مسلم پرسنل لا بورڈ کا پس منظر اور حضرت امیر شریعت رابع مولانا سید شاہ منت اللہ صاحب رحمانی کی تاریخی جد وجہد

?️عین الحق امینی قاسمی ، رحمانی نگر ،کھاتوپوریگوسرائے
مسلم پرسنل لا بورڈ کی پہلی آفیشیل میٹنگ دیوبند میں ضرور ہوئی؛ مگر اس سے پہلےتمہید ی میٹنگ مونگیر اور پٹنہ میں ہوئی ،جس کے بعد تحفظ مسلم پرسنل لا کے عنوان سے باضابطہ 28/جولائی1963ء کو انجمن اسلامیہ ہال پٹنہ میں اجلاس ہوا،جس کی صدارت مفتی عتیق الرحمان صاحب عثمانی جمعیۃ علماء ہند نے فرمائی تھی ،مفتی صاحب نے اپنے صدارتی بیان میں جہاں اور بہت سے پہلوؤں پر روشنی ڈالی تھی ،وہیں تحفظ مسلم پرسنل لا کی اہمیت وضرورت پر تفصیلی بیان کے ساتھ امیر شریعت رابع کی اس سلسلے میں بے چینی ،فکر ی جد وجہد ، حکمت وتدبیر اور مختلف جہتوں سے مسلم پرسنل لا کے تحفظ کےلئے ان کی غیر معمولی مساعی جمیلہ کا بھی اس اجلاس عام میں برملا اظہار فرمایا تھا ۔
تحریک تحفظ مسلم پرسنل لا کے سلسلے میں حضرت امیر شریعت رابع کی طرف سے کوششیں تب مزید تیز تر ہوگئیں اور بالکل آپ اس کے لئے کمر بارہ ہوگئے ،جب 1972ء کے راجیہ سبھا میں وزیر قانون نے متبنی بل پیش کردیا ،جس میں ہندو قانون تبنیت 1965ء کی جگہ یکساں شہری قانون کے طور پر یہ بل ملک کے تمام شہریوں پر نافذ کرنے اور اسے یکساں سول کوڈ کی طرف مضبوط قدم بتایا ۔وزیر کے اس بیان سے امیر شریعت بہت بے چین ہوگئے اور خانقاہ سے نکل کررسم شبیری کی ادائے گی کے لئے انہوں نےحضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب سے عاجزانہ درخواست کی کہ ملک کے حالات پر حضور والا کی گہری نگاہ ہوگی ،ملک جس کھائی کی طرف جارہا ہے وہ آن محترم سے پوشیدہ نہیں ،ایسے میں تحفظ شریعت اور تحفظ مسلم پرسنل لا کے لئے تمام مسالک کے رہنماؤں سے مل کرا جتماعی کوشش ناگزیر ہے ،مگر اس عظیم کام کی اگوائی وقیادت کے لئے میری نگاہ آپ کی طرف جاتی ہے چوں کہ آپ ایک ایسے ادارے کی کمان سنبھال رہے ہیں جس کی مستقل تاریخ بھی ہے اور جسے ملک کے کروڑوں مسلمانوں کی طرف سے اعتماد ومرکزیت بھی بجا طور پر حاصل ہے ،اس سلسلے میں امیر شریعت کی جانب سے متعدد خطوط حضرت قاری صاحب کی خدمت میں ارسال کئے گئے جو مکاتیب رحمانی میں مذکور ہیں ۔
حضرت قاری صاحب نے ان خطوط کے جواب میں حضرت امیر شریعت سے اعتماد بھرے لہجے میں جواب دیا کہ آپ جو کرنا چاہیں کریں ،میں دراصل تنظیمی آدمی نہیں ہوں ،مگر آپ کے خیالات اور منصوبوں کے ساتھ ہوں، گویا دارالعلوم دیوبند نے جب قیادت کی منظوری دیدی تب حضرت قاری صاحب کو انہوں نے آمادہ کیا کہ پہلے اس مرکز میں ایک مشاورتی نشست رکھی جائے ،چنانچہ دارالعلوم دیوبند کی لائبریری میں اس کی پہلی نشست مارچ/1972ء میں منعقد ہوئی ۔جس کی صدارت مہتمم دارالعلوم دیوبند نے فرمائی ۔اسی دیوبند اجلاس میں یہ بھی طئے پایا کہ تمام مکاتب فکر ،اداروں اور مسلم جماعتوں کا نمائندہ کنونشن ممبئی میں منعقد کیا جائے ۔پھر کیا تھا امیر شریعت کو لگا جیسے سہارامل گیا ہو،جو کام کل ہو وہ آج ہوجائے کہ جذبے سے سر شار مخدوم گرامی قدر حضرت امیر شریعت تمام مکاتب فکر کے علماء ،رہنما اور مسلم دانشوروں سے مسلسل رابطے میں جڑ گئے ،چنانچہ 27/دسمبر 1972ءمیں ممبئی کا یہ اجلاس شایان شان طریقے پرمنعقد ہوا جس میں امیر شریعت کی پیہم محنت وجد وجہد اور وخلوص وللہیت کے نتیجے میں مسلک و مشرب سے اوپر اٹھ کر تمام مکاتب فکر کے لاکھوں افراد نے تاریخی شرکت کی اور سبھوں نے قانون شریعت کی حفاظت کے لئے ہرقسم کی قربانی پیش کرنے کے لئے اپنے ایمانی جذبے کا اس طرح اظہار کیا :
جان مانگو تو جان دیدوں ،مال مانگو تو مال دیدوں
مگر یہ ہم سے نہ ہوسکے گا کہ نبی کا جاہ جلال دیدوں۔
اور پورےمجمع نے بز بان حال وقال صاحب اقتدارسے صاف صاف کہہ دیا کہ :
مبارک ہو تجھ کو حکمرانی ،مخالفت بھی ہم نہ کریں گے
شریعت پہ ہاتھ ڈالا تو تم رہو گے نہ ہم رہیں گے ۔
امیر شریعت کی دیکھ ریکھ اور مسلسل تگ ودو سےممبئی کنونشن کے کامیاب انعقاد اور عظیم اتحاد کے نتیجے میں مسلم پرسنل لا بورڈ کا قیام عمل میں آیا اور پھر 7/8/اپریل1973ء میں جب حیدرآباد کا اجلاس ہوا تو اس میں وہ جامع دستور منظور ہوا جسے حضرت قاری صاحب وغیرہ کے مشورےسے دراصل امیر شریعت رابع نے بڑی جانفشانی کے ساتھ ملی و قانونی اورسماجی وشرعی بنیادوں پر مرتب فرمایا تھا ۔اسی اجلاس میں متفقہ طور پر حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ کو صدر اور مسلم پرسنل لا کے تحفظ کے سلسلے میں اولین خادم دین متین، مسلکوں کے اتحاد کے علم بردار، امیر شریعت رابع ، مجاہد آزادی حضرت مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو باضابطہ جنرل سکریٹری نامزد کیا گیا ۔
اس طرح دم آخر تک امیر شریعت،تحفظ مسلم پرسنل لا کے لئے بھی اور مسلم پرسنل لا بورڈ کے استحکام کے لئے بھی جرئت ،عزیمت ،دعوت اور ایمانی واخلاقی قوت کے ساتھ ہر محاذ پر نہ صرف کھڑے رہے، بلکہ سماج اور حکومت کی طرف سے آنے والے ہر چیلنج کو قبول کر اس کا تشفی بخش جواب بھی دیتے رہے ۔
برد اللہ مضجعہ واکرام مثواہ وجعل الجنۃ مستقرہ
…………………………………………..
Comments are closed.