Baseerat Online News Portal

یادش بخیر  قول سدید : مفتی احمد نادر القاسمی  اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا.

”کمرباندھے ہوٸے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں۔۔ ۔۔۔۔بہت آگے گٸے باقی جوہیں تیاربیٹھے ہیں۔ ۔۔۔نہ چھیڑاے نکہت بادبہاری راہ لک اپنی۔ ۔۔۔تجھے اٹکھیلیاں سوجھی ہے ہم بے زاربیٹھے ہیں

یادش بخیر

قول سدید : مفتی احمد نادر القاسمی

اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا

”کمرباندھے ہوٸے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں۔۔

۔۔۔۔بہت آگے گٸے باقی جوہیں تیاربیٹھے ہیں۔

۔۔۔نہ چھیڑاے نکہت بادبہاری راہ لک اپنی۔

۔۔۔تجھے اٹکھیلیاں سوجھی ہے ہم بے زاربیٹھے ہیں۔“

یادش بخیر۔۔

آج صبح سویرے جب موباٸل کھولا تو فقہ اکیڈمی کے قدیم علمی اور فکری معاون حضرت مولانا محی الدین صاحب بڑودہ جن کے اسم گرامی کے ساتھ کل تک ہم لوگ دامت برکاتھم کے اورحفظہ اللہ جیسے القاب لکھا کرتے تھے ان کے رحلت کی خبر سوشل میڈیا پر پڑھی اور ساتھ ہی ایک اور خبر گجرات ہی کے براول علاقے کی محب گرامی حافظ نعیم سخیانی مقیم دبٸی۔۔کے دادا کے انتقال کی دیکھی۔ ۔اس کے بعد ۔بالترتیب۔مولانا محفوظ الرحمان بھیسانوی۔مولانا ظریف احمد قاسمی بنگلور۔مولانا انور کاوی کنتھاریہ ۔قاضی حبیب اللہ قاسمی مدھوبنی۔قاری احسان ۔دہرادون مولانا محی الدین قاسمی گجرات۔۔مولانا شبیر محمود راندیر۔شیخ محمد علی العرقسوسی۔موذن جامع عصفور ۔حضرت مولانا عبداللہ جھانجھی صاحب رویندرا گجرات۔۔حضرت مولانا موسی صاحب ماکروڈ۔مہتمم انکلیشور۔۔۔رحمھم اللہ رحمة واسعہ۔

ان حضرات کی رحلت صرف ہفتہ دس دنوں کے ہوٸی۔ہے۔

یوں تو دنیا میں آنے والے ہرشخص کو ایک دن اس جہاں کو خیرباد کہناہی ہے۔مگر اسقدر تیز رفتاری سے یہ زمین اہل علم وخیر سے خالی ہوجاۓ گی اس کی امید انسان عام طورسے نہیں کرتا۔۔اپنے ۔محسنوں ۔مولانامحی الدین قاسمی صاحب بڑودہ ۔مولانا حبیب اللہ قاسمی صاحب مدھوبنی ۔مولانا عبداللہ جھانچی رویندرا کے بارے سوچہی رہاکہ یااللہ کتنی تیزی سے علما جارہے ہیں تو۔اچانک سورہ احزاب کی وہ آیت :”من المٶمنین رجال صدقوا ماعاھدوا اللہ علیہ ۔فمنھم من قضی نحبہ ومنھم من ینتظر ۔وما بدلوا تبدیلا“(احزاب۔٢٣)

أور ان شا ٕاللہ خان انشا کےیہ چاروں مصرعے ذھن میں گردش کرنے لگے۔

”بہت آگے گٸے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں“

ذھن میں گھومنے لگے ۔اور دنیاکے نظام خداوندی کا احساس اس آیت کے ذریعہ شعورمیں جگہ بناتاچلاگیا۔کہ:

سوچناکیاہے اپنے رب کی قدرت پر ایمان ویقین کو مستحکم کرناہے کہ حکم ربی آۓ گا ۔سب۔چلتے بنیں گے اور جب تک کام لینامقدرہوگا زمین پر چلتے پھرتے اور اس عارضی زندگی کابوجھ ۔رنج وخوشی میں ڈھوتے رہیں گے۔جاناایک دن سب کوہے ۔”کل من علیھا فان ویبقی وجہ ربک ذوالجلال والاکرام“۔۔۔

۔سچ تو یہ ہے کہ ابھی چند دنوں میں ۔جتنے مرحومین اس درمیان دنیاسے چل بسے ۔ان کی خدمات جلالت علمی ۔اور تقوی وللہیت پر بہت کچھ لکھاجا سکتاہے ۔اور اہل علم وفکر اپنا حق سمجھ کر لکھتے بھی رہیں گے۔مگر میں خاص طور سے اس وقت دوشخصیات۔کی بہت زیادہ مجھے یاد آرہی ہے اور ان کی رحلت سے مجھے قلبی صدمہ ہوا۔ایک قاضی حبیب اللہ صاحب ۔قاسمی قاضی شریعت ۔گواپوکھر مدھوبنی ۔وہ اپنے علاقے کے اسم بامسمی ۔بہت محبوب انسان تھے۔لوگوں کی اصلاح کی بڑی فکر ان میں رہتی تھی اور ساتھ میں ”مدرسہ فلاح المسلمین بھوارہ“ کی ترقی ۔بچوں کی تعلیم وتربیت کاخیال ۔ان کی عادت اور فطرت میں رچا بسا تھا۔۔نہایت ہی ۔نیک طبیعت شخص تھے۔۔ہمارے ساتھی بھی تھے جب ہم امارت شرعیہ میں ۔افتا کی تعلیم کے لٸے ١٩٩٤ میں گۓ تو ہم چند ساتھی تھے ۔جناب مولانا حسنین ۔قاسمی۔مولانا نسیم احمد قاسمی۔مدھوبنی۔مولانا ابصار قاسمی کھگڑیا۔مولانا یعقوب ندوی ۔پورنیہ مولانا صباح الدین ملک فلاحی۔۔ایک اور ندوی ساتھی تھے ۔جو نیپال کے تھے ۔اس وقت ان کانام ذہن میں نہیں ہے ۔اور مولانا حبیب اللہ صاحب جو قضا کی ٹریننگ میں آۓ تھے۔اور بعض اسباق میں ان کی گھنٹی ہم لوگوں کے ساتھ تھی ۔اس طرح وہ ہمارے ساتھی تھے۔اس وقت میری عمر ٢٢۔٢٣ کی رہی ہوگی ۔اور مولانا حبیب اللہ قاسمی صاحب ٤٨ ۔٤٩ کے قریب رہے ہوں گے ۔ان کی داڈھی کے ریش تقریبا سفید ہوچکے تھے۔بہت کم گو ہرشخص کے مقام ومنصب کا مناسب خیال ۔محبت ۔مزاج میں سادگی اور متانت بے پناہ تھی ۔اب وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں ۔اللہ تعالی ان کو خصوصی جوار رحمت میں جگہ عنایت فرماۓ ۔مدرسہ فلاح المسلمین کو ان کا نعم البدل عطا کرے ۔مفتی روح اللہ قاسمی ۔جو ان کے داماد اور ان کے علوم معارف کے حقیقی امین ہیں ۔ان کو بھی ہمت وحوصلہ عطا فرماۓ ۔تاکہ ان کامشن زندہ رہے ۔یہی سب سے بڑاصدقہ جاریہ ہے ان کے حق میں ۔بڑے لوگ دنیا سے اٹھ رہے ہیں ۔اللہ ان کی جگہوں کو چھوٹوں اورباصلاحیت تازہ نسل افراد سے پر فرماۓ کہ یہی اس ذات کریم کی طرف سے نعم البدل کی تعبیرہے۔ اب وہ نظام جودنیامیں ذی روح مخلوق کے پیداکرنے اور اپنے پاس بلانے کا اس ذات کریم نے بنایا ہے ۔وہ تو تبدیل نہیں ہوگا ۔”ومابدلوا تبدیلا“۔مگر وہ امور جن کو بقدر قضی وقدر اس جہاں میں انجام پاناہے ۔ان کی انجام دہی کےلۓ تازہ نسلوں کو ان کے جانشین کے طورپر نعم ابدل کی شکل میں کھڑا کرتارہےگا ۔ان شا ٕاللہ ۔

دوسری شخصیت جن کاتعلق گجرات کے مردم خیز اورعلم پرورضلع بڑودہ سے ہے۔ان کی رحلت نے ہم اہل فقہ اکیڈمی کو بڑا قلق اور صدمہ پہونچایا ۔انکے جانے سے اکیڈمی کے علمی تعاون بڑا خسارا ہوا۔ ان کی یاد میں یہ چند سطور رقم کررہاہوں ۔مولانا بڑے جید الاستعداد تھے ۔ان کی نظر احادیث۔ فنون فقہ وفتاوی اوراکابر دیوبند کے علوم ومعارف پر بڑی گہری تھی۔ان کاانتقال ۔گجرات کے دینی حلقہ کے ساتھ ساتھ مدارس۔فقہ اکیڈمی۔اورملک وملت کے علمی حلقہ کا بڑا نقصان ہے۔ اللہ تعالی سے دعاہے کہ اس نقصان کی تلافی کا انتظام اپنے فضل واحسان سے فرمادے ۔آمین

Comments are closed.