Baseerat Online News Portal

اللہ کی مدد کیوں نہیں آتی؟

نثاراحمد حصیر القاسمی
شیخ الحدیث معہد البنات بورہ بنڈہ و جامعۃ النور یوسف گوڑہ
سکریٹری جنرل اکیڈمی آف ریسرچ اینڈ اسلامک اسٹیڈیز ۔ حیدرآباد۔
[email protected]
0091-9393128156
آج ہندوستان ہی نہیں بلکہ ساری دنیا میں مسلمان جہاں کہیں بھی آباد ہیں ظلم وستم کا شکار ہیں، ان پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا اور ان کی شناخت مٹانے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے ، اس وطن عزیز کے مسلمان بڑے پر آشوب دور سے گذر رہے ہیں۔ کوئی دن ان پر ایسا نہیں گذرتا جس میں وہ کسی نئی آزمائش سے دو چار نہ ہوتے ہوں۔ شمال سے جنوب اور مشرق سے مغرب تک ملک کے طول وعرض میں مسلمانوں کی نسل کشی کی جارہی ، انہیں بہانے بہانے سے قتل کیا جارہا اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کا مستقبل تاریک بنایا جارہا ہے، یہاں تک کہ ان کی شہریت بھی دائو پر لگا دی گئی ہے۔ آج ہر جگہ مسلمان خوف کے سائے میں جی رہے ہیں۔ کھلے عام ان کی عبادت گاہوں اور مساجد کو منہدم کیا جارہا اور اس کی جگہ بت خانے تعمیر کئے جارہے اور مسلمانوں کو ذہنی کرب میں مبتلا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
بابری مسجد کا قضیہ ہماری نگاہوں کے سامنے ہے، پانچ اگست کو رام مندر کا سنگ بنیاد اور قومی وحکومتی سطح پر اس کی تقریب کا انعقاد عمل میں آیا اور اس کے ذریعہ مسلمانوں کو ایک کھلا پیغام دیا گیاہے جس کے لئے ہمیں تیار رہنا چاہیے۔ ان حالات سے مسلمانوں کا دلبرداشتہ ہونا اور اس کے ذریعہ دل پارہ پارہ ہونا فطری بات ہے۔ وہ کچھ کرنے اور اپنی مساجد کی حفاظت سے قاصر رہے۔ انہوں نے اپنی آنکھیں نم کرلیں، وہ اللہ سے دعا کرنے اور انتقام کی التجا کرنے لگے ، انہوں نے اللہ سے یہ خواہش کی کہ اللہ ان دشمنان اسلام کے اوپر ابابیل کو مسلط کردے، اور ان کا حشر ابرہہ کے لشکر والا کردے، یا اپنی قدرت کاملہ سے ان پر آسمان سے پتھر برسا دے، یا زمین میں انہیں دھنسا دے ، یہ ان دعا کرنے والوں کے صدق ایمان کی علامت اور جذبہ ایمانی کا مظہر ہے۔
سختی کی گھڑی اور مصائب ومشکلات اور بحران میں گھرے اور پریشان کن حالات سے دو چار ہونے کے بعد اللہ سے مدد مانگنا بھی عبادت اور مومن صادق کی پہچان ہے۔ اس طرح دعا کرنا انبیاء کرام کا شیوہ اور ان کے اصحاب کا وطیرہ رہا ہے۔ خود اللہ کے نبی صلعم نے ان حالات میں اللہ سے بڑے الحاح وزاری سے مدد طلب کی اور آپ کے صحابہ کرام کا بھی یہی عمل رہا ہے ، اور ہمیں بھی حکم ہے کہ ہم اللہ ہی پر بھروسہ کریں اور اسی سے مدد طلب کریں، یعنی باطل جب سر چڑھ کر بولنے لگے ، کفر وشرک ہر خشکی وتری میں دندنانے لگے، دشمنان اسلام کا تسلط وغلبہ ملک وقوم پر ہوجائے اور وہ ہر طرح کا ظلم وستم روا رکھنے لگیں، انصاف حکمرانوں کی مرضی کے تابع ہوجائے اور اس کی خرید وفروخت شروع ہوجائے، قوم ظالم حکمرانوں کے خوف سے اپنی زبان بند رکھنے پر مجبور ہوجائے، امت مسلمہ کمزوری وبے بسی کا شکار ہوجائے، ان کی روشنی ماند پڑ جائے ، ان کے سورج میں گہن لگ جائے اور کفر وشرک کے علمبرداروں اور ظالم وجابر حکمرانوں کا ستارہ دمکتا دکھائی دینے لگے، اور مسلمانوں کو اپنا مستقبل تاریک نظر آنے لگے تو ہر صاحب ایمان کی زبان سے یہ صدا بلند ہونے لگتی ہے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟ ظلم کی انتہا ہوچکی اور مزید سہنے کی طاقت نہیں رہی ہے، پھر اللہ کب ہماری دستگیری کرے گا، اس شب تاریک کا خاتمہ کب ہوگا، اور کب ہماری صبح طلوع ہوگی، کب وہ وقت آئے گا کہ ہم ملک میں اسلام کا پرچم بلند اور توحید کا جھنڈا پھہرائیں گے، کب حق کی روشنی پھیلے گی اور ملک ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کو منور کرے گی۔
ہر صاحب ایمان کی یہی آرزو تمنا اور دعا ہوتی ہے مگر اس کے ساتھ ہی ہمیں اس پر بھی غور کرنا چاہیے کہ اللہ کی مدد اس طرح اور اس حال میں نہیں آتی جس طرح ہم چاہتے اور جس حال میں ہم ہیں، بلکہ یہ اسی وقت ممکن ہے جبکہ ہم کتاب اللہ کو اپنے لئے مشعل راہ بنائیں، اسے مضبوطی سے تھامیں، اور اپنے ہر معاملہ میں اس کی طرف رجوع ہوں اور اس سے رہنمائی حاصل کریں، اللہ نے اس کائنات کا ایک نظام بنایا ہے اور یہی نظام جاری وساری ہے، اللہ ہر چیز پر قادر ہے، وہ آگ کو سرد کرسکتا اور اس کی تاثیر کو سلب کرسکتا ہے، وہ پانی کی رقت وسیلان کو ختم کرکے اسے حائل دیوار کی طرح کھڑا کرسکتا ہے ، وہ مرد وزن کے اختلاط کے بغیر اولاد عطا کرسکتا ہے، مگر اللہ نے جو نظام بنایا ہے اس کے تحت ہی اللہ کسی قوم کی مدد کرتا اور اس کی تاریکی کو روشنی میں تبدیل کرتا ہے۔ اسی طرح کے کربناک حالات میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
کیا تم یہ گمان کئے بیٹھے ہو کہ جنت میں چلے جائو گے، حالانکہ اب تک تم پر وہ حالات نہیں آئے جو تم سے پہلے کے لوگوں پر آئے تھے ، انہیں بیماریاں اور مصیبتیں پہنچیں، اور وہ یہاں تک جھنجھوڑیں گئے کہ رسول اللہ اور اس کے ساتھ کے ایمان والے کہنے لگے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟ سن رکھو کہ اللہ کی مدد قریب ہی ہے۔ (البقرۃ:214)
صحیح بخاری کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلعم نے ارشاد فرمایا:
تم سے پہلے کے لوگوں کو ان کے سر سے لے کر پیروں تک آرے سے چیرا گیا اور لوہے کی کنگھی سے ان کے گوشت پوست کو نوچا گیا، لیکن یہ ظلم وتشدد ان کو ان کے دین سے نہیں پھیر سکا۔ پھر فرمایا اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ اس معاملے کو مکمل فرمائے گا یعنی اسلام کو غالب کرکے رہے گا۔ یہاں تک کہ ایک سوار صنعاء سے حضرموت تک تنہا سفر کرے گا اور اسے اللہ کے سوا کسی کا ڈر نہ ہوگا۔ (صحیح بخاری کتاب الاکراہ، باب من اختار الضرب والقتل )
سورہ بقرہ والی اوپر کی آیت غزوہ خندق (احزاب) کے موقع پر نازل ہوئی ،جبکہ مسلمانوں کو جسمانی ونفسیاتی شدید دبائو کا سامنا اور مصائب ومشکلات سے نبرد آزما ہونا پڑ رہا تھا، معاشی تنگی کا یہ عالم تھا کہ کئی کئی دن گذر جاتے اور صحابہ کو کھانے کے لئے ایک دانہ میسر نہ ہوتا، خود رسول اللہ صلعم پیٹ پر پتھر باندھے خندق کھودنے میں صحابہ کا ہاتھ بٹا رہے تھے، فاقہ کشی اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی، سردی اپنے عروج پر تھی، حالات نہایت نا گفتہ بہ اور ناقابل برداشت تھے اور اس پر مستزاد یہ کہ ساری عرب قوم اور سارے کفر وشرک کی طاقتیں باہم متحد ہو کر اسلام کی بیخ کنی کے لئے مدینہ پر چڑھ آئی تھیں، ان کا دس ہزار کا لشکر جرار اوسان خطا کردینے والے تھے، وہ مسلمانوں کا وجود حرف غلط کی طرح مٹا دینے کا عزم رکھتے تھے کہ بعد میں کوئی اس کا نام تک لینے والا نہ رہے، خود اللہ تعالیٰ نے اس کی منظر کشی یوں کی ہے:
اور جب آنکھیں پتھرا گئیں اور کلیجے منہ کو آگئے اور تم اللہ کی نسبت طرح طرح کے گمان کرنے لگے ، یہیں مومن آزمائے گئے اور پوری طرح جھنجھوڑ دیئے گئے۔ (الاحزاب:11-10)
اس مشکل گھڑی میں جبکہ سارے قبائل عرب اور سارے یہود اسلام کے چراغ کو گل کرنے اور مدینے کی اینٹ سے اینٹ بجانے پر تلے تھے، مسلمان ہولناک صورتحال سے دو چار تھے، اور خوف ودہشت سے کلیجے منہ کو آرہے تھے، ان کا اعتماد وبھروسہ اللہ پر قائم رہا، وہ اپنے دین وایمان پر ثابت قدم رہے، ان کے حوصلے پست نہیں ہوئے ، بلکہ جوان رہے اور اللہ کے حکم کو بجا لانے میں ذرہ برابر پس وپیش نہیں کیا، بلکہ اللہ اور اللہ کے رسول نے جو کہا اسے مانتے رہے اور دشمنوں کے لشکر جرار کو خاطر میں لائے بغیر ان کے مقابلے پر ڈٹے رہے، تو اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ اللہ نے انہیں فتح وکامرانی سے سرفراز کیا، کفر شکست وریخت سے دوچار ہوا، ہزیمت وشکست خوردگی کا دامن دراز کئے وہ بھاگتے نظر آئے، ذلت ورسوائی ان کا مقدر بنی اور انہیں ایسی ذلت اٹھانی پڑی کہ وہ منہ دکھانے کے قابل نہ رہے، ان کی شوکت ہمیشہ کے لئے جاتی رہی اور اس کے بعد انہوں نے چڑھائی کرنے کی کبھی ہمت نہیں کی۔
اس واقعہ میں امت مسلمہ کے لئے بہت بڑا سبق اور واضح پیغام ہے کہ اللہ کی مدد کا ذریعہ کیا ہے، اور کس راستے سے مسلمان اللہ کی نصرت ومدد سے مستفید ہوسکتا ہے۔
اس کائنات رنگ وبو اور اس بساط ارضی پر اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت بالغہ سے یہ نظام بنا دیاہے کہ یہاں حق وباطل کی کشمکش ہمیشہ جاری رہے گی، ان دونوں کا ٹکرائو ہوتا رہے گا، اور یہ نظام آدم علیہ السلام سے لے کر آج تک جاری ہے اور قیامت تک ایسا ہوتا رہے گا، مگر انجام کار حق کو غلبہ حاصل ہوگا۔ اور جو اللہ سے ڈرنے والے اور اس کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے والے ہوںگے، اور اس کے حکم کو اپنی عملی زندگی میں نافذ کرنے والے ہوںگے، اللہ اسی کو زمین کا وارث بنائے گا۔
باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:
کتب اللہ لاغلبن انا ورسلی ان اللہ قوی عزیز (المجادلۃ: 21)
اللہ تعالیٰ لکھ چکا ہے کہ بیشک میں اور میرے رسول غالب رہیںگے۔ یقینا اللہ تعالیٰ زور آور اور غالب ہے۔
دوسری جگہ ارشاد ہے:
اور البتہ ہمارا وعدہ پہلے ہی اپنے رسولوں کے لئے صادر ہوچکا ہے ، کہ یقینا وہی مدد کئے جائیںگے اور ہمارا ہی لشکر غالب وبرتر رہے گا۔ (الصافات:173-171)
حضرت تمیم داری سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلعم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا :
ہمارا یہ اسلام وہاں تک ضرور بالضرور پہنچے گاجہاں جہاں رات دن پہنچتا ہے، اور اللہ تعالیٰ کسی شہر اور کسی دیہات کے گھر کو نہیں چھوڑے گا مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنے اس دین کو گھر گھر پہنچا دے گا۔ خواہ عزت کیساتھ ہو یا ذلت کے ساتھ، اللہ تعالیٰ اسلام سے انہیں عزت عطا فرمائیںگے اور کفر کو ذلیل ورسوا کریںگے۔ (مسند احمد ، وسنن کبری للبیہقی)
اللہ تعالیٰ کا اپنے مومن بندوں سے وعدہ ہے کہ وہ ان کی ضرور مدد فرمائیںگے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
انا لننصر رسلنا والذین آمنوا فی الحیاۃ الدنیا ویوم یقوم الاشھاد (غافر:51)
یقینا ہم اپنے رسولوں کی اور ایمان والوں کی مدد اس دنیوی زندگی میں بھی کریںگے اور اس دن بھی جب گواہی دینے والے کھڑے ہوںگے۔ (یعنی قیامت کے دن)
اللہ نے حضرت یحییٰ وزکریا علیہما السلام کے قاتلین پر ان کے دشمنوں کو مسلط کیا جنہوں نے جی بھر کر ان کا قتل عام کیا اور اس قدر انہیں ذلیل ورسوا کیا کہ اس کی مثال نہیں ملتی، اللہ تعالیٰ نے نمرود کا حشر ایسا کیا کہ وہ رہتی دنیا کے لئے نشان عبرت بنا، تو اللہ تعالیٰ اپنے ماننے والوں اور ان کے بتائے ہوئے راستہ پر چلنے والوں کی ضرور مدد کرتاہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلعم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
من عادی لی ولیا فقد آذنتہ بالحرب (بخاری)
جس نے میرے ولی اور میرے چہیتے سے دشمنی کی تو اس کے لئے اعلان جنگ ہے۔
سورہ بروج کے اندر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
بے شک جن لوگوں نے مسلمان مردوں اور عورتوں کو ستایا پھر توبہ بھی نہ کی (اسلام میں داخل نہ ہوئے) تو ان کے لئے جہنم کا عذاب اور جلنے والا عذاب ہے۔ (البروج:10)
اس آیت کے اندر اللہ نے یہ تو بتایا ہے کہ مسلمانوں کو ستانے اور ان پر ظلم کرنے والوں کے لئے جہنم کا عذاب ہے مگر یہ ذکر نہیں کیا گیا کہ مسلمانوں کے قاتلین کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے اللہ تعالیٰ نے آسمان سے فرشتوں کو بھیجا ۔ یا اللہ نے انہیں زمین میں دھنسا دیا، یا ان پر آسمان سے ابابیل کی طرح پتھر برسائے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ کی مدد کا ظاہری طور پر آنا ہی ضروری نہیں بلکہ یہ بھی مدد ہے کہ اللہ ایمان والوں کو ابتلا وآزمائش اور مصائب ومشکلات میں بھی ثابت قدم رکھے، ان کے دین وایمان کی حفاظت کرے، اللہ بلا شبہ ایمان والوں کی ظاہری مدد بھی کرتا ہے اور یہ بھی اللہ کا وعدہ ہے ، مگر یہ ضروری نہیں کہ اللہ کی مدد فوری آجائے بلکہ کبھی اللہ تعالیٰ کسی خاص حکمت ومصلحت سے اپنی مدد کو موخر کرتا رہتا ہے جس کا ادراک عام مسلمان تو نہیں کرتا البتہ خواص میں سے کچھ کرلیتے ہیں، کبھی اللہ تعالیٰ مدد کرنے میں اس لئے تاخیر کرتے کہ اس وقت امت مسلمہ اسلام کا جھنڈا بلند کرنے اور اس کی شریعت کو نافذ کرنے کی اہل نہیں ہوتی، اگر اسی وقت اللہ کی مدد آجائے اور انہیںغلبہ حاصل ہوجائے تو وہ اسلام کے جھنڈے کو بلند کرنے سے قاصر رہ جائیںگے۔ اور مقصود حاصل نہیں ہوگا، اور وہ اس غلبہ کو تادیر باقی نہیں رکھ سکیںگے اور نہ مستحکم اسلامی حکومت قائم کرسکیںگے، کبھی اللہ تعالیٰ اس لئے اپنی مدد بھیجنے میں تاخیر کرتے ہیں کہ بندئہ مومن اپنی حالت درست کرلے، اپنی کوتاہیوں کا ازالہ کرے، اپنا رشتہ اللہ سے خوب مضبوط کرے، اپنے اندر اخلاص وللہیت پیدا کرے، اپنی نیت درست کرے، حب جاہ ، حب مال ، حب شہرت ، ریاء وسمعہ اور دنیوی مفادات واغراض سے کنارہ کش ہو کر اللہ سے مربوط ہوجائے ، اس کا جینا ، مرنا ، سونا ، جاگنا ، اٹھنا، بیٹھنا، دوستی ودشمنی اللہ کے لئے ہوجائے، اور جب امت کے اندر یہ صلاحیت پیدا ہوجاتی ، ان کی جلوت وخلوت اور ہر فعل وحرکت اللہ کے لئے ہوجاتی ہے اور وہ خلافت ارضی کی ذمہ داری کو بخوبی نبھانے کے اہل بن جاتے ہیں تو اللہ کی مدد آنے میں دیر نہیں ہوتی۔
کبھی اللہ تعالیٰ اپنی مدد بھیجنے میں اس لئے بھی تاخیر کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے دوست ودشمن کی پہنچان ہوجائے ، کیونکہ کبھی مسلمانوں پر واضح نہیں ہوتا کہ ہمارا حقیقی دشمن کون ہے؟ تاخیر سے اللہ اسے واضح کرتا ہے ، جیسا کہ اس وقت کانگریس اور ان کے لیڈران کی اصلیت ظاہر ہورہی ہیجو مسلمانوں کے اسٹیجوں کی زینت بنتے رہے ، اور مسلمانوں سے خوب واہ واہ لوٹتے رہے اور مسلمانوں کا خیر خواہ ومسیحا اپنے کو ظاہر کرتے رہے ہیں، نیز اس لئے بھی کہ فساد وبگاڑ بھی واضح ہوجائے اور اسے ختم کرنے کی حاجت بھی آشکارہ ہوجائے، تو اللہ تعالیٰ سچائی تک رسائی حاصل کرنے حق وباطل میں امتیاز پیدا کرنے اور باطل کی خرابیوں اور اس کے فساد وبگاڑ کو کھول کر دنیا کے سامنے رکھنے کے لئے بھی ایمان والوں کو وقت دیتے اور فوری مدد سے دور رکھتے ہیں تاکہ حق کے غلبہ کے بعد حق کو قبول کرنے میں کسی کو تامل وتذبذب نہ ہو اور اس وقت باطل کی ہلاکت پر کوئی کف افسوس ملنے اور آنسو بہانے والا نہ رہے۔
موجودہ ملکی حالات میں ہمیں یقین رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ضرور اپنے دین کو غلبہ عطا فرمائے گا، اسلام کو سربلندی حاصل ہوگی، اللہ اپنے دین اور اس کے ماننے والوں کی مدد کرے گا، مگر یہ اسی وقت ہوگا جبکہ ہم اس کے اسباب وعوامل کو اختیار کریںگے اور جن شرطوں کے ساتھ اللہ کی مدد مشروط ہے، ا سے پورا کریںگے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
یا ایھا الذین آمنوا ان تنصروا اللہ ینصرکم ویثبت اقدام (محمد:7)
اے ایمان والو! اگر تم اللہ کے دین کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا، اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا۔
ولینصرن اللہ من ینصرہ ان اللہ لقوی عزیز (الحج:40)
جو اللہ کی مدد کرے گا اللہ بھی ضرور اس کی مدد کرے گا۔ بے شک اللہ تعالیٰ بڑی قوتوں والا بڑے غلبہ والا ہے۔
شام ہو فلسطین ‘کشمیر ہو یا برما پورے ہندوستان کے مسلمان سب ظالموں کیخلاف اللہ سے مدد کے طلبگار ہیں، اور ہونا بھی چاہیے کہ وہی کار ساز اور غلبے والا ہے اس کی مدد کے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں ، مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے اندر تنفیذ شریعت کی صلاحیت پیدا کریں ، قیادت عالم کے اہل بنیں ، اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں، دین پر سختی سے کار بند ہوں، خود کو اللہ کے حکم کے تابع بنائیں اور شریعت کو پہلے اپنی عملی زندگی میں نافذ کریں۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔
ان اقیموا الدین ولا تفرقوا (الشوری: 13)
کہ اس دین کو قائم رکھنا (عمل پیرا رہنا)اور اس میں پھوٹ مت ڈالنا۔
موجودہ حالات میں ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے بلکہ اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہیے اور یقین کرنا چاہیے کہ اللہ اپنے دین کی ضرور مدد کرے گا، اگرچہ کہ اس میں کچھ تاخیر ہی ہو ، بشرطیکہ ہم بھی اللہ کے دین کی مدد کریں۔

Comments are closed.