ڈاکٹر راحت اندوری بھارت کا عظیم سرمایہ تھے

✒️:عین الحق امینی قاسمی

حال کے شعراء میں خاص طور پر اردو کو زندہ رکھنے کے لئے خود کو زندہ رکھنے والے قادرالکلام شاعر ،مشاعروں کی جان جناب راحت اندوری مرحوم کے اٹھ جانے سے ذاتی طور پر مجھے غیر معمولی صدمہ پہونچا ،ان کی موت کی خبر ،میرے حوصلوں کو توڑ گئی، وہ میرے پسندیدہ شاعر تھے ،دل میں اترنے والی ان کی شاعری میرے درد دل کی دوا تھی،ان کو میں تنہائیوں میں سنا کرتا تھا ، آواز میں بلا کی کشش تھی ،انداز ونیاز ایسا حسین کہ جب تک دو چار شعر نہ سنئے ،خد بدی سی لگی رہتی ۔
یوں تو اردو شاعری کے لئے ایک سے بڑھ کر ایک نام پیش کئے جاسکتے ہیں ،مگر اردو میں رس گھولنے کی خوبی اور مجمع عام کو اردو کے الفاظ کا عاشق بنانے کی صفت جو مرحوم ڈاکٹراندوری صاحب میں تھی وہ آوروں میں کہاں ،وہ اشعار کیا پڑھتے تھے مانو جیسے الفاظ کا ابھی ابھی نزول ہورہا ہو وہ الفاظ کے پیچ و خم اور مد و جزرپر اس درجہ قابویافتہ تھے ،لگتاجیسے لفظوں کی اصل وضع اور ساخت یہی ہے ،وہ دیوانہ وار پڑھتے اور خوب پڑھتے ، اندرون ملک بھی اور باہر بھی … باہری دنیا میں وہ خود کو ہندستانی نمائندہ ہونے کے احساس کے ساتھ پڑھتے ،انہوں اپنی شاعری سے سرحد سے دور اور بہت دور تلک ملک کی یکجہتی کے پیغام کو پہونچایا اور کثرت سے پہونچایا ،بڑے بڑے مشاعروں میں خود بھی اردو کا مزا لیتے اور سامعین کو بھی دیوانہ بنا کر رکھ دیتے تھے ،وہ اگر کسی مشاعرے میں ہیں تو سامعین کے نزدیک اس کا مطلب ہوتا کہ صرف راحت اندوری۔ایسے موقع پر ناظم مشاعرہ کوسخت جاں کنی کے مرحلوں سے گزرنا پڑتا ،بہت سی دفعہ ناظم صاحب کو لفظوں کی بازیگری سے بھی کام لے کر اندوری صاحب کو مشاعرے کی آخری کڑی تک بچا کر رکھنا پڑتا ،حالاں کہ مشاعرے کے اسپیکر پر سامعین کا خاصا دباؤ ہوتا ،مگر مشاعرے کی کامیاب کے لئےراحت اندوری صاحب کو روک کر رکھنا اسپیکر کی انتہائی مجبوری ہوا کرتی تھی ۔
ہاں مگر جب وہ مائک تھا م لیتے تو سامعین کی ساری اکتاہٹ یکلخت کافور ہوجاتی ،وہ مہذب شاعری کرنا جانتے تھے ،ان کی شاعری کا کمال یہ تھا کہ رباعی مکمل ہونے سے قبل جیسی سناٹگی ہوتی ،رباعیہ اشعار مکمل ہوتے ہوتے قہقہوں کا سما بندھ جاتا ،بعض دفعہ مزاحا اندوری صاحب کہتے بھی تھے کہ "ذرا صبر سے بھی کام لیا کریں ،شاعری میں کرتا ہوں اور مجھ سے پہلےبند آپ پڑھ دیتے ہیں ”
کلام میں ایسی قوت اور معنویت ہوتی کہ سننے والا عش عش کئے بنا اپنے کو نہیں روک سکتا تھا،وہ کبھی اشاروں میں بہت سی تلخ حقیقتوں کا اظہار کرکے سبک گامی سے نکل جاتے اور کبھی دہاڑ کر بولتے ہوئے بھی سینہ سپر رہنے کا حوصلہ رکھتے تھے ،ان کی شاعری میں زندگی کا پیغام ہوتا ،وہ آزاد انہ شاعری کے قائل نہیں تھے ،بلکہ بت شکن شاعری اور اندرون حد رہ کر شاعری کرنےکے مداح تھے ،جس مذہب کے وہ فرد فرید تھے ،اس کا احترام ،اس کی عظمت ،اس کی نمائندگی، اس کی حد بندیوں کی پاس داری، عظیم مقصد کے طور پر دم آخر تک کرتے رہے ، ان کے کلام میں تعلی ،کبر ،غرور، کا شائبہ تو کیا ،بلکہ وہ خود بھی سراپا تواضع پسند تھے اور ان کے کلام سے بھی عاجزی تواضع ، حکمت وتدبر کی پاسداری ، آگے بڑھنے ،باحوصلہ زندگی جینے کا برملا اظہار ہوتا تھا ۔
مشاعرہ پڑھنے کا انداز ان کا اپنا تھا ،اسی لئے وہ پوری قوت کے ساتھ اشعار کی تہہ تک سامعین کو لے جانے میں سو فیصد کامیاب رہتے ،وہ آوروں کو بھی یہی نصیحت کرتے کہ "کلام چاہے کسی کا بھی ہو ،کمال اپنا ہونا چاہئے،ورنہ انسان بعض دفعہ نقل نقل میں عمریں گزار دیتا ہے اور بلندرتبہ تو کیا پاتا ،ہاں جہاں سے چلا تھا وہیں پاتا ہے ،”اسی نقل پہ انہیں کی زبانی سنی ہوئی حکایت یاد آتی ہے کہ ایک مرتبہ کسی بزرگ شاعر نے ایک خوب رو نوجوان شاعر کو ایک پروگرام میں یہ نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ: دیکھو راحت اندوری بننے کے لئے صرف دانت سفید رکھنے سے کام نہیں چلا کرتا،اس کے لئے تو چہرہ بھی کالا کرنا پڑتا ہے ”
یقینا انہوں نے کامیاب شاعری کی اور اپنے لب ولہجہ کے خود ہی موجد تھے، آواز وانداز میں نہ وہ دوسروں کی نقل کرتے اور نہ نقل کرنے والوں کو پسند کرتے تھے ،ان کا درد الفاظ کے سہارے شعر وسخن کے لہجے میں بولتا تھا ،:
آوروں کا پیام اور ہے میرا پیام اور ہے
عشق کے درد مندکا طرز کلام اور ہے
بزدلی ،بلاوجہ خوف وملامت پالنے سے اپنی قوم کو وہ اکثر روکا کرتے تھے ،انہوں نے اردو کے ایک استاذ شاعر کی حیثیت سے اپنی پہچان بنائی ،ان کی مقبولیت کا عالم یہ تھا کہ انہیں ہندی کے مشاعروں میں بھی لوگ ذوق وشوق سے بے تابانہ سنتے اور منجھے ہوئے ہندی کویوں کے درمیان بھی ،ممتاز مقام وپہچان کے ساتھ اردو کی قدیم تہذیبی روایات کو مرعوب ہوئے بغیر لوگوں نے انہیں برتتے دیکھا ہے۔انہوں نے خود اپنی زندگی ہی میں موت سے یاری لگا رکھی تھی ، زندگی اور موت کے اس عارضی دوستانہ سے وہ واقف بھی تھےاسی لیے بہت پہلے ہی وہ اس گتھی کو سلجھا گئے کہ:
آنکھ میں پانی رکھو ہونٹوں پہ چنگاری رکھو
زندہ رہنا ہے تو ترکیبیں بہت ساری رکھو
راہ کے پتھر سے بڑھ کر کچھ نہیں ہیں منزلیں
راستے آواز دیتے ہیں سفر جاری رکھو
ایک ہی ندی کے ہیں یہ دو کنارے دوستو
دوستانہ زندگی سے موت سے یاری رکھو
آتے جاتے پل یہ کہتے ہیں ہمارے کان میں
کوچ کا اعلان ہونے کو ہے تیاری رکھو
یہ ضروری ہے کہ آنکھوں کا بھرم قائم رہے
نیند رکھو یا نہ رکھو خواب معیاری رکھو
یہ ہوائیں اڑ نہ جائیں لے کے کاغذ کا بدن
دوستو مجھ پر کوئی پتھر ذرا بھاری رکھو
لے تو آئے شاعری بازار میں راحتؔ میاں
کیا ضروری ہے کہ لہجے کو بھی بازاری رکھو۔
اللہ تعا لی سے دعا ہے کہ وہ انہیں وہاں بھی کامیابی بخشے اوراپنی ر حمتوں کے سائے میں جگہ دے ۔
آمین یارب العالمین۔
…………………………………………..
* معہد عائشہ الصدیقہ ،رحمانی نگر ،کھاتوپور ،بیگوسرائے

Comments are closed.