شاعر انقلاب ڈاکٹر راحت اندوری صاحب !

✍️: شکیل منصور القاسمی

منفی سیاسی رویوں ، بے چینیوں ، خوف وگھٹن ، معاشرتی شکست وریخت ، ناہمواریوں اور ریاستی ظلم وجبر کے سامنے اپنی خداداد قوتِ اظہار ، حساس و پاکیزہ شعور واحساس کے ساتھ مثبت اور انقلابی شاعری کرنے والے “سیاہ گلاب “ آبرو ے اردو ادب ، جناب ڈاکٹر راحت اندوری صاحب گزشتہ کل وہاں چلے گئے جہاں ہم سب کو جانا ہے :
إنا لله وإنا إليه راجعون

راحت اندوری صاحب کو پڑھنے اور سننے والے جانتے ہیں کہ وہ
راست گو ، غیور و باوقار انقلابی شاعر تھے ، ان کے احساس وشعور کا کینوس وسیع ، ہمہ جہت ، ہمہ گیر اور ہمہ رنگ تھا ، ان کی شاعری محبوب کے زلف گرہ گیر ،گل وبلبل اور لب وعارض کا اسیر نہیں تھی ، وہ معاشرے کا نباض ، بندہ حر اور قلندر صفت شاعر تھے ، ان کی شاعری ، خیالات ، ملکی ، ملکی ، مقامی اور عالمی حالات کی تصویر کشی میں خون جگڑ جھلکتا نہیں ؛ بلکہ “چھلکتا” تھا ۔
خیالات کی جدت ، ندرت ، گہرائی وگیرائی ، وقار وتمکنت ، دور رس تلمیحات ، استعارے ، منفرد وبے باک انداز ، خوش گوار قہقہے ، لہجے کی گھن گرج اور اپنی فن کار ضرب سے جہاں وہ اپنے سامعین کا تار وجود جھنجھنا دیتے وہیں ایوان سلطنت میں بھی ہل چل پیدا کردیتے تھے ، خدا نے انہیں ذوق لطیف ، بے پناہ اظہار وترسیل احساس کی دولت عطا فرمائی تھی،
ان کی شاعری کلام موزوں اور لگے بندھے الفاظ وتعبیرات کے استعمال محض نہیں ؛ بلکہ معاشرتی وسیاسی ناہمواریوں پہ بے باک رد عمل کا مظہر جمیل تھی ، اپنی زبانی لطافت ، فنی مہارت ، معنی آفرینی اور زبان وبیاں کی شستگی ، بے ساختگی اور روانی سے مجمع پہ قابو پاکر سامعین کی سماعتوں پہ حاوی ہوجاتے۔ مزاج میں سادگی وخود سپردگی کا عنصر غالب تھا ، آخر وقت تک
جدت و روایات کے ساتھ اپنی مثالی شاعری کو نبھایا ۔ آج وہ اپنے جسم سے اگرچہ ہمارے بیچ نہ رہے ؛ لیکن اپنی شاعری کے حسین و لازوال نقوش چھوڑ گئے ہیں جو دیر اور دور تک اس فن کے رہ نوردِ شوق کے لئے “چراغ راہ “ کا کام انجام دیتے رہیں گے ۔خدا ان کی مغفرت فرمائے اور درجات بلند فرمائے ،آمین ۔
شکیل منصور القاسمی
12 اگست 2020

Comments are closed.