ملک آزاد؛ مگر منزل ابھی دور …….. !

✒️: عین الحق امینی قاسمی
[email protected]
9931644462 +8851978378
ملک میں جب آزادی کی کوششیں بالکل آخری مرحلے
میں تھیں ،تب ایک برطانوی صحافی نے مہاتما گاندھی سے اپنے انٹر ویو میں ایک سوال یہ بھی پوچھا تھا کہ آپ کس طرح کا ہندوستان بنانا چاہتے ہیں ؟گاندھی جی نے جواب دیا کہ
” میں ایک ایسا ہندوستان بنانا چاہتا ہوں ،جس میں سماج کا غریب ترین شخص بھی فخر کرے ،اسے یہ احساس ہو کہ اس کے بنانے میں اس کا بھی ایک حصہ ہے ،ایک ایسا ہندوستان بنانا چاہتا ہوں ،جس میں ذات پات کی بنا پر کوئی تفوق اور امتیاز نہ ہو ،ایک ایسا ہندوستان ،جس میں سبھی اقوام ایک ساتھ امن وامان سے رہتے ہوں ،چھو اچھوت کے لئے جس میں جگہ نہ ہو ،عورتوں کو بھی وہی حقوق وتحفظ حاصل ہوں جو مردوں کو ہیں ،یہی ہے میرے خوابوں کا ہندوستان”(مقالہ : تاریخی شہادت)
یہی وہ خواب تھے جس کی تعبیر کے لئے مجاہد ین آزادی نے ” ہندو مسلم، سکھ عیسائی ،آپس میں سب بھائی بھائی” کا نعرہ دے کر فرنگیوں کے خلاف فیصلہ کن لڑائی لڑی تھی اور اس درمیان امید وتوقع سے زیادہ ایسی ایسی قربانیاں پیش کیں ،جس کے تصور سے ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ،آزادی کی لڑائی میں جو شہادتیں ہوئی ہیں اور جس اذیت کے ساتھ انہیں شہید کیا گیا ہے ،اسے صرف سن کر کلیجہ منھ کو آتا ہے،مگران بے چاروں کو کیا خبر کہ ملک کی آزادی کے لئے ان اذیتوں کو سہنے کے باوجود اپنے ہی دیش میں سماج کے بیچ الگ الگ مدعوں کے نام پر کھائی پیدا کی جائےگی ،دیش واسیوں کے درمیان سماجی فاصلہ کو لے کر انہیں ہندو مسلم کے خانوں میں بانٹ کر ان کے ساتھ سوتیلا برتاؤ کیا جائےگا ،آزادی حاصل کرنے کےبعد اسی ہندستان میں انسان ،انسان سے نفرت کرنے لگے گا، آپس میں بھید بھاؤ کے ذریعہ دیش کی مثالی گنگا جمنی تہذیب کو دفن کردیا جائے گا، بھائی چارے کو ختم کر نفرتوں کو فروغ دیا جائےگا ، انیکتا میں ایکتا کی مثال بنے بھارت کی ساکھ کو داؤ پر لگا دیا جائے گا ،ایک سوتیس کروڑ جانوں پر مشتمل اس جمہوری اور سیکولر بھارت سے انسانی ہمدردی کو مٹا دیا جائے گا۔
مجاہد آزادی امیر شریعت رابع حضرت مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانی بانی آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ آزادی کے بعد ملک کی اکثریت والی حکومت کے رویوں پرایک جگہ اپنے کرب کا اظہار یوں کرتے ہیں : آزادی کے بعد سے اب تک جو حالات پیش آئے ،اس کے نتیجے میں ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ آزاد ہندوستان کا جو خواب دیکھا گیا تھا وہ شرمندہ تعبیر نہ ہوا ،ہم نے ہندوستان کی آزادی کے لئے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے وقت یہ سوچا تھا کہ آزاد ہندوستان میں ہمارا مذہب ،ہماری تہذیب ،ہماری جان اور ہمارا مال سب محفوظ رہیں گے ،لیکن ایسا نہ ہوا …..ہماری تہذیب کو مٹانے اور ہمارے وجود کو ختم کرنے کی کوششیں اب بھی ہورہی ہیں اور پوری قوت ،انہماک اور مستعدی سے ہورہی ہیں ،ہم سے ہماری زبان کا سرمایہ چھینا جارہا ہے ،اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایسا نظام اور نصاب تعلیم نافذ کیا گیا ہے ،جسے پڑھ کر ہمارے بچے کچھ رہیں یا نہ رہیں مسلمان بہر حال نہیں رہ سکتے "(خطبات امیر شریعت ،ص: 139)
یہی وہ پیاراملک ہے جس میں محبتوں کی مثال دی جاتی تھی ، جس کی جمہوریت کوآئڈیل مانا جاتا تھا ،یہی وملک ہے ،جہاں ہندوؤں نے مسلمانوں کو پھانسی کے پھندوں سے اتار نے کا کام کیا تھا،جہاں مسلمانوں نے اپنے ہندو بھائیوں کو بچاکرخودپھانسی کے پھندوں میں لٹک جانا گوارا کیا تھا ، یہ تو وہ ملک ہے جس میں ہندو مسلمان ایک ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھایا کرتے تھے ، جہاں مسلمان ، ہندو بیٹیوں کے لئے سات پھیروں کا نظم کر ،ان کے گھر بسانے کی خدمت انجام دیتا تھا اور ہندو اپنے مسلم بھائیوں کی بیٹیوں کے ہاتھ پیلے کر، ان کے لئےساز وسامان مہیا کراتا تھا ،اسی بھارت میں ہندومسلم مائیں ایک دوسرے کے چولہے سے آگ لے کر اپنا چولہا روشن کرتی تھیں، ہندو کے گھر سے مسلمان کا کھانا آتا، تو مسلم کے گھروں سے ہندو بھائیوں کا کھانا جاتا تھا ، مسلم مائیں اپنے ہندوپڑوسیوں کے بچوں کا مساج کرتیں تو ہندو بہنیں، مسلم بچوں کو لوریاں سناتیں، آپ آزادی کے نغمے ،غزلیں اور سنجیدہ تحریروں کو اٹھا کر دیکھ لیجئے ،ایک ایک مصرعہ اور مضامین کی سطروں سےمحبت ،خلوص،وفا،ایمانداری اورپیار کی خوشبو آئے گی، ہمارے ملک کامزاج ہمیشہ تعمیری رہا ہے،بھارت کی مٹی میں نفرت ،عداوت اور تفرقہ بازی کو برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں رہی ہے،اس مٹی میں وفا ،امن ومحبت کی خوشبو بسی ہوئی ہے ۔امیر شریعت حضرت مولانا محمد ولی رحمانی سجادہ نشیں خانقاہ رحمانی مونگیرنے گنگا جمنی تہذیب کا نقشہ کھینچتے ہوئے لکھا ہے :” یہ ہندوستان کی تاریخ کی عجیب بد قسمتی ہے کہ یہاں انسانوں اور انسانوں کے درمیان جان اور مال کی لڑائیاں ہوتی ہیں ،وہی لوگ ایک دوسرے کے دشمن ہوجاتے ہیں جو ساتھ رہتے ہیں ،ساتھ ساتھ تہوار مناتے ہیں ،ساتھ ساتھ خوشیاں مناتے ہیں ،ایک دوسرے کے غم میں شریک ہوتے ہیں ،پھر اچانک ایک دوسرے کو مارنے مرنے پر اتر جاتے ہیں حتی کہ ایک معصوم بچہ بھی اس سے متآثر ہوئے بغیر نہیں رہتا "(حیات ولی،ص:93)
آج جب کہ دیش بھگتی کی آڑ میں نفرتوں کی کھیتی ہورہی ہے ،مرنے مارنے کی نصیحتیں کی جارہی ہیں تب بھی مسلمانوں نے اپنی روش اور پروجوں سے ورثے میں ملی انسانیت ،ہمدردی اور اپنے اعلی اخلاق کو زندہ رکھا ہوا ہے ،مسلمانوں سےہزار دشمنی کے باوجود، کورونا سے متآثر ہوکر مرنے والوں کی ارتھی کو اس کے عزیز ترین کاندھا دینے کوجب تیار نہیں تو مسلمانوں کا ضمیر بے چین ہوجارہا تھاور اپنے ملک کے سادھوسنت سمیت عام لوگوں کی ارتھی کو لاک ڈاؤن کے باوجود نہ صرف کاندھا دے کر اسے شمشان گھاٹ تک لے جا رہا تھا ۔ہزاروں غریب مزدور جب پیدل چل کر بے دانا بے پانی راہوں میں دم توڑرہےتھے ،تب مسلمانوں نے بھید بھاؤ سے اوپر اٹھ کر انہیں روٹی پانی دینے کا کام کیا ،حال کے دنوں میں بیگوسرائے بہار کے قصبہ ،حسینا نامی گاؤں میں بسنے والے مسلمانوں نے ان مزدوروں کے ساتھ جو ہمدردی واخلاق مندی دکھائی ہے اس نے میزورم کے مکھ منتری کو اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر” تھینکیو بہار ” لکھ کر بہار واسیوں کاشکریہ اداکرنے پر مجبور کردیا ،مسلمانوں کی طرف سےانسانوں کی اس خاموش خدمت نے پورے بہار کا سر فخر سے اونچا کردیا ۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ مسلمانوں نے ہی سب سے پہلے دیش کو آزاد کرانے کی خاطر سفید فاموں سے لڑائی مول لی تھی ،کیا مسلمانوں نے ہی آزادی وطن کی خاطر انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ نہیں دیا تھا ،کیاچاندنی چوک سے لاہور تک مسلمانوں کی لاشوں کو درختوں پر نہیں جھلایا گیا تھا ، کیا مسلمانوں نے تحریک خلافت آندولن برپا کر پورے ملک میں ہندو مسلم ایکتا کی لہر پیدا نہیں کی تھی ،کیا مسلمانوں نے ہی ہندوستان کو راکٹ ساز نہیں دیا ،کیا مسلمانوں نے میزائل مین عبد الکلام جیسا سپوت نہیں دیا ،جس نے پڑوسی ملک کی پیشکش کو ٹھکرا کر ہندوستان میں اجنبی بن کر جینا گوارہ کرلیا ۔ کیا مسلمانوں نے ہی اس ملک کو سونے کی چڑیا نہیں بنایا تھا ۔سرزمین ہند پر مسلمانوں کے اثرات واحسانات کو گنا نا اور تاریخ کی ورق گردانی کرنا مقصد نہیں ،بلکہ سرسری احساس کو جگانا ہے کہ آزادی کا خواب کیا تھا اور اس کی تعبیر کیا ہوگئی۔
ان تمام سچائیوں کے باوجود سماجی فاصلہ بنانے کے نام پہ ملک کی چاٹوکار گودی میڈیا نے جس طرح ہمیں خانوں میں بانٹ کر سماج میں زہر گھول نے کا کام کیا ہے ،اس سے ملک کا تانا بانا بکھر رہاہے،ہمارادیش بدنام ہورہا ہے ،سماج کا سنجیدہ طبقہ شرمسار ہے ،ان کے پاس بولنے کوالفاظ نہیں ،رونے کو آنسو نہیں ،وہ تنگ آ چکے ہیں ،ایسا نہیں ہے کہ یہ میڈیا اور سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز بناکر آزادی کی خوشیوں پر پانی پھیرنے والے بے چارے ہیں ،ںلکہ یہ سب کچھ سوچی سمجھی سازش اور پری پلان کیا جارہا ہے ،ان زہریلے سماج خوروں کی پشت پر مضبوط ہاتھ ہے ،جس سے شہ پاکر یہ اتپات مچا رہے ہیں اور ہمارا ذمہ دار طبقہ چپکی سادھے تماشہ دیکھ رہا ہے ،ملک وسماج کو توڑنے والے ان بہروپیوں کو لگام دیا جاسکتا ہے ،مگر مشکل یہ ہے کہ اسی پر تو اقتدار کی کرسی ٹکی ہوئی ہے ،کرسی بچانے اور دیر تک براجمانی کے لئے ہی تو یہ سارا ڈرامہ رچاجارہا ہے ،جب قاتل ہی منصف ٹھہرے تو انصاف کہاں اور آزادی کی خوشی کیسی ؟
موجودہ وقت میں سوچی سمجھی سازش کے تحت”سماجی فاصلے” کے غلط مفہوم نے "جسمانی دوری” کے ساتھ رہنے کے بجائے سماجوں کے درمیان دوریاں بناکر رکھ دیا ہے ،ملک کے غریبوں ،کمزوروں کو قربانی کا بکرا بنا یاجارہا ہے ،نتیجتا آج ملک میں غریب ،مزدور ،کسانوں کی زندگی دوبھر ہورہی ہے اور صورت حال سے صاف محسوس ہوتاہے کہ ان غریبوں اور مزدوروں کو ابھی تک آزادی نہیں ملی ہے ،بلکہ ظلم وناانصافی کی طویل داستان بتاتی ہے کہ یہاں غریب ومزدور ہونا جرم عظیم ہے ،کہنے کو ملک سفید فاموں سے آزاد ضرورہوا ،مگر ساورکر واد ،فسطائیت اور دستور ہند کے باغیوں سے ابھی تک آزاد نہ ہوسکا ۔ باباصاحب بھیم راؤ امبیڈ کر نے بڑی اچھی بات کہی تھی کہ ” جب تک آپ کوسماجی آزادی نہیں مل جاتی ،قانون آپ کو جوبھی آزادی دلادے وہ آپ کے کسی کام کی نہیں "(روشن سماج کی تاریخ،ص88)
جس ملک میں نفرتوں کی گرم بازاری ہو ،جہاں عدالتیں ہیں ،انصاف نہیں ،انتخابات ہیں ،حقیقی جمہوریت نہیں ،جہاں قوانین ہیں ،مگر صرف غریبوں کے لئے ،جہاں اقتصادی گھپلہ،منظم جرائم ،جہاں باہمی منافرت،ذات پات اور آپسی بھید بھاؤ کا خوب چلن ہو ،جہاں اسکو ل وکالج ،ہاسپیٹل کے قیام کے بجائے حکومت کی سرپرستی اور سرکاری خزانے کی مدد سے مندروں کی تعمیر پر توجہ دی جارہی ہو ، وہاں کیسی آزادی اور آزادی کی کیسی خوشی، ہندوستان جیسے کمزور معیشت والے ملک میں جہاں آج بھی بنیادی سہولیات اور ضروریات زندگی کا فقدان ہے ،یہاں سب کچھ ” تیلے رے ماتھا تیل ” کے اصول پر فراہم ہوتا ہے یعنی جس کے پاس پیسہ ہے اس کے لئے سب کچھ ہے اوراسی کا سب ہے ورنہ ایک بڑی آبادی تعلیم ،صحت ،بجلی ،پانی،ملازمت،روزگار،کاروباراور قرض وغیرہ کے حصول تک سے یکسر محروم ہے ،یہاں زبانی جمع خرچ جو ہوجائے ،مگر یہ سچائی ہے کہ ملک میں آج بھی انجینئرس ،ڈاکٹرس ،اچھے اسکولس، کالیجیز،اساتذہ اور خصوصی شعبہ کے ماہرین کی بڑی کمی ہے ،اس کی ایک جھلک آپ نے کورونا کو لے کر مختلف جہتوں سے ملک میں مچے ہاہاکار کو دیکھ لیا ہے کہ اس ملک کی کیا صلاحیت ہے اور محض چند روز میں ملک کی کیسی تصویر سامنے آگئی ۔
"یوم آزادی کا پیغام” اس ملک کےحکمراں سمیت ایک سوتیس کروڑ آبادی کے لئے یہی ہے کہ ایست انڈیا کمپنی کے بہانے ہندوستان میں پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو کا نعرہ دینے والے گوروں کا کیا حشر ہوا،وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، حکومت وسلطنت کبھی کسی کی جاگیر نہیں رہی ہے ،حکومت، ہمیشہ ملک کی داخلی وخارجی سلامتی کے پیش نظر چلا کر تی ہے، ظلم اور طاقت کے نشے میں تانا شاہی کے ساتھ حکومت نہیں چلتی ، ہمیں مجاہدین آزادی کا شکریہ اداکرنا چاہئے ، جنہوں نے ایک آزاد ملک میں ” سب کا ساتھ سب کا وکاس اور سب کا وشواس "کے نعرے کے ساتھ ملک باسیوں کی خدمت کا ایک موقع فراہم کیا ہے ، جھوٹے وعدوں کے سہارے ایک سے دو بار توپبلک کو لبھایا جا سکتا ہے ،مگر بار بار کی آرزوفضول ہو گی،پبلک کو اس سے کوئی مطلب نہیں کہ اس کے مکھیا کا سینہ کتنے انچ کا ہے ،اسے تو روزگار ،تعلیم ،تحفظ،سیکوریٹی،بجلی ،پانی ،روٹی، کپڑا ،مکان اور زندگی جینے کی ضروریات وسہولیات چاہئے، حکومت چاہے جس کسی کی ہو ،اس کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے ملک میں بسنے والے تمام مذاہب کے لوگوں کا خیال رکھے ،امیر غریب سب کے تئیں اس کے دل میں جگہ ہو ،ملک کا شہری فٹ پاتھ پے رہتا ہو یا محل میں بستا ہو، پیار ومحبت ،امن چین ،روٹی کپڑا اور مکان سب کی ضرورت ہے۔اسی طرح عام لوگوں کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ آپس میں ماضی کی طرح پیار ومحبت کا ماحول بنائے رکھیں،دکھ سکھ میں ساتھ رہیں اور اپنے ملک کی ترقی اس کی بھلائی کے لئے ہم سے جو کچھ بھی ہوسکتا ہو اس میں پیچھے نہ رہیں ،ترقیاتی امور میں حکومت کا ساتھ دیں،ان کی طرف سے ہونے والے اچھے کاموں کی سراہنا کریں ،تعلیم کو عام کریں ،اسکول وکالج قائم کر غریبوں ،مزدوروں کسانوں کے بچوں کو بھی طاقت فراہم کریں ،عدلیہ کی مدد سے قانون کی بالادستی سب کےئے یکساں ہو ،انصاف کا حصول جلد اور آسان ہو ،مہاتماگاندھی اوردیگرمجاہدین آزادی کے خوابوں کا ہندوستان بنانے کے لئے بھیم راؤامبیڈ کر کے ذریعے لائے گئے ” آئین ہند” کو ہر حال میں بچایا جائے۔
…………………………………………..
* معہد عائشہ الصدیقہ رحمانی نگر کھاتوپور ،بیگوسرائے،851129 بہار
Comments are closed.