ظلم کے خلاف احتجاج اور اس کے طریقے

 

شمع فروزاں

فقیہ العصرحضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب مدظلہ العالی

صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ

ظلم اور ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرنا صرف ایک قومی اور سماجی ضرورت نہیں ہے؛ بلکہ ایک شرعی فریضہ بھی ہے، اور بحیثیت مسلمان ہماری ذمہ داری ہے کہ اپنی طاقت اور صلاحیت کے مطابق نیز ماحول اور صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے اس عمل کو انجام دیا جائے، قرآن مجید نے کہا ہے کہ تم وہ بہترین اُمت ہو، جس کو انسانیت کی بھلائی کے لئے پیدا کیا گیاہے؛ تاکہ تم اچھی باتوں کا حکم کرو اور بری باتوں سے روکو: کنتم خیر أمۃ اخرجت للناس تأمرون بالمعروف وتنھون عن المنکر (آل عمران: ۱۱) اس میں اس بات کا اشارہ ہے کہ مسلمانوں پر صرف اپنے آپ پر ہونے والے مظالم کے خلاف ہی آواز بلند کرنا کافی نہیں ہے؛ بلکہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ خیر اُمت کی حیثیت سے پوری انسانیت کی مددگار بنے اور سماج کے کسی بھی طبقہ پر ظلم ہو ، وہ اُس کے خلاف آواز بلند کرے؛ کیوں کہ اللہ نے اس کو صرف اپنے ہم مذہب لوگوں کے لئے نہیں؛ بلکہ پوری انسانیت کے لئے پیدا فرمایا ہے۔

ظلم کو روکنے کی کوشش اور ناانصافی کے خلاف جدوجہد کا حکم تو اصولی ہے جو صراحتاََ قرآن وحدیث سے ثابت ہے؛ لیکن اس کے طریقہ کار کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعض بنیادی ہدایتیں بھی دی ہیں؛ چنانچہ آپ نے ارشاد فرمایا:

من رأی منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ، فان لم یستطع فبلسانہ، فان لم یستطع فبقلبہ، وذلک أضعف الایمان(صحیح مسلم، حدیث نمبر: ۱۷۷)

تم میں سے جو شخص کسی برائی کو دیکھے تو چاہئے کہ اسے ہاتھ سے روکے، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے روکے، اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو دل سے برا محسوس کرے اور ارادہ رکھے کہ جب اس کو روکنے پر قادر ہو جائے گا توروکے گا، اور یہ دل سے روکنا ایمان کا کمترین درجہ ہے۔

اس حدیث میںآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ظلم کے خلاف احتجاج اور اس کو روکنے کے تین ذریعے بتائے ہیں، ایک: طاقت کا استعمال، دوسرے: زبان کا استعمال، تیسرے: دل سے کراہت اور ناپسندیدگی، پہلا ذریعہ یعنی طاقت کے استعمال کو حدیث میں ’’ید ‘‘ یعنی ہاتھ سے روکنے سے تعبیر کیا گیا ہے؛ کیوں کہ انسان جسمانی طور پر کسی چیز کو روکنے کے لئے زیادہ تر ہاتھ ہی کا استعمال کرتا ہے؛ مگر اس میں اس بات کا بھی اشارہ ہے کہ جو چیز بھی انسان کو طاقتور بناتی ہو، اس کا استعمال کر کے ظلم کو روکنا چاہئے، زمانہ اور حالات کے لحاظ سے یہ الگ الگ ذرائع ہو سکتے ہیں، جیسے آج کے دور میں ووٹ، رائے دہی، پارلیمنٹ اور اسمبلی میں عددی قوت، میڈیا ایک بڑی طاقت ہے، جس کا ملک کے اہم فیصلوں میں کلیدی کردار ہے؛ اس لئے ان مہارتوں اور صلاحیتوں کا انصاف قائم کرنے اور نا انصافی کو روکنے میں استعمال کرنا بھی اس حکم میں شامل ہے، آج کل دھرنا، احتجاجی ریلیاں، ہیومن چین، قابل برداشت حد تک بھوک ہڑتال، حسب ضرورت جیل بھرو تحریک برائی سے روکنے کے اسی درجہ میں شامل ہے۔

دوسری صورت یہ ہے کہ زبان کے ذریعہ برائی اور ظلم و نا انصافی اور ناحق باتوں کو روکے، اس کی بہت سی صورتیں ہو سکتی ہیں، بیانات اور تقریریں، نعرے، اعلانات، اسی طرح زبان سے بولے جانے والے الفاظ ہی تحریر کے سانچے میں ڈھلتے ہیں؛ اس لئے اس مقصد کے تحت تحریری جدوجہد بھی زبان سے روکنے میں شامل ہے، جیسے: احتجاجی مضامین، ارباب مجاز کو خطوط، ای میل، پوسٹر، اخباری اشتہارات، آن لائن تشہیر، یہ سب زبان سے روکنے کی مختلف شکلیں ہیں، آج کل اس کے لئے جا بجا بینر بھی لگائے جاتے ہیں، ہاتھوں میں تختیاں لے کر عوامی مقامات پر کھڑا ہو جاتا ہے، اسی زمرے میں سرکاری عہدہ داروں اور افسروں کو میمورنڈم دینا اور محضر پیش کرنا بھی شامل ہے۔

عام حالات میں کسی کی برائی کو طشت از بام کرنا اور لوگوں کے سامنے بیان کرنا جائز نہیں ہے، نہ کسی مسلمان کی اور نہ غیر مسلم کی؛ لیکن اگر ظالم کے خلاف آواز بلند کرنی پڑے اور اس کی کمزوریوں کو پیش کرنے کی ضرورت پڑ جائے تو یہ جائز ہے؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اللہ کو یہ پسند نہیں ہے کہ بری بات کو زور سے کہا جائے، ہاں مظلوم کے لئے اس کی اجازت ہے: لا یحب اللہ الجھر بالسوء من القول الا من ظلم (نساء: ۱۴۸) اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حکمراں اگر عوام کے کسی طبقہ کے ساتھ دھوکہ کا معاملہ کریں جھوٹ بولیں، دروغ گوئی کریں یا وعدہ خلافی کریں اور وعدہ خلافی میں ملک کے دستور کی خلاف ورزی بھی شامل ہے، تو ایسی غلطیوں پر آواز اٹھانا، احتجاج کرنا اور اس کی سچائی کو لوگوں کے سامنے پیش کرنا نہ صرف جائز ہے؛ بلکہ ضرورت اور موقع ومحل کے اعتبار سے واجب ہے، اس وقت ہندوستان میں موجودہ حکومت فرقہ پرستی کے جس ایجنڈے پر عمل کر رہی ہے، وہ بدترین قسم کا ظلم ہے؛ اس لئے اس کے خلاف قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے احتجاج کرنا مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔

احتجاج اور ظلم کو روکنے کی تیسری صورت یہ ہے کہ دل سے ناگواری کا اظہار ہو، اور اس کو برا سمجھا جائے، حدیث سے اس کی بعض عملی تدبیریں بھی معلوم ہوتی ہیں، عام حالات کے اندر ایک مسلمان کے لئے دوسرے مسلمان سے بات چیت بند کر لینا جائز نہیں ہے؛ لیکن اگر دونوں کے درمیان رنجش پیدا ہوگئی اور جذبات مشتعل ہوگئے ، جو انسانی فطرت کا حصہ ہے تو اجازت دی گئی ہے کہ زیادہ سے زیادہ تین دن تک بات چیت روکی جا سکتی ہے؛ تاکہ غصہ فرو ہو جائے (مسلم عن عبداللہ بن عمرؓ، حدیث نمبر: ۲۵۶۱) اور بعض مواقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معاملہ کی سنگینی کوسامنے رکھتے ہوئے اس سے زیادہ مدت بھی گفتگو بند کرنے بلکہ بائیکاٹ کرنے کی اجازت دی ہے، جیسا کہ غزوہ تبوک کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت کعب ابن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے دو رفقاء کے ساتھ فرمایا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے پچاس دنوں تک ان کا بائیکاٹ کیا گیا تھا (باب حدیث کعب بن مالک، حدیث نمبر: ۴۴۱۸)

اظہار ناراضگی کے آج کل بعض اور طریقے بھی اختیار کئے جاتے ہیں، جیسے: سیاہ پٹیاں باندھنا، سیاہ جھنڈے لگانا وغیرہ، یہ علامتی عمل ہے، جس سے ناراضگی ظاہر کی جاتی ہے، اس کو مذہبی عمل کی حیثیت سے نہ انجام دیا جاتا ہے اور نہ اس کے پیچھے کوئی مذہبی تصور ہے، اس میں روشنی کو بجھانا یا روشنی کو جلانا بھی شامل ہے، اس کو کفروشرک سے جوڑنا درست نظر نہیں آتا؛ بلکہ جیسے گفتگو بند کر لینا یا بائیکاٹ کرنا زبان وقلم کے بغیر ناراضگی کے اظہار کا ایک طریقہ ہے، یہ بھی ایک طریقہ ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک صاحب آئے، اور اپنے پڑوسی کی شکایت کی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو صبر کی تلقین فرمائی؛ مگر شاید پڑوسی کے رویہ میں تبدیلی نہیں آئی؛ اس لئے وہ دو تین بار خدمت اقدس میں حاضر ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جاؤ اپنے گھر کے سامان راستہ پر ڈال دو، اُن صاحب نے ایسا ہی کیا، اب ہوا یہ کہ لوگ آتے اور اُن صاحب سے اس کے بارے میں دریافت کرتے، وہ اُن کو اپنے پڑوسی کے بارے میں بتاتے، لوگ اس صورت حال کو سن کر اس شخص کو لعنت ملامت کرتے کہ اللہ تم کو ایسا کر دے، ویسا کر دے، پڑوسی صاحب خانہ کے پاس آیااور کہا کہ تم اپنے گھر واپس آجاؤ، اب تم میری طرف سے کوئی ایسی چیز نہیں دیکھوگے جو تمہارے لئے ناگواری کا باعث ہو: ارجع لا تری منی شیئا تکرھہ (سنن ابی داؤد، باب فی حق جوار ، حدیث نمبر: ۵۱۵۳) اس سے جہاں عوام کی تکلیف کا خیال کرتے ہوئے مختصر وقت کے لئے سڑک جام اور پہیا جام کرنے کا جواز معلوم ہوا، وہیں اظہار ناراضگی کے ایسے طریقوں کے استعمال کا درست ہونا بھی معلوم ہوا، جن میں شرعی اعتبار سے کسی ناجائز بات کا ارتکاب نہیں ہو۔

شریعت میں کسی بات کے اظہار کے لئے جو طریقہ متعین کر دیا گیا ہو، اس کے لئے اسی طریقہ پر عمل کرنا ضروری ہے، اس کی جگہ کوئی خود ساختہ طریقہ اختیار کرنا درست نہیں ہوگا، مثلاََ فرض نمازوں کی جماعت کی اطلاع کے لئے شریعت میں اذان کا طریقہ متعین ہے؛ اس لئے ضروری ہے کہ اس ضرورت کو اذان کے کلمات کے ذریعہ ہی پورا کیا جائے، یہاں تک کہ یہ بھی درست نہیں کہ اذان میں اپنی پسند کے الفاظ داخل کرلئے جائیں، اذان کے عربی کلمات کے بجائے دوسری زبانوں میں اس کا ترجمہ کر دیا جائے؛ لیکن کچھ چیزیں ایسی بھی ہیں، جن کے لئے شریعت میں کوئی طریقہ متعین نہیں ہے، ان کو انجام دینے کے لئے کوئی بھی ایسا اشارہ یا اعلان اختیار کیا جا سکتا ہے، جس کو قرآن وحدیث میں منع نہیں کیا گیا، مثلاََ رمضان المبارک میں سحری کا وقت ختم ہونے کا اعلان کیا جاتا ہے، بعض مقامات پر وہاں کی ضرورت کے لحاظ سے سحری کا وقت شروع ہونے پر بھی اعلان کیا جاتا ہے، کبھی اس کے لئے لاؤڈاسپیکر سے اعلان ہوتا ہے، کہیں سائرن بجایا جاتا ہے، کہیں توپ داغی جاتی ہے، ہم لوگوں نے اپنے بچپن میں دیکھا کہ قندیل روشن کی جاتی تھی یا اس کو اوپر چڑھایا جاتا تھا؛ تاکہ لوگ اس کو دور سے دیکھیں؛ کیوں کہ نہ اس وقت لاؤڈ اسپیکر کی سہولت تھی اور نہ ہر شخص کو الارم والی گھڑی میسر تھی اور موبائل کا تو اس وقت تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا؛ کیوں کہ ابھی اس کی پیدائش ہی نہیں ہوئی تھی، ان اشارات کا استعمال کرنا جائز ہوگا، ہاں اگر اس کے لئے مندر کے انداز کی گھنٹیاں بجائی جائیں، یا چرچوں کے انداز پر ناقوس بجایا جائے تو یہ جائز نہیں ہوگا؛ کیوں کہ اس میں کافرانہ شعائر سے تشبہ ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مختلف مواقع پر علامات سے استفادہ فرمایا ہے اور کرنے کا حکم دیا ہے، اہل مکہ اہل مدینہ کو حقیر سمجھتے تھے اور اس زمانے میں مدینہ کی آب وہوا بھی صحت کے لئے ناموافق تھی، لوگوں پر اس کا اثر ہوتا تھا، ہجرت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ کے لئے دعاء فرمائی اور اللہ تعالیٰ نے اس کو نہ صرف دین وایمان کا مرکز بنایا بلکہ خوشگوار ماحول اور خوبصورت موسم کا بھی گہوارہ بنا دیا؛ حالاں کہ اسلام میں اس بات کو پسند نہیں کیا گیا ہے کہ آدمی اپنی چال سے اپنی طاقت اور بہادری کا اظہار کرے اور قرآن نے تو صراحت کی ہے کہ اللہ کی زمن پر اِترا کر نہ چلو: ولا تمش فی الأرض مرحا (بنی اسرائیل: ۳۷) لیکن اس موقع پر اہل مکہ کے سامنے اپنی طاقت اور جواں مرد کے اظہار کی ضرورت تھی، مشرکین مکہ پہلے سے کہہ رہے تھے کہ کل تمہارے سامنے ایک ایسی قوم آرہی ہے، جس کو بخار اور بیماری نے کمزور کر کے رکھ دیا ہے (مسلم، عن ابن عباس، حدیث نمبر: ۱۲۶۶) وہ مسلمانوں کی صورت حال کو دیکھنے کے لئے حجر اسود کے قریب بیٹھ گئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس موقع پر مسلمانوں کو رَمل کرنے کا حکم دیا، یعنی ایسی چال میں طواف کرنے کا جو ایک حد تک پہلوانوں کی چال ہوتی ہے، اہل مکہ پر اس کا بڑا اثر ہوا، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں کہ مشرکین کہنے لگے کہ ہم نے تو سمجھا تھا کہ مسلمانوں کو بخاراور بیماری نے کمزور کر دیا ہے؛ لیکن یہ تو فلاں اور فلاں سے بھی زیادہ صحت مند اور بہادر ہیں،طواف میں جو شروع کے تین چکر رَمل کے ساتھ کئے جاتے ہیں، وہ اسی عمل کی یادگار ہے (سیرت ابن ہشام، ۳؍۲۹۹)

یہ ایک مثال ہے علامات واشارات کے ذریعہ میسیج دینے اور اپنے جذبات کے اظہار کرنے کی، عربوں کا طریقہ یہ تھا کہ وہ چولہوں کی تعداد سے قافلہ کے افراد کی تعداد کا اندازہ کرتے تھے، فتح مکہ کے موقع سے جب صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے مکہ سے باہر پڑاؤ ڈالا تو اگرچہ عام طور پر آپ قافلہ کو ایک جگہ سمٹ کر رہنے کا حکم فرماتے تھے؛ لیکن اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کو ہدایت دی کہ وہ زیادہ سے زیادہ پھیل جائیں، اپنے اپنے الگ الگ چولہے جلائیں اور حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ وہ ابو سفیان کو پہاڑ کی چوٹی پر لے جا کر یہ منظر دکھائیں؛ تاکہ اُس پر مسلمانوں کی قوت وشوکت اور تعداد کی کثرت کا اظہار ہو (سیرت ابن ہشام: ۳؍ ۱۴۷) چنانچہ یہ حکمت عملی مفید ثابت ہوئی ، ابو سفیان جو اُس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے، یہ منظر دیکھ کر مرعوب ہوگئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا منشاء کہ مکہ میں خونریزی کی نوبت نہ آئے اور ارض حرم جنگ کے بغیر فتح ہو جائے کو حاصل کرنے میں اس حکمت عملی سے مدد ملی۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعض مواقع پر علامتی عمل سے فائدہ اٹھا کر مخالفین اسلام کی شدت کو کم کرنے کی کوشش کی، صلح حدیبیہ کے موقع سے ایک مرحلہ ایسا آیا کہ مشرکین ِمکہ اور مسلمانوں کے درمیان گفت وشنید کا دور چل رہا تھا، اہل مکہ کی طرف سے یکے بعدیگرے بعض نمائندے آئے اور انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گفتگو کی، ایک صاحب آرہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رفقاء سے فرمایا کہ یہ شخص احرام کا احترام کرتا ہے؛ اس لئے تم لوگ احرام کے کپڑوں کے ساتھ ان کے سامنے آؤ، اور ان اونٹنیوں کو بھی لاؤ، جن کے گلوں میں علامتی طور پر قلادے ڈالے گئے ہیں؛ چنانچہ جب اُن صاحب نے یہ منظر دیکھا تو کہنے لگے: میں جو منظر دیکھ رہا ہوں، اس کے بعد ان کو عمرے سے روکنے کی کوئی گنجائش نہیں، یہ صاحب حنیف ابن علقمہ کنعانی تھے، مگر ہر گروہ میں کچھ شرپسند حضرات بھی ہوتے ہیں؛ چنانچہ اہل مکہ نے کہا کہ تم بیٹھ جاؤ، تم کو کچھ معلوم نہیں ہے (سیرت ابن ہشام: ۳؍ ۹۹) بہر حال ان شواہد سے معلوم ہوا کہ اپنے مقصد کے اظہار کے لئے علامتی طریقوں سے استفادہ کیا جا سکتا ہے؛ بشرطیکہ وہ قرآن وحدیث کی واضح ہدایات کے خلاف نہ ہو۔

فقہاء کے یہاں بھی ایسی مثالیں مل جاتی ہیں، جن کو عرف کی بناء پر جائز قرار دیا گیا ہے اور ان کی اجازت دی گئی ہے، ہندوستان کے اکابر علماء نے بھی اس پہلو کو قبول کیا ہے ، حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحبؒ نے جھنڈے کو سلامی دینے کے بارے میں لکھا ہے:

’’جھنڈے کو سلامی مسلم لیگ بھی کرتی ہے اور اسلامی حکومتوں میں بھی ہوتی ہے، وہ ایک قومی عمل ہے، اس میں اصلاح ہو سکتی ہے؛ مگر مطلقا اس کو مشرکانہ فعل قرار دینا صحیح نہیں ہے‘‘۔ (کتاب السیاسیات:۹؍۳۷۸)

اسی طرح قومی ترانہ کے احترام میں کھڑا ہونا، قومی جھنڈے کو سلامی دینا، کسی اہم شخصیت کے انتقال پر ایک دو منٹ خاموشی اختیار کرنا مذہبی افعال میں داخل نہیں ہے، اور نہ ان کا مقصد غیر مسلموں کا تشبہ اختیار کرنا ہے؛ بلکہ عرف ورواج کے تحت ان کو علامتی طور پر انجام دیا جاتا ہے، اور احتجاج کی بیشتر صورتیں اسی نوعیت کی ہیں، جن کا مقصد علامتی عمل کے ذریعہ اپنی ناراضگی کا اظہار ہے، اور جمہوری نظام میں عوام کی ناراضگی کے اظہار کی بڑی اہمیت ہے، عوام ہی کی رائے سے حکومتیں قائم ہوتی ہیں، عوامی نمائندوں کی اظہار بے اعتباری سے حکومتیں اقتدار سے محروم ہوتی ہیں؛ اس لئے ظلم کو روکنے کے لئے اور ظالموں کے ہاتھ تھامنے کے لئے اس انداز کے علامتی احتجاج کرنا نہ صرف جائز ہے؛ بلکہ ضرورت کے لحاظ سے مطلوب بھی ہے، واللہ اعلم ۔

 

Comments are closed.