کیا آزادی کا جشن بھی اس بار کرونا کی بھینٹ چڑھ کر مایوسی کا پیغام دے جائےگا؟

 محمد سیف اللہ

عام طور پر اگست کامہینہ آتے ہی پورا ملک جشن آزادی کے ایسے خمار میں ڈوب جاتا ہے جس کے ہر حصے سے حب الوطنی کی خوشبو اٹھتی محسوس ہوتی ہے،کشمیر سے لے کر کنیا کماری تک ہر چہار جانب قومی ترانوں کی گونج کے ساتھ جشن آزادی کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں،سرکاری،نیم سرکاری اور پرائویٹ اداروں سمیت ملک کا چپہ چپہ یوم آزادی کی خوشیوں میں حصہ دار بننے کے لئے بے تاب دکھائی پڑنے لگتا ہے،اسکولوں میں ثقافتی پروگراموں کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں،فوجی دستے اپنے کرتب دکھانے کو بے چین رہتے ہیں،ملک کی تمام سرحدیں ترنگے کی خوبصورتی کی گواہ بنتی ہیں،لال قلعہ کی فصیل سے وزیر اعظم کا پیغام بھی عوام کو اپنی طرف مائل کئے رہتا ہے اور ملک کی کڑوروں آبادی اس تاریخی دن کو خوشگوار بنانے میں مصروف دکھائی دیتی ہے جس دن یہ ملک انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوکر خود اعتمادی کے ساتھ اپنی نئی منزل کی تلاش کے لئے رخت سفر باندھا تھا،یوم آزادی کے جشن کو لے کر بچہ بوڑھا جوان مرد عورت سب یکساں کیفیت میں ڈوبا ہوتا ہے،غرض یہ کہ اس مہینے کے شروعاتی ایام ملک کے اندر خوشی ومسرت اور جشن وجنون کے وہ پیغام لے کر آتے ہیں جن کو کسی بھی طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور ایسا کیوں نہ ہو جب کہ اس مہینہ کی پندرہ تاریخ پورے ملک کے لئے ایک ایسے قومی تہوار کی طرح ہوتی ہے جب پورا ملک مذہب اور ذات برادری کی تفریق کو بھلادینے کے ساتھ ترنگے کی خوبصورتی میں ڈوب کر اپنے ان پرکھوں کو یاد کرنا فخر تصور کرتا ہے جن کی قربانیوں کے صدقے اس ملک میں آزادی کی صبح طلوع ہوئی تھی اور جنہوں نے اگر چہ انگریزوں کے مظالم کو ہنس ہنس کر برداشت کیا تھا مگر اس وقت تک اپنی جد وجہد جاری رکھی تھی جب تک ہندوستان کی پیشانی پر آزادی کا سورج طلوع نہ ہو گیا، لیکن ان سب کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ برسوں بعد آزادی کا جشن کرونا کی بھینٹ چڑھ کر ہر ایک ہندوستانی کی مایوسی کا سبب بن جائے گا،کیونکہ کرونا کے سبب جہاں پچھلے پانچ مہینے سے پورا ملک غیر یقینی حالات کی زد میں ہے وہیں تمام تر سرکاری اور پرائویٹ اداروں میں سناٹا چھایا ہوا ہے نہ پہلے کہ طرح کہیں جشن آزادی کو لے کر چہل پہل دیکھی جارہی ہے اور نہ ہی اس حوالے سے سرکاری سطح پر ایسی کوئی گائڈ لائن آئی ہے جس کو سامنے رکھ کر اس سمت میں پیش قدمی کی جاسکے،حالانکہ جب جب یوم آزادی کا جشن قریب آتا ہے ہم اپنی تاریخ کے تئیں قابل ذکر حد تک حساس ہو جاتے ہیں اور یہی وہ خاص موقع ہوتا ہے جب ہم اپنی نسلوں کو آزادی کی تاریخ اور اس سے جڑے واقعات کی یاد دلاکر ان کے اندر حب الوطنی کے دیپ کو روشن کرنے کی عملی جد وجہد کرتے ہیں خیر! موجودہ حالات میں آزادی کا جشن کس طور پر منایا جائے گا اور قوم کے نونہال اس میں کس حیثیت سے شامل ہو سکیں گے اس کے بارے میں ابھی تو کچھ نہیں کہا جا سکتا مگر اتنا ضرور ہے کہ ابھی تک تعلیمی اداروں میں جس طرح کی خاموشی چھائی ہوئی ہے اس کو دیکھتے ہوئے ہر طرف مایوسی اور افسردگی کا ماحول ہے اور ایسا لگتا ہے کہ آزادی کا جشن منانے کی ساری تمنائیں دل میں ہی دفن ہو جائیں گی یہی وجہ ہے کہ جب اس نمائندہ نے اس حوالے سے ہند نیپال کی سرحد پر واقع رکسول اور اس سے متصل علاقوں کے دانشوران سے بات کی تو ان کے جواب سے بھی مجھے مایوسی کی کیفیت نظر آئی لوگوں نے کہا کہ شاید یہ پہلا موقع ہے جب ہمارے بچے اپنے انداز میں آزادی کا جشن منانے سے محروم ہو جائیں گے اور تعلیمی اداروں میں وہ گہماگہمی دکھائی نہیں دے گی جو اب تک کی روایت رہی ہے،اگر ایسا ہوا تو ہماری موجودہ نسل میں احساس کمتری کی ایسی کیفیت جنم لے گی جسے ہم چاہ کر بھی نہیں نکال پائیں گے،انہوں نے کہا کہ آزادی ہمیں بڑی قربانیوں کے بعد ملی تھی اور اس کے لئے نہ صرف ہم نے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا بلکہ طویل قربانیاں دی تھیں اس لئے ہمیں اس دن کو اتنی آسانی نے گزرنے نہیں دینا چاہئے ۔

Comments are closed.