وائیرس کی حکومت اور اسلام – عمر فراھی۔۔

وائیرس کی حکومت اور اسلام
عمر فراھی۔۔۔
کہتے ہیں کہ اگر ہم نے دعوت کا کام انجام دیا ہوتا تو ہم پر یہ مصیبتیں نہ آتیں اور بہت بڑا انقلاب آسکتا تھا ۔میں سمجھتا ہوں بیسویں صدی میں ہندوستان کے اندر جتنا منظم اور تنظیمی سطح پر دعوت و تبلیغ کا کام ہوا اتنا پہلے کبھی نہیں ہوا ۔تیس چالیس سال پہلے جس طرح تبلیغی جماعت کے اجتماعات میں دس دس پندرہ پندرہ لاکھ کی تعداد میں لوگ جمع ہوتے تھے اس روحانی منظر کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا یہ جماعت پوری دنیا میں زبردست انقلاب برپا کر دیگی مگر دجالی طاقتوں نے صرف ایکہ وائیرس سے اس پورے نیٹ ورک کو تہس نہس کر دیا ۔کتنی عجیب بات ہے نا کہ جو قومیں غالب ہوتی ہیں وہ اپنے دشمنوں کو صرف ڈرون اور میزائل جیسے خطرناک اسلحوں سے ہی تباہ نہیں کرتیں وہ اپنی زبان و قلم یعنی میڈیا کے ساتھ ساتھ معمولی وائریس سے بھی تباہ کر سکتی ہیں ۔ ایک وائرس نے حرم میں بھی تالا لگوا دیا ۔دعوت و تبلیغ کے نیٹ ورک ٹھپ پڑ گئے ۔قرآن نے پندرہ سو سال پہلے یوں ہی تو نہیں کہا تھا کہ ہم نے رسول کے ساتھ یہ کتاب اس لئے نازل کی ہے تاکہ تمام جنس دین پر اسلام کو غالب کر دے ۔آج کرہ ارض پر اسلام غالب ہوتا تو حرمین شریفین سے لیکر دنیا کی تمام مساجد پر وائرس کی حکومت نہ ہوتی ۔مگر کیا کیا جائے دعوت دینے والوں کو بھی اس کا شعور نہیں رہا کہ قرآن نے جس جنس دین کے غالب ہونے کی بات کی ہے اس کا مفہوم کیا ہے ۔مختصر میں میں بتاتا ہوں کہ نام نہاد مسلم سلطنتوں میں صرف ایک صوفی سنتوں کی خانقاہوں سے ہزاروں لاکھوں غیر مسلم ایمان قبول کرتی تھیں ۔کہیں کہیں تو پوری کی پوری بستیاں مسلمان ہو جاتی تھیں اب پوری پوری تبلیغی جماعت جماعت اسلامی جمیعت اہل حدیث اور انفرادی طور پر سرگرم اسلامی اسکالروں کی بحث و حجت سے بھی پورے پورے سال کسی ایک شخص کو جہنم سے نجات دلوا پانا ناممکن ہو رہا ہے تو کیوں ؟ ۔بات نہ سمجھ میں آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے مثال دیتا ہوں ۔ رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم جن کے اعلیٰ اخلاق اور کردار کی گواہی قرآن نے دی ہے اپنی تیرہ سالہ مکی زندگی میں صرف سو لوگوں کو ہی قائل کر سکے ۔یعنی ایک سال کی محنت سے صرف دس کے قریب لوگ ایمان لائے ۔ سوچئے اگر وقت کا رسول دس ہزار فوج لیکر مکہ پر چڑھائی نہ کرتا تو اس بات کی کیا ضمانت تھی کہ صلح حدیبیہ پر عمل کرتے ہوئے مشرکین مکہ مشرف بہ اسلام ہو کر خانہ کعبہ کو مسلمانوں کے حوالے کرکے اس کے اندر کے بتوں کو منہدم کرنا شروع کر دیتے۔باتوں سے تو حضرت ابراہیم اپنی قوم اور اپنے والد کو قائل نہیں کرسکے ۔باتوں سے حضرت نوح کا بیٹا اور حضرت لوط کی بیوی قائل نہیں ہوسکی ہاتوں سے تو آپ کے چچا ابو طالب بھی قائل نہیں ہوئے مگر جب آپ فاتح کی حیثیت سے مکہ میں داخل ہوئے تو نہ صرف آپ کے دوسرے چچا اور رشتہ دار ایمان میں داخل ہوئے پورا شہر مسلمان ہوگیا۔اس لئے نہیں کہ آپ کی فوج نے جبر کیا ۔اس لئے کہ آپ نے جو لوگوں سے وعدہ کیا جسے انگلش میں commitment کہتے ہیں اسے پورا کر کے دکھایا ۔دعوت اسی commitment کا نام ہے اور commitment کردار سے ہی ممکن ہے اور commitment صرف زمین کے نیچے اور آسمان کے اوپر کا نہیں ہوتا زمین کے اوپر بھی دکھائی دینا چاہئے جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور بعد کے صحابہ کرام اور مسلم حکمرانوں نے بھی دکھایا تاکہ لوگ بھی اس طرف راغب ہوں ۔کردار کا اپنا دائرہ بہت وسیع ہے آپ اسے بہت ہلکے میں نہ لیں۔اس کے برعکس آج دنیا لندن نیو یارک اور ٹوکیو کے لوگوں کی طرح ہونا چاہتی ہے یا وہاں ہونے کا خواب دیکھ رہی ہے تو اس لئے کہ انہوں نے اپنی وہ تصویر پیش کی ہے ۔ہم یہ نہیں کہتے کہ مسلمان لندن اور امریکہ کی طرح خوبصرت شہر تعمیر کرنا شروع کردیں لیکن نظم و ضبط کی پابندی تو کر ہی سکتے ہیں ۔بستیاں تو وہ بھی خوبصورت ہوتی ہیں جہاں کے لوگوں میں محبت اور مہمان نوازی کا جذبہ ہو ۔کچے مکانات اور گاؤں بھی جنت کا نظارہ پیش کرتے ہیں اگر صاف صفائی کے ساتھ ان کے اطراف میں پیڑ پودھے اور پھول لگا دیئے جائیں ۔سوال ہمارے گھر اور کردار سے امن اور سکون کے اظہار کا ہے ۔
Comments are closed.