عوامی نفسیات پر مضبوط پکڑ رکھنے والے راحت اندوری رخصت ہوئے

ـــــــــــــــــ
از ـ محمود احمد خاں دریابادی
یاد پڑتا ہے کہ 1976 یا 1977 میں مظفر نگر کے مشاعرے میں پہلی بار راحت اندوری کو سنا تھا، مائیک سمبھالتے ہی انھوں نے مجمعے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ
” آپ حضرات مجھے دیکھ کر بہت مایوس ہوئے ہونگے، مگر ابھی کچھ دن پہلے میں نے بنارس کے ایک مشاعرے میں وزیر دفاع جگجیون رام کو دیکھا تھا تو محسوس ہوا کہ میں تو کافی خوبصورت ہوں ”
اس کے بعد انھوں نے اپنے مخصوص انداز میں شعر سنانا شروع کیا اور مجمع پر چھاگئے، ترنم سے بھی ایک غزل پڑھی، مطلع مجھے یاد رہ گیا ہے ـ
مری تقدیر میں ہیں میرے حوالے ہوں گے
دست ساقی میں اگر زہر کے پیالے ہوں گے
اسی کے کچھ دنوں بعد ممبئی کے برلا ہال میں سنا، دلیپ کمار بھی شریک تھے، حاضرین کی توجہ مشاعرے سے زیادہ دلیپ کمار پر تھی، مگر وہاں بھی راحت نے اس انگریزی ضرب المثل کوسچ کردکھایا
He Came, He Saw, He Conquered
” وہ آیا اُس نے دیکھا اور اُس نے فتح کرلیا ”
راحت نے سامعین کے اصرار کے باوجود وہاں ترنم سے نہیں پڑھا بلکہ اپنے منفرد انداز کے مطابق تحت اللفظ میں ہی سناتے رہے، دو شعر مجھے یاد آرہے ہیں ……..
کشتیاں موجوں میں طوفان میں لنگر ڈوبے
ہم بچے تھے تو کنارے پہ پہونچ کر ڈوبے
میں تو قطرہ تھا نظر کیسے ملاتا ان سے
ایسی آنکھیں کہ سمندر کا سمندر ڈوبے
اس کے بعد پتہ نہیں کتنی بار اُنھیں سننے کا موقع ملا مگر پھر کبھی ترنم سے پڑھتے نہیں دیکھا ـ
راحت اندوری کا بلند آہنگ انداز، گھن گرج، حاضرین کےدل و دماغ کو مسخر کرلینے کا فن، اسٹیج پر موجود بڑی سی بڑی شخصیت سے مرعوب ہوئے بغیر پوری بیباکی سے شہر یاران وطن کو آئینہ دکھاتا اُن کا کلام، ………… بہت سے شاعروں نے نقل کرنے کی کوشش کی، مگر نقل کے لئے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے، جن کے اندر عقل اور صلاحیت تھی وہ کامیاب ہوگئے، بے عقل بلکہ بدعقل متشاعر تاریخ کے اندھیروں میں گم ہوگئے ـ
ہر پڑھا لکھا شخص واقف ہے کہ آجکل مشاعروں میں عموما شاعری کے علاوہ سب کچھ ہوتا ہے، بہت کم ایسے شاعر بچے ہیں جو مشاعروں میں شاعری سناتے ہیں، جو سناتے بھی ہیں اُن کی کیا گت بنتی ہے یہ سب کو معلوم ہے، بعض استاذ شعرا کو آدھی رات کے بعد جب پورا ہال تقریبا خالی ہوچکا ہوتا ہے زحمت دی جاتی ہے، اس سے فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اُن بزرگوں کی عزت بھی بچی رہتی ہے اور بچے ہوئے چند حاضرین جو واقعی اہل ذوق ہوتے ہیں اور شاعری سننے کے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں اُن کے ذوق کی تسکین بھی ہوجاتی ہے ـ
مگر راحت اندوری کا یہ کمال تھا کہ وہ مشاعروں میں کمرشیل شاعری کے درمیان پوری مہارت سے حقیقی شاعری، بلکہ خالص غزل کے گھونٹ بھی سامعین کو پوری کامیابی سے پلادیتے تھے ـ
وقتی موضوعات پر براہ راست مخاطب کرکے کی جانے والی جذباتی شاعری جہاں قوم میں بیداری جوش اور ولولہ پیدا کرتی ہے وہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسی شاعری کی عمر زیادہ نہیں ہوتی، موضوعات پرانے ہو جاتے ہیں، حکومتیں بدل جاتی ہیں، نئے مسائل سامنے آتے ہیں، ایسے میں پرانے اشعار کی دھمک ماند پڑجاتی ہے، ………. ہمارے دیکھتے دیکھتے کئی شاعر جو اس وقت کے حالات کے مطابق اپنے پرجوش اشعار سے مشاعرہ لوٹ لیا کرتے تھے اب لوگ اُنھیں فراموش کرچکے ہیں ـ ……… اس کے برخلاف استعارات، تشبیہات اور محاکات جیسے شعری محاسن کا سہارا لے لے کر کی جانے والی شاعری آفاقی ہوجاتی، ہر زمانے اور ہر حکومت میں اُس حقیقی شاعری کی چمک قائم رہتی ہے ـ
راحت اندوری کی حالات حاضرہ پر مشتمل شاعری نے جہاں انھیں عالمی شہرت اور مقبولیت عطاکی ہے وہیں اُن کی حقیقی شاعری اور خالص غزل کے اشعار بھی نسلوں تک یاد رکھے جائیں گے ـ فوری طور پر ذہن میں آنے والے جستہ جستہ اشعار اس کا ثبوت ہیں ………
خاک میں یوں نہ ملا ضبط کی توہین نہ کر
یہ وہ آنسو ہیں جو دنیا کو بہا لے جائیں
تری ہر بات محبت میں گوارا کرکے
دل کے بازار میں بیٹھے ہیں خسارا کرکے
تیرگی چاند کے رستے سےسحر تک پہونچی
زلف شانوں سے جو اتری تو کمرتک پہونچی
سلا چکی تھی یہ دنیا تھپک تپھک کے مجھے
جگا دیا تری پازیب نے کھنک کے مجھے
حوصلے زندگی کے دیکھتے ہیں
چلو کچھ اور جی کے دیکھتے ہیں
نیند پچھلی صدی کی زخمی ہے
خواب اگلی صدی کے دیکھتے ہیں
میں پربتوں سے لڑتا رہا اور چند لوگ
گیلی زمین کھود کے فرہاد ہوگئے
اشعار کی مقبولیت میں نادر ردیف و قافیے کا بر ًمحل استعمال بھی بہت معاون ہوتا ہے، راحت اندوری نے بہت سی غزلوں میں بالکل نئے قافیے اور ردیف کا بر محل استعمال کرکے اپنی قادرالکلامی کا ثبوت دیا ہے …….. دیکھئے …….
کیسا نعرہ کیسا قول، اللہ بول
ابھی بدلتا ہے ماحول، اللہ بول
شاخ سحر پر پھول کھلے آذانوں کے
پھینک رضائی آنکھیں کھول، اللہ بول
بلاتی ہے مگر، جانے کا نئیں
یہ دنیا ہے ادھر، جانے کا نئیں
مرے بیٹے کسی سے عشق کر
مگر حد سے گذر جانے کا نئیں
کبھی اکیلے میں ملکر جھنجھوڑ دونگا اُسے
جہاں جہاں سے وہ ٹوٹا ہے جوڑ دونگا اسے
پسینے بانٹتا پھرتا ہے ہر جگہ سورج
کبھی جو ہاتھ لگا تو نچوڑ دونگا اُسے
حقیقت یہ ہے کہ عالمی پیمانے پر اردو کی عوامی مقبولت کو تقویت پہونچانے کے سلسلے میں راحت اندوری کی خدمات ناقابل فراموس ہیں ـ کروناوائرس نے جہاں اور بہت سے نقصان کئے ہیں وہیں راحت اندوری کا بھی یوں رخصت ہوجانا اردو شعر وسخن کا بہت بڑا نقصان ہے ـ
Comments are closed.