راحت اندوری : جن کی شاعری نے ہمیں حوصلے کا سبق پڑھا یا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محمد سیف اللہ رکسول

مبائل: 9939920785

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو ادب سے تعلق رکھنے والی جن شخصیتوں نے شاعری کی مختلف اصناف پر طبع آزمائی کر کے ادبی حلقے کو اپنی اہمیت وحیثیت کا احساس دلایا ان میں ایک بہت ہی نمایاں اور معتبر نام دنیائے اردو ادب کی قابل فخر اور اپنی شاعری کے ذریعہ کئی دہائیوں تک سنجیدہ دلوں پر حکومت کرنے والی عظیم شخصیت راحت اندوری صاحب کا بھی ہے کیونکہ انہوں نے جس معیار کی شاعری کی اور وہ اپنے شاعرانہ کلام کے ذریعہ فکر واحساس کے مجموعے کو جس طرح الفاظ کے پیکر میں ڈھال کر پوری زندگی ہمارے سامنے پیش کرتے رہے وہ بہت کم شاعروں کے یہاں دکھائی دیتا ہے۔

راحت صاحب کی زندگی سے جڑی تفصیلات کے مطابق ان کی پیدائش یکم جنوری، 1950ء کو اندور میں ہوئی ان کے والد کا نام رفعت اللہ قریشی تھا ان کی ابتدائی تعلیم نوتن اسکول اندور میں ہوئی،انہوں نے اسلامیہ كريميہ کالج اندور سے1973ء میں اپنی بیچلر کی تعلیم مکمل کی،اس کے بعد1975ء میں راحت اندوری نے بركت اللہ یونیورسٹی،بھوپال سے اردو ادب میں ایم اے کیا، اپنی اعلیٰ تعلیمی سند کے لیے 1985ء میں انہوں نے مدھیہ پردیش کے مدھیہ پردیش بھوج اوپن یونیورسٹی سے اردو ادب میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ وہ ایک اچھے شاعر اور گیت کار ثابت ہوئے ہیں۔ انہوں نے کئی بالی وڈ فلموں کے لیے نغمے لکھے ہیں جو مقبول اور زبان زد عام بھی ہوئے ہیں۔

راحت صاحب ایسے زندہ دل انسان تھے جن کی زندہ دلی شاعری میں صاف جھلکتی تھی،وہ بے باکی اور پوری جرآت کے ساتھ سچ بولنے اور اپنی فکروں کو اشعار کے سانچے میں ڈھال دینے کے عادی تھے،ساتھ ہی ظلم کوظلم اور ظالم کو ظالم کہ دینا ان کی ایسی فطرت کا حصہ تھی کہ ہر طبقے میں انہیں یکساں احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا،وہ نہ تو مصلحت پسندی کے قائل تھے اور نہ حالات کی گردش سے سمجھوتہ کر لینے کو انہوں نے کبھی اپنی شاعرانہ زندگی کا حصہ بننے دیا، راحت صاحب کی شاعری ایک عہد کا ترجمان اور خوابیدہ قوموں کے لئے زندگی کا پیغام تھی،وہ بولتے نہیں اندر سے جھنجوڑتے تھے بلکہ یہ کہ لیجئے کہ باتوں باتوں میں لہجے کے اتار چڑھاو سے وہ سب بیاں کر جاتے تھے جو کسی شاعر وادیب کا فرض ہوا کرتا ہے۔
کبھی وہ یہ کہ کر ملک میں مذہبی نفرت کی دھجیاں بکھیرتے کہ ۔۔۔۔
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستاں تھوڑی ہے

تو کبھی ان کا لہجہ اس انداز میں نئی نسل کو حوصلہ دیتا دکھائی دیتاہے۔۔۔کہ

روایتوں کی صفیں توڑ کر بڑھو ورنہ
جو تم سے آگے ہیں وہ راستہ نہیں دیں گے

ان کی بے باکی کبھی اس شعر کے ساتھ نمودار ہوتی ہے کہ ۔۔۔۔۔

میرے منہ سے جو نکلے وہی صداقت ہے
ہمارے منہ میں تمہاری شبان تھوڑی ہے

تو کبھی اس ملک کے چپے چپے پر اپنے برابر کے حق کا اعلان وہ اپنی شاعری میں اس طرح کرتے ہیں

ہمیں اپنی پہچان مٹانے کو کہا جاتا ہے

یہی وجہ ہے کہ اگر تنہائی میں ان کی شاعری گنگنائیے تو ایسا لگتا ہے کہ کوئی ہر طرف پھیلی تاریکی میں امید کی کرن بن کر ہمیں آواز دے رہا ہو،سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ ہر محفل میں میر محفل کی حیثیت سے اپنی انفرادیت کے جوہر بکھیرتے اور محفل پر اپنی سنجیدہ شاعری کے ذریعہ اس طرح چھا جاتے کہ بس ہر طرف انہی کی گونج سنائی دیتی، راحت صاحب فکر وخیالات کو الفاظ کے پیکر میں ڈھالنے اور انہیں پیش کرنے کا ہنر بھی خوب اچھی طرح جانتے تھے یہی وجہ ہے کہ ادبی حلقے میں ان کی انفرادیت مسلم تھی،وہ نہ صرف نئی نسل کو کامیابی کا گڑ بتا کر انہیں حوصلے کے ساتھ آگے بڑھنے کا سبق ہی نہیں پڑھاتے،بلکہ ہر طرح کے ظلم ونا انصافی کے خلاف جب اور جیسی ضرورت ہوتی بلا کسی خوف کے پوری قوت کے ساتھ بولتے ہوئے گزرتے۔۔۔۔۔کہ

اپنی پہچان مٹانے کو کہا جاتا ہے
بستیاں چھوڑ کر جانے کو کہا جاتا

لیکن :

اب کہ جو فیصلہ ہوگا وہ یہیں پہ ہوگا
ہم سے اب دوسری ہجرت نہیں ہونے والی

وہ اگر ایک طرف شاعری کے اسٹیج سے پوری ہمت اور صاف گوئی کے ساتھ حکومت کی غلط پالیسیوں کی نکتہ چینی کرتے نظر آتے تو وہیں قوم کو احساس کمتری سے باہر نکل کر پوری خود اعتمادی کے ساتھ زندگی کے میدان میں آگے کی طرف قدم بڑھانے کی تعلیم دیتے اور انہیں بتاتے کہ کامیابی کو گلے لگانے کے لئے حالات کو راہ کی ٹھوکر سمجھ کر آگے بڑھنا ہوتا ہے اور وہ بلا کسی خوف کے کہتے ہوئے نظر آتے ۔۔۔۔کہ

پھر اس کے بعد چاہے یہ زباں کٹتی ہے کٹ جائے
ہمیں جو کچھ بھی کہنا ہے علی الاعلان کہتے ہیں

راحت صاحب نے برسوں تک اردو ادب کے گیسو سنوارنے کے ساتھ کئی نسلوں کی اس طرح تربیت کی کہ آج پوری اردو دنیا میں قدم قدم پر آپ کے ایسے پروردہ افراد نظر آتے ہیں جن کو آپ نے اردو ادب کے ساتھ چلنے کا ہنر سکھایا تھا،راحت صاحب کو جہاں ان کی بہت سی شاعرانہ خوبیاں اپنے ہم عصروں میں ممتاز کرتی ہیں وہیں ایک اہم خوبی یہ بھی تھی کہ انہوں نے اپنی شاعری میں خود کو کسی کے نقش قدم پر چلنے کا عادی نہیں بنایا بلکہ اپنی راہ خود منتخب کی اور اس پر اس طرح سبک رفتاری سے چلتے رہے کہ یہ چیز آپ کی انفرادیت کا حصہ بن گئی،انہوں نے ایک حساس اور ذمہ دار فرد کی حیثیت سے اپنے گرد وپیش کا جائزہ لیا اور اپنے تجربات ومشاہدات کو پوری ذمہ داری کے ساتھ الفاظ کے پیکر میں ڈھالتے چلے گئے،تصورات کی دنیا میں دور تک پہونچا اور خیالات کے ذخیرے کو غزل کے روپ میں پیش کرنا بھی ان کی ہنر مندی کا حصہ ہے جسے ہم ان کا شاعرانہ امتیاز قرار دے سکتے ہیں۔

ان کے اشعار میں خودی سے خدا تک کے تصورات اور زمین سے آسمان تک کی باتیں ہیں اور یہی نہیں بلکہ وہ زندگی کے مختلف مسائل کو سلجھے ہوئے انداز میں پیش کر کے سماج کو جو آئنہ دکھاتے رہے ہیں اس سے شاعری کی دنیا میں ان کا قد نہایت بلند ہے اور اس حوالے سے ان کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ انہوں نے نہ صرف ہمیشہ الفاظ کو خیالات کے طابع رکھا ہے بلکہ حالات کے سامنے سر جھکا دینے کی بجائے نا آمیدی میں بھی امید کا چراغ جلائے رکھنے کی کامیاب کوشش کی جس میں وہ بہت حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں ان کے شاعرانہ کلام کے عقب سے ایسے شاعر کا کردار ابھرتا ہے جس کے سینے میں قلب گداز اور دل درد مند ہے جسے زندگی اور اس کی حسین قدریں عزیز ہیں جو انسانی محبت اور ہمدردی کے جذبے سے سرشار ہے،غزل کے بنیادی معنی سے ان کا رشتہ گہرا اور پائدار ہے  وہ کسی تحریک یا رجحان کے زائدہ یا پروردہ نہیں ان کے اثرات قبول کرنے میں بھی انہوں نے تامل سے کام لیا ہے وہ فکر وفلسفہ کی دبیز چادر کے نیچے اپنے خیال کی دھن کو نہیں چھپاتے بلکہ اسے اس خوبصورتی کے ساتھ اپنی شاعری میں اس طرح پیش کر دیتے ہیں کہ ۔

ابھی غنیمت ہے صبر میرا ابھی لبالب بھرا نہیں ہوں
وہ مجھ کو مردہ سمجھ رہا ہے اسے کہو میں مرا نہیں ہو ں۔
ان سب کے علاوہ یہ چیز بھی ان کی شاعرانہ امتیازیت کا حصہ ہے کہ وہ دلکش خوش آہنگ لفظوں اور تر کیبوں کو چننے اور انہیں صحیح جگہ بٹھانے کا کام اس ہنر مندی سے آتا ہے جیسے جوہری موتیوں کی لڑی تیار کرتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری نے ادب کے ایک بڑے طبقے کو ہی نہیں بلکہ ہر عمر کے لوگوں کو ایک ساتھ متاثر کیا اور ان کا مخصوص لب ولہجہ نہ صرف ان کی پہچان ہے بلکہ اپنے احساسات وجذبات کی پاکیزگی کے ساتھ شاعری میں جو لالہ وگل کھلاتے ہیں وہ یقینا ہمارے شعری سرمایہ کا ایک روشن باب ہے ۔
راحت صاحب کی کامیابی کا ایک بڑا راز پہ ہے کہ انہوں نے تکلف اور الجھے پن سے خود کو بہت حد تک الگ تھلگ رکھا جس کی وجہ سے ان کی  شاعری میں سلاست وروانی اور معنی آفرینی کی متاثر کن کیفیت پیدا ہوتی چلی گئی، ان کی شاعری میں نکتہ آفرینی کا رنگ بھی نمایاں نظر آتا ہے ان کا اپنا ایک مزاج اور رنگ وآہنگ ہے جس کی وجہ سے وہ عام روش سے الگ ہٹ کر شاعری کے میدان میں پورے اعتماد کے ساتھ چلنے کو اپنی فکر مندی کا حصہ بنائے رکھا،مجموعی طور پر یہ کہ لیا جائے کہ راحت صاحب نے جس معیار کی شاعری کی ہے اس میں اتنی وسعت اور اس وسعت میں اتنا رنگا رنگ مناظر ہیں جن کی معنویت کو ہم ان کے کلام کا مطالعہ کئے بغیر نہیں سمجھ سکتے ۔
وہ خود کہتے ہیں ۔۔۔

مجھ میں کتنے راز ہیں بتلاوں کیا
بند اک مدت سے ہوں کھل جاوں کیا
عاجزی،منت،خوشامد،التجا
اور میں کیا کیا کروں مرجاوں کیا

ویسے تو ان کے شاعرانہ کلام کئی دور کی ہیں مگر ان میں ان کا جو انداز یکساں طور پر ہمیں متاثر کرتا ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے انسانی فکر واحساس کو بڑے سلیقے سے شاعری کے روپ میں پیش کر کے اپنی شاعرانہ عظمت کا احساس دلایا ہے ۔یہ بات تو سبھی جانتے ہیں کہ انسانی فطرت کا قوی جذبہ عشق ہے یہی وہ جذبہ جسے اردو غزل  کی روح کہا جاتا ہے شاید یہی وجہ ہے کہ جب کوئی شاعر اشعار گنگناتا ہے تو آواز کے راستے دل کی گہرائیوں تک اتر جانے والا فرد انسان کو ایسی کیفیت سے دوچار کر دیتا ہے کہ اگر موقع ملے تو اپنا دل نکال کر اپنے محبوب کے سامنے رکھ دے،راحت صاحب کی شاعری میں بھی اسی طرح کی احساسی کیفیت موجود ہے ، ان کا اپنے محبوب سے گفتگو کا انداز بھی بڑا نرالا ہے وہ اپنے محبوب کو ان کی بے رخی پر طعنہ نہیں دیتے بلکہ اپنے آپ سے ہم کلام ہوتے ہیں اور یوں گویا ہوتے ہیں ۔۔۔
کس نے دستک دی دل پر،کون ہے
آپ تو اندر ہیں باہر کون ہے

محبت زندگی کی اساس ہو یا نہ ہو شاعری کی اساس ضرور ہے ، یہ محبت خواہ کسی انسانی پیکر سے ہو یا روحانی رشتے سے کسی نصب العین سے ہو یا مذہب ووطن سے جب تک اس کی شمع طاق دل میں فروزاں نہیں ہوتی شاعری کا نور باہر نہیں آسکتا اگر کسی کا دل محبت سے یکسر خالی ہے تو اس کی شاعری کچھ بھی ہو سکتی ہے لیکن اس پر بے نوری کا غلبہ رہے گا، فطری شاعری زندگی میں کبھی نہ کبھی محبت کا مقروض ہوتا ہے اور یہی قرض وہ زندگی بھر اشعار پڑھ کر اتارتا رہتا ،محبت کا مرکز بدل جاتا ہے موضوعات میں رنگا رنگی آجاتی ہے، مخاطبین بدل جاتے ہیں حتی کہ بعض اوقات نصب العین اور مطمح نظر بھی بدل جاتا ہے لیکن شاعری کی جو آگ محبت سلگاتی ہے وہ تا زندگی کسی نہ کسی طور پر سلگتی رہتی ہے،چنانچہ جب ان کے عشق کا رخ اپنے نبی کی طرف ہوتا ہے تو ان کی محبت کا احساس اس طرح شعر میں ڈھل کر سامنے آتا ہے ۔۔۔کہ

کچھ دن سے میری سوچ کی گہرائی بڑھ گئی
کچھ دن سے میری فکر کی اونچائی بڑھ گئی

نعلین جب سے آپ کے دیکھے ہیں خواب میں
محسوس ہو رہا ہے کہ بینائی بڑھ گئی

اور پھر عشق رسول کی گہرائی میں ڈوب کر یہاں تک کہ جاتے ہیں ۔۔۔۔کہ

زمزم وکوثر وتسنیم نہیں لکھ سکتا
یانبی آپ کی تعظیم نہیں لکھ سکتا

میں اگر سات سمندر بھی نچوڑوں راحت
آپ کے نام کی اک میم نہیں لکھ سکتا

راحت صاحب کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ اپنی شاعری میں حالات کے بدلتے تیور کا ذکر بھی بڑی خوبصورتی سے کرتے ہیں اس سلسلے میں ان کا انداز بھی دوسرے شاعروں سے کچھ مختلف ہے وہ نہ صرف زمانے کے ظلم وستم اور سیاست دانوں کے ظالمانہ رویہ پر تیکھا طنز کرتے ہیں بلکہ ان کا انداز اس بات کا ترجمان ہوتا ہے کہ وہ کسی کے سہارے زندگی جینے کو انسانیت کے منافی قرار دیتے ہیں چونکہ انہیں اس بات کا خوب احساس ہے کہ ظلم وستم کی اس بستی میں کوئی کسی کا نہیں ہوتا بلکہ کامیابی انہی کا مقدر ہوتی ہے جو ہر طرح کے حالات سے نبرد آزما ہوتے ہوئے خود کو عملی زندگی میں ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور بے ساختہ ان کی زبان سے نکلتا ہے ۔کہ

اگر خلاف ہیں،ہونے دو،جان تھوڑی ہے
یہ سب دھواں ہیں،کوئی آسمان تھوڑی ہے

پھر وہ سماج کے اندر نفرت کا زہر گھول کر سیاسی مفادات حاصل کرنے والوں کو مخاطب کر کے بڑی جرآت کے ساتھ کہتے ہیں ۔۔۔۔کہ

لگے گی آگ تو آئیں گے کئی گھر زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے

خیر! اب تو ہمیشہ کے لئے وہ آواز خاموش ہوگئی جس سے نئی نسل کو حوصلے کا سبق ملتا تھا اور جن کی شاعری مایوسی میں امید کی کرن بن کر ہمارے ساتھ ساتھ چلتی تھی لیکن انہوں نے اپنے پیچھے اپنی شاعری کے ذریعہ ہمارے لئے جو پیغام چھوڑے ہیں وہ برسوں تک ہماری راہنمائی کرتے رہیں گے اور ان کا یہ شعر ہمیں ان کی کمی کا احساس دلاتا رہے گا ۔۔۔۔کہ
میں مرجاوں تو میری الگ پہچان لکھ دینا
لہو سے میری پیشانی پہ ہندوستان لکھ دینا

Comments are closed.