آپ کے شرعی مسائل

فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی
بانی وناظم المعہدالعالی الاسلامی حیدرآباد ۔ جنرل سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا
جنابت کی حالت میں سلام اور ذکر
سوال:- کیا احتلام کی صورت میں قرآن کی آیت لکھا ہوا کا غذ جیب میں رکھنا، سلام کرنا، اللہ اکبر کہنا،قرآن کے بازو سے گزرنا اور کھنڈر جگہ پرجانا درست ہے یا نہیں؟ ( عبدالرقیب، سکندرآباد)
جواب:- جب آدمی کو غسل کی ضرورت ہو ،تو اس حالت میں قرآن مجید پڑھنے ، قرآن مجید کو چھونے اور مسجد میں داخل ہونے کی ممانعت ہے، چونکہ نماز بھی قرآن ہی سے متعلق ہے، اس لئے اس حالت میں نماز بھی ادا نہیں کی جاسکتی، باقی دوسرے اذکار پڑھنے کی قرآن و حدیث میں کہیں ممانعت وارد نہیں ہوئی ہے ، اس لئے اس حالت میں قرآن کی آیات لکھے ہوئے کاغذ کا جیب میں رکھنا ، سلام کرنا ، اللہ اکبر کہنا ، قرآن مجید کو ہاتھ لگائے بغیر قریب سے گزرنا اور مسجد کے علاوہ کسی اور جگہ میں داخل ہونا درست ہے، اس میں مضائقہ نہیں ۔
دستک یا فون کی آواز پر نماز توڑنے کا حکم
سوال:- مکان میں تنہا ہو، کسی نے دروازہ پر دستک دی یا فون کی گھنٹی بجی تو اس حالت میں نماز توڑنا جائز ہے یا نہیں ؟ (سرفراز احمد، سنتوش نگر)
جواب:- اگر کوئی شخص مصیبت میں مبتلا ہو اور اسے فوری مدد کی ضرورت ہو ، جیسے کوئی ڈوب رہا ہو ، یا اس کے گردو پیش آگ لگ گئی ہو اور وہ آواز دے ، تو خواہ فرض نماز ہو یا نفل نماز ، توڑ کر اس کی فریاد کا جواب دینا اور اس کی مدد کرنا واجب ہے ، اگر والدین میں سے کسی نے آواز دی ، اور کسی ضروری کام میں اعانت کا طالب ہوا ، تو اس کے لئے بھی نماز کو توڑنا جائز ہے، اگر والدین نے کسی ضرورت کے بغیر آواز دی ، ان کو معلوم نہیں کہ آپ نماز میں مشغول ہیں ، اور نماز نفل ہو تو نماز توڑ کر جواب دیا جا سکتا ہے ، فرض نماز ہو تو نماز توڑ کر جواب دینا درست نہیں ، یہ تفصیل علامہ طحطاویؒ اور علامہ شامی ؒ وغیرہ نے لکھی ہے (رد المحتار:۲؍۴۲۵) اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص عام حالات میں دستک دے اور نماز میں مصروف ہو ، یا نماز کے دوران فون آئے تو نماز نہیں توڑنی چاہئے ، البتہ اگر دروازہ اتنا قریب ہو کہ ان تک آواز پہونچ سکے ، تو ایسے موقع پر مردوں کو ’’سبحان اللہ ‘‘کہنا چاہئے اور عورتوں کو ایک ہاتھ کی انگلیوں سے دوسرے ہاتھ کے اوپری حصہ پر تھپتھپانا چاہئے ، جس کو حدیث میں ’’ تصفیق ‘‘ کہا گیا ہے ۔(بخاری، حدیث نمبر: ۱۲۰۳)؛ تاکہ دستک دینے والا واقف ہو جائے کہ صاحبِ خانہ نماز کی حالت میں ہے۔
نفل نماز اور سجدۂ سہو
سوال:-اگر نفل نماز میں کوئی سہو ہوجائے ، تو کیا اس صورت میں بھی سجدۂ سہو واجب ہوتا ہے ؟ ( مسخر احمد ، شیام نگر)
جواب:- نفل نماز شروع کرنے کے بعد واجب ہوجاتی ہے ،اور یہ کچھ نماز ہی پر موقوف نہیں، تمام ہی عبادتیں نفل کے طور پر شروع کی جائیں تو شروع کرنے کے بعد ان کو پورا کرنا واجب ہوجاتا ہے ، یہاں تک کہ اگر تکمیل سے پہلے توڑدیں تو قضاء واجب ہوتی ہے؛ اس لئے فرض نماز ہو یا نفل ، سجدۂ سہو جن امور سے واجب ہوتا ہے، ان کے پائے جانے کی صورت میں سجدہ کرنا ہوگا، دونوں کا حکم ایک ہی ہے: وحکم السھو في الفرض والنفل سواء (ہندیہ: ۱؍۱۲۶)
مہر ادا کرتے وقت گواہوں کا ہونا
سوال:- مہر اداکر نا ہو تو کیا گواہوں کا ہونا ضروری ہے؟ کیا تنہائی میں بیوی کو شوہر مہر ادا کرسکتا ہے ؟ ( سید فیصل، ایرا گڈہ)
جواب:- پوشیدہ اور علانیہ ہر دو طریقے سے مہر ادا کرنا درست ہے ، تاہم اگر بیوی کی جانب سے انکار کا اندیشہ ہو تو بہتر ہے کہ دو مرد یا ایک مرد اور دو عورت کی موجودگی میں مہر ادا کرے ، تاکہ انکار کی صورت میں شوہر گواہوں کے ذریعہ اپنے مدعا کو ثابت کرسکے ، صاحب ہدایہ فرماتے ہیں : و ما سوی ذالک من الحقوق یقبل فیہا شہادۃ رجلین أو رجل وامرأتین ، سواء کان الحق مالاً أوغیر مالٍ مثل النکاح والطلاق (ہدایہ: ۳؍۱۳۸)
مقروض سے رقم وصول کرنے کی اجرت لینا
سوال:- زید ایک اسکیم چلاتا ہے ، جس میں کئی ممبر ہوتے ہیں، اس کا طریقہ کار اس طرح ہے کہ ضرورت کے لحاظ سے ممبروں کو قرض دیا جاتا ہے ، جیسے ایک ہزار روپے دے کر روزانہ ان سے دس روپے لیے جاتے ہیں، بارہ سو ہونے کے بعد اس کا حساب ختم ہوجاتا ہے ، مطلب یہ ہے کہ ایک ہزار روپے دے کر بارہ سو روپے وصول کرتے ہیں، جو زائد رقم وصول کی جاتی ہے اسے روزانہ اس ممبر کے پاس جاکر دس روپے وصول کرنے کی محنت کا معاوضہ کہا جاتا ہے، اس طرح یہ اسکیم چلتی رہتی ہے ، یہ طریقہ شرعی اعتبار سے کس حد تک جائز ہے ؟ ( عبدالبصیر، چار مینار)
جواب:- رقمی لین دین میں کمی بیشی ہو ، تو اس سے سود پیدا ہوجاتا ہے ،حضرت انس ص سے روایت ہے : جب تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کو قرض دے اور وہ کوئی تحفہ دے تو اسے قبول نہ کرے ، یہاں تک کہ وہ اپنی سواری پر بیٹھانا چاہے تو نہ بیٹھے ، سوائے اس کے کہ پہلے سے اس قسم کا سلوک و برتاؤ رہا ہو (سنن ابن ماجہ:۱۴۵)اس لیے محض قرض پر نفع حاصل کرنا تو جائز نہیں؛ البتہ اگر زید قرض لینے والے سے یہ گفتگو کرے کہ یا تو تم خود مجھ تک رقم پہنچادو ، یا میں روزانہ آکر رقم لے لیا کروں گا ؛ لیکن ایک سو بار جو دس س روپے لینے کے لیے آؤں گا ، اس کی اجرت دو سو روپے ہوگی ، تو یہ صورت جائز ہے ؛ کیوں کہ یہ قرض پر نفع لینا نہیں ، بلکہ اپنی محنت کی اجرت وصول کرنا ہے ۔
زندہ جانور کے چمڑے کی فروخت
سوال:-{1859}جانور زندہ ہو اور ذبح ہونے سے پہلے ہی اس کے چرم کی قیمت لگادی جائے ، کیا شرعا یہ درست ہو گا ؟ ( عبدالمغنی، آصف آباد)
جواب:- ذبح کرنے اور چرم نکالنے سے پہلے اس کو بیچنا درست نہیں ، کیوں کہ شرعی طریقہ پر ذبح کرنے یا دباغت دینے کے بعد ہی چمڑے کی خرید و فروخت درست ہے ، زندہ جانور کا کوئی حصہ فروخت نہیں کیا جاسکتا ، ہاں اگر جانور کے مالکان وعدہ کریں کہ ذبح کرنے کے بعد اس کا چمڑا آپ کے ہاتھ اتنے روپے میں فروخت کردوں گا ، پھر ذبح کے بعد چمڑے اور قیمت کا تبادلہ ہوجائے ، تو یہ صورت جائز ہے ، البتہ ذبح ہونے سے پہلے جو گفتگو ہوئی ، اس کی حیثیت خرید و فروخت کی نہیں ، بلکہ خرید و فروخت کے وعدہ کی ہے ، اس لئے فریقین قانونااپنے اس ارادہ میں یک طرفہ طور پر تبدیلی لا سکتے ہیں، اور اس کی قیمت میں باہمی رضامندی سے کمی بیشی بھی ہو سکتی ہے ، لیکن دیانۃً وعدہ کو پورا کرنا واجب ہے ، لہذا اگر خریدار بعد میں لینے سے انکار کردے ، تو گنہگار ہوگا ۔
مطلقہ بیوی کے لئے ایصال ِثواب اور قبر کی زیارت
سوال:- میرے دوست نے اپنی بیوی کو ایسی حالت میں طلاق دی ، جب کہ ہوش و حواس میں نہیں تھی ، چند دنوں بعد بیوی کا انتقال ہو گیا ، میرے دوست چاہتے ہیں کہ ان کی مزار کی زیارت کریں ، کیا وہ ایسا کر سکتے ہیں ؟( سہیل احمد، چرلا پلی)
جواب:-کسی شدید شرعی عذر کے بغیر طلاق دینا سخت گناہ ہے ، اور وہ بھی ایسی حالت میں جب کہ بیوی ہوش و حواس میں بھی نہ ہو ، یہ نہایت ہی ناشائستہ حرکت اور گناہ ہے ، اس لئے اوّلاً تو آپ کے دوست کو استغفار کرنا چاہئے ، جہاں تک مرحومہ کی قبر کی زیارت اور ان کے لئے ایصالِ ثواب کی بات ہے تو یہ کر سکتے ہیں ، کیوں کہ ایصالِ ثواب تو کسی بھی مسلمان کے لئے کیا جاسکتا ہے ، اور قبر کی زیارت کسی بھی مسلمان کے لیے جائز ہے ، (مسلم، حدیث نمبر: ۲۲۶)طلاق کی وجہ سے رشتۂ نکاح تو ختم ہو تا ہے ، لیکن ظاہر ہے کہ اسلامی اخوّت کا رشتہ ختم نہیں ہوتا ۔
نابالغ کی قسم
سوال:- میرا ایک چودہ سالہ بیٹا ہے اس نے گھر کے بزرگوں کے سامنے ایک معاملہ میں قسم کھا لیا کہ فلاں کام نہیں کروں گا ، ہم لوگ قسم کھالینے کی وجہ سے یہ کوشش کرتے ہیں کہ وہ قسم ٹوٹ نہ جائے ، مگر اس کی وجہ سے خود اس لڑکے کو نقصان پہنچ سکتا ہے ، اس مسئلہ کا صحیح حل کیا ہے ؟ کیا قسم توڑی جاسکتی ہے ؟ اور اگر توڑی جائے تو کیا صدقہ کرنا ہوگا ؟ (محمد تنویر، ہمایوں نگر )
جواب:- قسم کے معتبر ہونے کے لیے ایک شرط یہ بھی ہے کہ قسم کھانے والا بالغ ہو ، نابالغ بچوں کی قسم کا شریعت نے اعتبار نہیں کیا ہے ، چنانچہ اگر وہ قسم کھالیں اور پھر قسم توڑدیں تو ان پر قسم کا کفارہ بھی لازم نہیں :و منھا أن یکون عاقلا بالغا فلا یصح یمینالمجنون و الصبي وإن کان عاقلا (بدائع الصنائع: ۳؍۲۰)اس لیے اگر بلوغ کی علامت پیدا نہ ہوئی ہوں ، توآپ کا لڑکا قسم توڑ سکتا ہے ، اور اس پر کفارہ نہیں ۔
(بصیرت فیچرس)
۰ ۰ ۰
Comments are closed.