وقف علی الاولاد کی تفصیل فقہ اسلامی میں

مولانا محمد قمر الزماں ندوی ۔۔۔۔۔۔
مدرسہ نور الاسلام موئی کلاں کنڈہ پرتاپگڑھ
9506600725
ایک شخص کی طرف سے یہ سوال آیا ہے کہ وقف علی الاولاد کی حقیقت کیا ہے، فقہ اسلامی میں اس کی تفصیلات کیا ہیں ؟ بعض لوگ وقف علی الاولاد کی حقیقت و مشروعیت کا انکار کرتے ہیں اور اس کو درست نہیں سمجھتے ہیں ۔ اس سوال کا تشفی بخش جواب مطلوب ہے ۔
ذیل میں اسی سوال کا جواب دیا جارہا ہے ۔
اسلام کی تعلیمات میں سے ہے کہ ہر شخص خیر ،نیکی اور بھلائی کا کام کرے ،اس لئے کہ خیر کے دروازے تمام لوگوں کے لئے کھلے ہوئے ہیں ، چاہیے خیر کا یہ کام اپنے گاؤں ،یا محلہ کے بسنے والوں کے لئے ہو یا خاندان کے لئے یا تمام انسانی برادری کے لیے ۔ اگر چہ ان کا مذہب ان کی زبان ،انسانوں کا ملک اور ان کی قومیت ایک دوسرے سے مختلف ہوں ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبون ،،( سورہ آل عمران 92)
ہرگز نہ حاصل کرسکو گے نیکی جب تک خرچ نہ کرو اپنی پیاری چیز سے کچھ ۔
اور دوسری جگہ ہے :
وما تنفقوا من خیر فلانفسکم ،، (سورہ بقرہ 272)
اور تم جو کچھ بھی خرچ کرو گے وہ تمہارے لئے ہی ہے ۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ،، الخلق عیال اللہ ،فاحبھم الیه انفعھم لعیاله ،، مسند ابی یعلی الموصلی ، رقم الحدیث 2315)
اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب وہ ہے، جو اس کے عیال کے لیے زیادہ نفع بخش ہو ۔
اسلام کا نقطۂ نظر یہ ہے، کہ جیسے دوسروں پر خرچ کرنا اور انکی ضروریات پوری کرنا ایک کار خیر ہے، اسی طرح اپنی اولاد اور اپنے اہل قرابت پر بھی وقف کرنا باعث ثواب ہے اور کار خیر میں داخل ہے،
اس لئے فقہاء اسلام نے ،،وقف علی الاولاد،، کا تصور دیا ہے۔
وقف علی الاولاد کے لئے شریعت میں جو تفصیلات ہیں ، فقہاء نے ان کے لئے مختلف تعبیرات ذکر کی ہیں، ان تعبیرات کے فرق کی وجہ سے استحقاق وقف کا دائرہ وسیع اور تنگ ہوتا ہے، اس لئے ان مختلف تعبیرات کا اختصار کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے ۔
فقیہ عصر مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی لکھتے ہیں:
اگر کسی شخص نے واحد کے صیغہ سے کہا میں نے اپنے ولد پر اپنی فلاں جائیداد وقف کی تو یہ بانی وقف کے بیٹے بیٹیوں ،یعنی براہ راست اولاد کو شامل ہوگا، اگر ایک ہی بیٹا یا بیٹی ہو یا دوسری اولاد کے انتقال کی وجہ سے ایک ہی بیٹا بیٹی رہ جائے ،تو وہی پورے وقف کا مستحق ہوگا، سلبی اولاد کے ختم ہونے کے بعد بیٹے یا بیٹی کی اولاد وقف کے مستحق نہیں ہوں گے۔ بلکہ ان کی وفات کے بعد وہ وقف فقراء کی طرف لوٹ جائے گا، البتہ اگر وقف کرنے کے وقت کوئی سلبی اولاد نہ رہی ہو، اور بیٹے کی اولاد پوتا پوتی موجود ہو تو وہ اس وقف کے مستحق ہوں گے۔ نواسہ اور نواسی صحیح قول کے مطابق بہرحال اس کے مستحق نہیں ۔
اگر کسی شخص نے تین پشت تک کی صراحت کے ساتھ واحد کے صیغہ سے وقف کیا، جیسے کہا میں نے اس جائیداد کو اپنے ولد، ولد کے ولد اور اس کے ولد پر وقف کیا تو یہ وقف تین پشتوں تک محدود نہ ہوگا۔ بلکہ جب تک دنیا میں اس کی نسلیں چلتی رہیں گی، وہ سب وقف کے مستحق ہوں گے اسی طرح اگر جمع کا صیغہ استعمال کرے اور یوں کہے کہ میں نے اس جائیداد کو اپنی اولاد پر وقف کیا تو اس کا بھی یہی حکم ہے، ان سورتوں میں مرد عورت قریبی رشتہ دار اور دور کے سبھی اس وقف سے مستفید ہونے کا حق رکھیں گے ۔
اگر کوئی شخص کہے کہ میں اپنی جائیداد اپنے لڑکوں پر وقف کرتا ہوں، تو اس میں لڑکیاں بھی شامل ہوں گی کیونکہ عربی زبان میں بنین کا لفظ لڑکوں اور لڑکیوں، یعنی جملہ اولاد کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ فقہاء کے اسی استدلال سے واضح ہے کہ اگر کوئی شخص یہ وضاحت کر دے کہ میں صرف اپنے بیٹوں پر وقف کر رہا ہوں نہ کہ بیٹیوں پر تو بیٹیاں اس میں شامل نہیں ہوں گی ۔
اگر کوئی شخص لڑکیوں پر وقف کرے تو صرف لڑکیاں ہی اس میں شامل ہوں گی واقف کے لڑکے اس میں شامل نہیں ہوں گے ۔
اگر کوئی جائیداد اپنی نسل پر وقف کی جائے، تو اس میں واقف کا پورا اولادی سلسلہ شامل ہوگا اور لڑکیاں بھی شامل ہوں گی ۔
اگر وقف میں عقب کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔جس کے معنی اردو زبان میں بعد میں انے والوں کے ہیں، تو یہ وقف قیامت تک انے والی اولاد ذکور کے لئے سمجھی جائے گی ۔
ال جنس ۔۔۔۔۔۔۔۔
اہل بیت کے الفاظ سے مراد اس کی اولاد کے علاوہ تمام لوگ ہوں گے، جو واقف کے اس مورث اعلیٰ کے نسب سے ہوں ،جس نے اسلام کے زمانہ کو پایا ہے، خواہ وہ مسلمان ہوا ہو یا نہ ہوا ہو اس میں مرد عورتیں بچے سب شامل ہیں ۔
اگر اہل قرابت اور ذی رحم پر وقف کیا، تو اس کے قدیم ترین مسلمان جد خواہ باپ کی طرف سے ہو یا ماں کی طرف سے ان کی اولاد اس وقت کا مصداق ہوگی، البتہ ماں باپ اور اولاد اس وقف میں شامل نہیں ہوں گے۔ کیونکہ عرف میں ان پر اقارب کا اطلاق نہیں کیا جاتا ۔
اگر ان لوگوں پر وقف کرتے ہوئے فقراء کی قید لگائی تو اس کے مصداق بقول علامہ خصاف ، وہ لوگ ہوں گے، جو تقسیم کے وقت فقیر ہوں یعنی ان کے لئے زکوۃ لینی جائز ہو ۔
اگر وقف کی ان صورتوں کے ساتھ صالح ہونے کے قید بھی لگائی ہو تو ،اس سے مراد وہ لوگ ہوں گے جن کا فسق اعلانیہ نہ ہو ،جو متہم نہ ہو، سلیم الطبع ہو، پاک بعض عورتوں پر تہمت اندازی نہ کرتا ہو اور جھوٹ بولنے میں معروف نہ ہو ۔(قاموس الفقہ جلد 5/ حرف واؤ)
وقف علی الاولاد کی مزید تفصیلات فقہ اسلامی میں
وقف علی الاولاد کی تعریف
وقف علی الاولاد اُس خاص وقف کو کہتے ہیں جو کوئی شخص اپنی جائیداد یا مال کو اپنی اولاد یا ذوی القربیٰ (قریبی رشتہ داروں) کے لیے مخصوص کر دیتا ہے۔ یعنی واقف (وقف کرنے والا) کہتا ہے کہ یہ جائیداد میری اولاد کے لیے وقف ہے، وہ اس سے فائدہ اٹھائیں گے، مگر اصل مال ان کی ملکیت نہیں ہوگا بلکہ موقوف علیہ کو صرف نفع حاصل کرنے کا حق ہوگا۔
وقف علی الاولاد کی شرعی حیثیت
فقہائے احناف کے نزدیک وقف علی الاولاد
اکثر فقہائے احناف کے نزدیک وقف علی الاولاد جائز ہے۔
حضرت امام ابو حنیفہؒ اور ان کے اکثر اصحاب کا موقف ہے کہ کوئی شخص اپنی جائیداد اپنی اولاد کے لیے وقف کر سکتا ہے۔ بشرطیکہ وہ اس کو وقف کی شرائط پر پورا اُترتا ہو۔
مطلب یہ کہ:
اصل مال باقی رہے۔
صرف نفع استعمال ہو۔
وقف ہمیشہ کے لیے ہو (ہمیشگی شرط ہے)۔
الدر المختار مع رد المحتار (باب الوقف)
بدائع الصنائع از علامہ کاسانی (جلد 6)
وقف علی الاولاد کے لیے اہم فقہی شرط۔۔۔۔۔
وقف علی الاولاد کی خاص شرط:
یہ وقف جب تک اولاد موجود ہے، جاری رہے گا۔ پھر جب اولاد ختم ہو جائے یا موقوف علیہ باقی نہ رہیں، تو مال فقرا و مساکین کو چلا جائے گا یا مسجد، مدرسہ وغیرہ جیسے خیر کے کام میں لگے گا۔
یعنی وقف کی اصل روح تأبید (ہمیشگی) ہے۔
اگر کوئی شخص وقف میں ہمیشگی کی شرط نہ لگائے اور کہے کہ صرف میری زندگی تک ہے یا جب تک میرے بچے ہیں، پھر ختم ہو جائے گا — تو یہ باطل ہو جائے گا۔
اس لیے فقہائے احناف کہتے ہیں کہ اگر موقوف علیہ (اولاد) ختم ہو جائے تو پھر اصل مال عمومی صدقہ (فی سبیل اللہ) میں چلا جائے۔
(ہدایہ، کتاب الوقف
فتاویٰ عالمگیری، کتاب الوقف)
مثلاً:
زید نے کہا: "میں یہ زمین اپنی اولاد کے لیے وقف کرتا ہوں۔ میری اولاد اس سے پیداوار لے گی۔ جب تک اولاد ہے، وہ اس سے فائدہ اٹھائے۔ اگر میری نسل ختم ہو جائے تو یہ زمین غریبوں کے لیے وقف ہوگی۔”
یہ وقف جائز ہے۔
اگر شرطِ ہمیشگی نہ ہو
اگر کہا:
"میں اپنی زمین اس شرط پر وقف کرتا ہوں کہ جب میرے پوتے تک پہنچے گی، اس کے بعد اس کی ملکیت کسی کو دے دینا۔”
تو یہ باطل وقف ہے۔ کیونکہ اس میں وقف کی ہمیشگی ختم ہو رہی ہے۔
(الدر المختار مع رد المحتار:
> "الوقف المؤبد جائز و المؤقت باطل”)
یعنی: "ہمیشگی والا وقف جائز ہے اور محدود مدت والا باطل ہے۔”
دوسرے فقہی مکاتب۔۔۔۔۔
شافعیہ، مالکیہ اور حنابلہ میں بھی وقف علی الاولاد کی تفصیل اسی طرح ہے۔
تاہم ان کے ہاں بھی اصل شرط یہی ہے کہ وقف ہمیشگی پر ہو۔
امام شافعیؒ کے ہاں فقرا کی طرف واپسی کی شرط لازم ہے۔
وقف علی الاولاد جائز ہے۔ بشرطیکہ اصل مال مستقل اور باقی رہے۔
اصل مال موقوف علیہ (اولاد) کی ملکیت نہیں ہوتا، صرف منافع سے فائدہ ہوتا ہے۔
اگر اولاد کا سلسلہ ختم ہو جائے تو مال عمومی صدقہ یا کسی اور خیر کے کام میں چلا جاتا ہے۔
مدت معین (مؤقت) وقف باطل ہے۔
اس قسم کا وقف آج بھی مدارس، خانقاہوں، خاندانوں کی جاگیروں کی صورت میں موجود ہے۔
ہدایہ (کتاب الوقف)
بدائع الصنائع (کتاب الوقف)
الدر المختار مع رد المحتار (کتاب الوقف)
فتاویٰ عالمگیری (کتاب الوقف)
Comments are closed.