اور لیرہ کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی، اس سے بھی بڑی حد تک ترکی ابھر آیا،مغربی طاقتیں غصہ میں بھری بیٹھی ہیں،اور ان میں سرگوشیاں جاری ہیں،یونان تو جیسے اپنا توازن کھو بیٹھا ہو، یونانی وزیر اعظم کریاکوس نے ترکی کو ’پریشانی پیدا کرنے والا‘ اور اس تبدیلی کو ’اکیسویں صدی کی تہذیب کا مقابلہ‘قرار دے ڈالا ہے،اس واقعہ کے رد عمل میں پورے یونان کے گرجا گھروں میں سوگ کی گھنٹیاں بجائی گئیں،اور اس کا قومی پرچم سرنگوں کردیا گیا،فضائی حدود،بحیرہئ روم میں اپنے اپنے علاقوں کی حد بندیوں اور نسلی اعتبار سے تقسیم شدہ قبرص کے تنازعات پہلے سے ہی دونوں ممالک میں گرم ہیں، اس سینہ کوبی اور نوحہ گری میں ہمارے بعض روشن خیال اور تاریک ذہن مسلمان بھی شامل ہوگئے ہیں جن کو حرم سراؤں میں ساغر ومینا اور عیش وعشرت میں غرق رہنے والے وہ حکمراں بھا گئے ہیں جو بستر ذلت پر اوندھے منہ بدمست پڑے ہیں۔
ان کوششوں میں مغرب ایک حد تک کامیاب بھی رہا، لیکن جو اصل مقصود تھا کہ خطہ میں مغرب کا اثرورسوخ بڑھ جائے اور عوام حکومت کے خلاف ہوجائیں اس میں کامیابی نہیں ملی،اب اسے فکر ہے کہ نیا کیا کریں، خصوصا اس لیے کہ ترکی یورپین یونین کا اہم ترین تجارتی شراکت دار ہے، اب دوبارہ اس کی منڈیوں کو نقصان پہنچانا گویا خود یورپ کا اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنا ہے،طرفہ یہ کہ یورپ خود ہی شدید مالی بحران سے گزر رہا ہے، اور کورونا نے رہی سہی کسر نکال دی ہے؛اس لیے معاشی سطح پر کچھ بھی غلط رخ اختیار کرنا یورپ کے مفاد میں نہیں، نقصان دونوں کا ہوگا، اس لیے وہ ایسا کرنے سے باز رہے گا۔
جہاں تک عسکری اور جنگی حکمت عملی کا تعلق ہے تو مغرب کا اس جانب کوئی قدم بڑھانا جغرافیائی سیاست(geopolitics)کے اعتبار سے بڑی غلطی ہوگی؛ چونکہ ترکی کا محل وقوع یورپ کو ترکی کے خلاف جانے سے سو بار روکتا ہے، دوسرے یہ کہ1952ء سے یونان کے ساتھ ساتھ ترکی بھی شمالی اوقیانوسی معاہدہ کی تنظیم نیٹو (NATO)کا رکن ہے اور اپنی فوجی قوت کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر ہے، یہ بھی ترکی کے خلاف کسی عسکری کاروائی کے سلسلہ میں یورپ کے ہاتھ باندھنے کے لیے کافی ہے، ان سب کے باوجود مغرب نے ترکی تک پہنچنے والے اسلحہ جات کو روکا، اس کو بہت سی ترقی یافتہ ٹکنالوجی سے محروم کیا، لیکن ترکی بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا نہیں رہتا، اس نے روس سے ایس۔400 دفاعی نظام خریدنے پر معاہدہ کرلیا ہے، اس کے علاوہ بھی وہ مسلسل متبادل کی یافت میں کامیاب ہورہا ہے،، مزید بر آں بہت سی صنعتوں اور عسکری آلات کی تیاری میں ترکی خود کفیل بھی ہوتا جارہا ہے، اس بات نے یورپ کی نیندیں اور حرام کر رکھی ہیں۔
آیا صوفیا کی بازیابی کو دیکھتے ہوئے جذباتی طور پر ایک معصوم سا سوال ذہنوں میں آتا ہے کہ اردوغان کا مقصد کیا صرف اپنے حقوق ومفادات کا دفاع، اور اپنے قومی اور بین الاقوامی کردار کو فعال بنانا اور اسے اس بلندی تک لے جانا ہے جو اس کے وسائل، اس کے محل وقوع اور اس کے تہذیبی ورثہ سے میل کھاتی ہو، یا صدر عالی قدر مسند خلافت پر متمکن ہونا چاہتے ہیں، جہاں تک پہلے مقصد کا تعلق ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ ترکی اپنا اثر ونفوذ بڑھا رہا ہے، فلسطین، شام، عراق، لیبیا، افغانستان،برما،سانولے بر اعظم (افریقہ) اور وسط ایشیا کے مسائل سے اسے راست دلچسپی ہے اور وہ دنیا کے مختلف خطوں میں مظلوموں کے ساتھ کھڑا ہے، خود بر اعظم یورپ میں بھی وہ حسب موقع نرم وگرم انداز سے اپنا اثر ورسوخ بڑھا رہا ہے؛ لیکن یہ کہنا شاید قبل از وقت ہوگا کہ یہ خلافت عثمانیہ کی نشاۃ ثانیہ کی جانب پہلا قدم ہے، اردوغان یا کسی بھی مسلمان کو اس سے زیادہ عزیز کوئی مقصد نہیں ہوسکتا؛ لیکن موجودہ دنیا میں رائج سیاسی، اقتصادی، معاشرتی اور جغرافیائی قوانین کو تبدیل کئے بغیر اور ترکی کی موجودہ قوت کو دیکھتے ہوئے اس خواب کو شرمندہئ تعبیر کرنا نا ممکن تو نہیں دشوار ضرورہے، وما ذلک علی اللہ بعزیز۔
یہ مقدس فریضہ عالمی سطح پر بہت ہی دشوار گزار قربانیوں کے بغیر ادا کر پانا کسی معجزہ کا محتاج ہے،منزل مقصود تک پہنچنا مقدر ہے،تاہم اس سمندر سے گزرنا، اس محیط کو عبور کرنااور اس راہ پرخار کی دشورایوں پر غالب آنا ایک عظیم الشان کام ہے جو امت سے بڑی قربانیوں کا طالب ہے،کیا امت اس وقت ان قربانیوں کے لیے تیار ہے؟ کیا برق وآہن کے اس دور میں ہم مصلحتوں کی گرم چادروں اورگداز بستروں سے کوئی فیصلہ صادر کرسکتے ہیں؟
Comments are closed.