راحت اندوری؛خصوصیات وامتیازات

بقلم: مفتی محمد اشرف قاسمی
مہدپور، اجین، ایم پی
تم ساپیارا، تم سا کوئی معصوم نہیں ہے
کیاچیز ہو تم؟خود تمہیں معلوم نہیں ہے
راحت اندوری ایک مصور، ایک فنکار، ایک شاعر ، ایک نغمہ نگار، ایک دانشور، اورمفکر کی حیثیت سے ادبی دنیا میں متعارف ہیں۔
تقریبا پندرہ سال قبل کی بات ہے ایک بڑے مرکزی ادارے(جس میں اُس وقت سری لنکا، بنگلا دیش، افریقہ کے کچھ طلباء بھی زیرِ تعلیم تھے) کے ذمہ دار اوربڑی بزرگ شخصیت (جن کے منتسبین مختلف ممالک میں بڑے بڑے دینی اداروں کے ذمہ دارہیں)کے پاس مَیں بیٹھا ہوا تھا۔اُس وقت نعتیہ مشاعرے کے سلسلےمیں اُن کوراحت اندوری کا فون آرہا تھا۔ اُن بزرگ نے حاضرینِ مجلس سے کہا کہ: تاریخِ مشاعرہ کے سلسلے میں راحت اندوری کا باربارفون آرہا ہے۔؟!
کسی نے جواباً کہدیا کہ:راحت کی زندگی مشاعروں کی خشک وتر ہواؤوں سے متاثر ہے۔ اس لئے نعتیہ مشاعرے میں ان کو نہ بلایاجائے. پھر میں نے بھی اُن صاحب کی تائید کردی۔
تھوڑی دیر کے بعد اسی مجلس میں دوبارہ راحت اندوری کا فون آیا اور ان بزرگ نے فون پر راحت اندوری کو اپنے یہاں منعقد ہونے والے نعتیہ مشاعرے میں آنے سے منع کر دیا ۔
میں نے اِس بات کو اپنی بہت بڑی فتح اور کامیابی سمجھ کراپنے بزرگوار برادر حضرت مولانا محمد معظم صاحب قاسمی دامت برکاتہم (صدر المدرسین:دارالعلوم قاسمیہ، مقادم کمپاؤنڈ ،فلم سٹی روڈ، ملاڈ،ایسٹ،ممبئی) سے بیان کیا، اس پر وہ مجھ پر سخت ناراض ہوئے اور خواجہ مجذوب الحسن صاحب کا واقعہ ذکر کیا کہ "ان کے سامنے مے خوارجگر مرادآبادی نے حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات کی جب خواہش کااظہار کیا، تو انہوں نے ان کوترغیب دے کرحضرت کے یہاں پہونچانے کی سعی کی اورحضرت سے ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ کہتے ہیں:
"ہم وہاں بھی شراب پئیں گے۔”
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا
"خانقاہ قومی ادارہ ہے،یہاں میں اپنی طرف سے اجازت نہیں دے سکتا،وہ میرے گھر آجائیں،وہ میرے مہمان ہوں گے۔”
بعد میں وہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے یہاں پہونچے اوراپنی طرزِحیات سے تائب ہوکرخشک و پاکیزہ زندگی جینے کے پابند ہوگئے۔”
برادر بزرگوار نے فرمایا کہ:
"اگر راحت اندوری اپنے بڑوں و بزرگوں کے دربار میں، مجلسوں میں، مشاعروں میں شرکت کریں، توہو سکتا ہے کہ بزرگوں کی صحبت کی برکت سے اللہ تعالی ان کو دین کے لیے قبول فرمالے۔اور حفیظ جالندھری نے جس طرح شاہنامۂ اسلام کی شکل میں اسلام کی خدمت کی ہے اسی طرح راحت کی شاعری کارُخ اسلام کی نقابت وترجمانی کی طرف ہوجائے۔تم نے غلط کیا کہ راحت اندوری کو نعتیہ مشاعرے میں، بزرگوں کی مجلس میں شرکت سے روکنے والوں کی تائید کی۔”
مجھے احساس ہوا کہ میں نے بہت غلط اوربڑا گناہ کیا ہے ۔راحت اندوری اس سلسلہ میں بروز محشر مجھ سے میں سوال کریں گے تو میرے پاس کوئی جواب نہیں ہوگا ، میں نے اسی وقت سوچ لیا تھا کہ اپنی اس غلطی کا کفارہ کسی طرح ضرور ادا کروں گا۔چنانچہ اس غلطی کا کفارہ ادا کرنے کا مجھے موقع اُس وقت ملا جب وِکرم یونیورسٹی اجین سے محترمہ شاہینہ صدیقی صاحبہ ڈاکٹر راحت اندوری پر پی۔ ایچ۔ ڈی۔ کررہی تھیں، تو انہیں علمی تعاون فراہم کرنے کے لیے میں نے راحت اندوری کی شاعری، فن اور زندگی کے مختلف پہلوؤں کے تعلق سے سیر حاصل مطالعہ کیااوردوسرے علمی تعاون کے ہمرشتہ ہم نے راحت کی دینی فکر و پاکیزہ سوچ کے بارے میں بھی معلومات اکٹھا کی، اس کے علاوہ راحت اندوری کی شاعری میں جہاں جہاں احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو موضوع بنایا گیا ان کو بھی میں نے صحاحِ ستہ سےجمع کردیا۔آج(11اگست2020ءکو) جب کہ بلبل ہزار داستان راحت اندوری ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگیا، اور مختلف مقامات سے لوگ ان کی زندگی پر قلم وزبان سے اظہار تعزیت کر رہے ہیں، تو میں نے ضروری سمجھا کہ اسی دنیا میں راحت سے اپنامعاملہ صاف کرنے کے لیے ان کے فن و زندگی کی خصوصیات پر دوبارہ کچھ لکھوں۔
*راحت زمین پرGrass rooters*
اجین اندورکے درمیان واقع ‘دیواس’ میں تقریباً 1950ء کوراحت کی پیدائش ہوئی۔ عہد طفلی میں اپنے والدین کےساتھ اندور لاۓ گیےتھے۔ یہاں راحت نے محرومیوں اور مجاہدوں کے ماحول میں جسمانی وذہنی نشو ونماحاصل کی۔
راحت کے چھوٹے بھائی عادل قریشی لکھتے ہیں
"ہم پانچ بھائی بہنوں میں راحت بھائی چوتھے نمبر پر ہیں۔ میں سب سے چھوٹا ہوں۔ راحت بھائی مجھ سے 6سال بڑے ہیں اندور کے نیا پورہ محلہ میں جب میں نے ہوش سنبھالا، راحت بھائی نوتن ہائی اسکول میں پڑھتے تھے ۔ تب راحت بھائی کو میں ‘چھوٹے بھائی جان’ کہا کرتا تھا گھر کی مالی حالت بہت خراب تھی۔ راحت بھائی نے بہت کم عمری ہی میں، جب وہ اسکول کے طالب علم تھے پیسہ کمانے کے لئے مختلف کام شروع کر دئے تھے۔ مثلاً انھوں نے سائن بورڈ بنانے کی دکان پر کام کیا۔ انہماک اور تندہی کا یہ عالم ابتدا ہی میں نظر آیا کہ رمضان شریف میں روزہ افطارکا وقت مصروفیت میں گزرجاتا تھا ۔ اوراماں چھگن پینٹر کی دکان پر افطاری لے کر دوڑتیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔کرایہ کی سائیکل لے کر چلاتے تھے اوراجرت کے بطور دکان کی سائیکل پر نمبر لکھاکرتے۔ کرایہ ہی کی سائیکل پر بٹھا کر ‘ملکی وے’اور’مہاراجہ’ تھیٹر میں فلمیں دکھانے راحت بھائی مجھے لے جاتے تھے ۔ اب بند ہوچکے ان سنیما ہالوں کا ٹکٹ سب سے کم ہوتا تھا۔ راحت بھائی کو نئےکپڑے سلوانے کا بہت شوق تھا۔ یہ دوسری بات کہ ان نئی پتلونوں یا قمیصوں کوپہلے میں پہنتاتھا۔ یہ سلسلہ ابھی کچھ سال پہلے تک جاری تھا تھا۔”
(عادل قریشی۔ لمحے لمحے ص427)
اس کے علاوہ اسلامیہ کریمیہ کالج اندور(جہاں بعد میں پروفیسر ہوئے) آفس بوائے کی حیثیت سے خاک روبی یاجاروب کَشی جیسی حوصلہ شکن خدمات بھی راحت نے انجام دیں ہیں۔
*آسودگیوں کے آسمان پر*
کشتی تیرا نصیب چمکدار کر دیا
اس پار کے تھپیڑوں نے اس پارکر دیا
1986ء کے بعد بے شمارممالک میں راحت اندوری کے دورے ہوئے۔ لاس اینجلس،نیو یارک، کیلیفورنیا، نیو جرسی، واشنگٹن، سن فرانسسکو، میری لینڈ ، کراچی، دبئی، دوحہ،(قطر) ابوظہبی, العلین، بحرین،مسقط اور نہ جانے کہاں کہاں راحت اندوری نے اپنی شاعری کی فسوں کاری کی ہے۔
راقم الحروف کے مشفق و مکرم حضرت مفتی محمد جنید صاحب فلاحی دامت برکاتہم کے ایما وارشاد کے مطابق اندور کے پاس مہو کے مضافات میں منعقد ہونے والے اپنے آخری نعتیہ مشاعرے میں بطور تشکر وامتنان اورتحمید باری کے راحت نے کہا تھا کہ
"مجھے دولت کی بھوک نہیں ہے ،دولت سے میری سانسیں پھولنے لگی ہیں، دنیامیں گھومتے گھومتے میرے پیر تھک گئے ہیں۔”
راحت کے انتقال کے بعد بے شمار لوگ راحت کی شاعری، شخصیت اور فن پر لکھ رہے ہیں۔ لیکن راحت کی زندگی ہی میں اسلامیہ کریمیہ کالج اندور سے کسی خاتون نے "راحت اندوری شاعر اور شخصیت” عنوان پر ایم فِل کا تحقیقی مقالہ لکھا تھا، چند سالوں قبل وِکرم یونیورسٹی اجین سے محترمہ شاہینہ صدیقی نے پی۔ ایچ۔ ڈی۔ ڈگری کے لیے "راحت اندوری شاعر اور فن” موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھا،جس میں راقم الحروف نے اپنا علمی تعاون پیش کیا تھا۔ 2002ء میں طارق شاہین اورعزیز عرفان صاحبان نے راحت کی حیات وخدمات اور فنی کمالات ومحاسن کو بیان کرنے والے ضخیم مجلہ "لمحے لمحے” کو "راحت اندوری شاعر اور شخص” سے معنون کرکے ملک کے مقتدر تر ین اصحاب فن کے ذریعہ راحت اندوری پر لکھے گئے مقالات وتاثرات کوخوبصورت، باریک خط میں ون ایٹ سائز کے ورق پر463/صفحات میں جمع کیا ہے۔
اس طرح محرومیوں کی زمین سے اُٹھ کر آسودگیوں وکرامتوں کے آسمان پر راحت پہونچے۔
اب ذیل میں راحت کی بعض خصوصیات وامتیازات پر کچھ باتیں ملاحظہ کریں۔
*گرے پڑے الفاظ سے کاشانۂ شاعری کی تعمیر*
کھٹیا وٹیا، مچان، کویلو، کھپریل، پیڑ ،کھنڈر ،اوڑھنی، بوڑھے، کواڑوں، ڈھونڈنے ، کوستا (مطعون کرنا)، برچھی، ڈھیر، پیا(شوہر، عاشق)جیا(دل، زندگی،روح) یہ سب انتہائی درجہ بھونڈے اورمکروہ الفاظ ہیں، لیکن راحت کی شاعری میں مختلف مواقع پر ان الفاظ کا استعمال ہوا ہے۔
راحت اندوری کی فنکارانہ صلاحیت اورخوبیوں و محاسن کو اہل فن بہتر طور سے سمجھتے اور سراہنہ بھی کرتے ہیں۔ مجھے حیرت کے ساتھ خوشی بھی ہوتی ہے کہ راحت اندوری کی شاعری میں ایسے الفاظ اور ایسے کلمات ملتے ہیں جو کسی دوسرے کے منہ سے یا دوسرے قلم سے جب استعمال ہوتے ہیں تووہ پوری طرح اپنی نکارت وہ کراہت لیے ہوئے ہوتے ہیں۔ لیکن وہی مکروہ و منکر الفاظ جب راحت اندوری کے کلام میں استعمال ہوتے ہیں تو یہی نہیں کہ ان کی شاعری اپنے تمام تر فنی محاسن کے ساتھ باقی رہتی ہے بلکہ وہ منکر الفاظ پُر شوکت وپُر جلال بن جاتے ہیں۔
انورجلال پوری نے راحت کے استیلائے فن کاتذکرہ کرتے ہوئے ان کے جسمانی رنگ کو جب بیان کرنا چاہا
تو احساس محرومی سے انہیں بچانے کے لئے حضرت بلال سے ان کا نسب جوڑنے کی انھوں نے کوشش کرڈالی۔ لیکن راحت نے اپنی شاعری کے ذریعے سے اپنے رنگ پرفخر کا اعلان کیا۔ ع
ہم ایسے پھول کہاں روز روز کھلتے ہیں
سیاہ گلاب بڑی مشکلوں سے ملتے ہیں۔
اوردوسری جگہ کہا کہ۔ ع
میں آئینوں سے تو مایوس لوٹ آیا تھا
مگر کسی نے بتایا کہ بہت حسین ہوں میں
یعنی ایک طرف راحت اپنی کاشانۂ شاعری میں گرے پڑے الفاظ کو انتہائی درجہ حسن و خوبی اور صفائی ودراکی کے ساتھ استعمال کرتے ہیں ،وہیں دوسری طرف استخفاف واہانت کا ذریعہ سمجھے جانے والے فکر وخیال پر کاری ضرب لگاتے ہیں۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کی راحت عبقری سخنور اور نابغہ روزگار شاعر تھا۔
اگرکوئی راحت اندوری کو اس طرف توجہ دلادیتا کہ حفیظ جالندھری کی طرح وہ اپنی شاعری کو اسلام کے تعارف اور اسلام کے بیان کے لیے استعمال کریں تو یہ ان کے لیے سرمایہ آخرت کے ساتھ ان کا بہت بڑا کارنامہ اور انقلابی اقدام ہوگا۔ لیکن افسوس ایسا نہیں ہوسکا اوروہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔اناللہ واناالیہ راجعون
*تحت اللفظ پرفارمینس*
راحت سے پہلے بھی مختلف شعرا نے تحت اللفظ میں اپنے کلام کو پیش کرکے سامعین کے دل ودماغ پر اپنا عکس ونقش قائم کیا ہے ۔ ان میں محمد حسین ، سردار جعفری ، کیفی اعظمی، نیازحیدر، اختر الایمان اوروحید اختر کے علاوہ ندا فاضلی ،شاد تمکنت، نذیر بنارسی، کشن بہاری نورشامل ہیں۔
لیکن راحت اندوری کا تحت اللفظ ان سب کا جامع بلکہ سب سے ممتاز نظر آتا ہے۔ راحت کا تحت اللفظ احساس وشعور کی گہرائیوں سے نکلتا ہے اور سامعین وناظرین کےشعور کی گہرائیوں میں اپنا اثر ونفوذ قائم کرتا ہے۔
اس کی آواز اوراعضاء اس کے اشعاروخیالات کی شکل اختیارکر لیتے ہیں، اس میں شکاری چیتے کا لوچ اور پہونچ ہے، اس میں کوبرا اور کرائٹ کی ڈس لینے کی کوشش کاعمل اورپیچ و تاب ہے، جوکلام کامسحورکن تصویر پیش کرتا ہے اور پوری توجہ ذہنِ شاعر کی دبوج میں آجاتی ہے۔
اس انداز پیشکش سے جہاں اصحابِ فن پرراحت کے کلام کی خوبی اورمحاسن کی بالادستی قائم ہوتی ہے۔ وہیں تحت اللفظ پرفارمنس راحت کے کلام کو سنگ و آہن ، فولادو بارود سے زیادہ طاقتور اور مضبوط بنا دیتا ہے۔انجام کارسامعین و ناظرین راحت کے اسیر ہو جاتے ہیں۔
*راحت کی شاعری میں قومی وبین الاقوامی حادثات*
راحت اندوری نے قومی اوربین الاقوامی سطح پر رونما ہونے والے اہم واقعات اورحادثات کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے،انھوں نے اپنی اس محنت سے ایک ایسی تاریخی دستاویز مرتب کردی ہے جو ہمارے عہد کو سمجھنے میں معاون و مددگار ہوگی ۔ساتھ ہی یہ ثبوت بھی پیش کیا ہے کہ شاعر اپنے سماج کی آنکھ، عہد کا دماغ ، زمانے کا ضمیر وقت کا شعور اور معاشرے کادل ہوتا ہے۔ جسے صرف لفظوں کی بازی گری اورذہنی تعیش پسندی کے علاوہ بھی کچھ ذمہ داری قبول کرنی پڑتی ہیں۔
*دو قوموں وملکوں کی ترجمانی*
1986ء بعد ہندوستان سے باہرکے مشاعروں میں راحت اندوری نے شرکت شروع کی ۔1992ء میں پاکستان کے ‘ارروز کلب ” کے گراؤنڈ میں ایک مشاعرہ منعقد ہوا، اس میں انہوں نے درج ذیل شعر پڑھا۔ ع
اب کے جو فیصلہ ہوگا وہ یہیں پر ہوگا
ہم سے اب دوسری ہجرت نہیں ہونے والی
اس شعر سے پورے مشاعرے میں بھونچال آگیا، کئی بار اسے پڑھوایا گیا۔ پاکستان کے تقریبا تمام اخبارات بشمول "جنگ”میں اس شعر کی شہ سرخی بنا ئی گئی۔
*حق گوئی وبے باکی*
راحت اندوری نے فلموں کے لیے بے شمار نغمات لکھے ہیں۔ جن میں منا بھائی ایم بی بی ایس کا نغمہ شامل ہے۔ اس نغمہ میں معاشرے کی اس صورت حال کی بہترین عکاسی کی گئی ہے جس میں موت کے کچھ سوداگر ڈاکٹر اور معالج کا مکھوٹا پہن کر معاشرے اور سماج میں موت اور تباہی پھیلارہے ہیں۔
اسی طرح راحت نے اپنے نغمات میں مختلف معاشرتی موضوعات کو پیش کیا ہے۔ نیزنغمات کے علاوہ مشاعروں کے اسٹیج پر آپ نے جوکلام پیش کیا ہے،وہ بھی بے باکی اور جرأت وہمت میں بے مثال ہیں۔
مثلاسن2002ءمیں جب سابرمتی ایکسپریس کی ایک سلیپرکوچ میں آگ لگائی گئی اور متعدد کارسیوک ہلاک ہوگئے۔ اس آگ زنی کو مسلمانوں کے سر تھوپتے ہوۓ یہ کہا گیا کہ مسلمانوں نے کوچ کو باہر سے بند کر کے پورے کوچ میں آگ لگا دی اور کا رسیوک اندر زندہ جل کر کے مرگئے۔
اورپھراسی کےردعمل میں پورے گجرات میں مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی۔
2002ء کے بعد لال قلعہ دلی میں ملک کی نامورشخصیات، بڑے ذمہ دار وزراء اور منسٹرس کی موجودگی میں راحت نے سوال کیا کہ: پورے ملک میں کوئی ایک ٹرین ایسی دکھلادو،جس کے سلیپر کوچ کے دروازے باہرسے بند ہوتے ہیں۔ ایک بھی ٹرین ایسی نہیں دکھائی جاسکتی۔جتنی ٹرینیں ہیں سب کے دروازے اندرسے بند ہوتے ہیں۔ گودھرا میں سابرمتی کادروازہ باہر سے نہیں بند ہوسکتا تھا، اس کا مطلب یہ ہے کہ آگ اندر سے لگی تھی۔ اور سزا مسلمانوں کو ملی۔
یہ سوال کرنے کے بعد راحت نے درج ذیل شعر کہا۔ ع
جن کا مسلک ہے روشنی کا سفر
وہ چراغوں کو کیوں بجھائیں گے
جو اپنے مُردوں تک کو نہیں جلاتے
وہ زندہ انسانوں کو کیوں جلائیں گے
یہ شعر مظلوم مسلمانوں کی طرف سےبہت طاقتور جواب تھا۔ کہ جو جرم مسلمانوں کی طرف منسوب کیا گیا اسے مسلمانوں کرہی نہیں سکتے۔
اور یہ ہمیشہ ہوتا رہا ہے کہ فرقہ پرست طاقتیں جرائم خودکرتی ہیں اور مسلمانوں کے سر تھوپ کر مسلمانوں کو ناکردہ گناہ کی سزا دیتی اور اپنے ظلم و ستم کے لیے مسلمانوں کو تختہ مشق بناتی رہتی ہیں۔
کھلی ناانصافیوں کے باوجود اہل ایمان کے بلند حوصلوں کو اپنی شاعری کا پیرہن عطاکرتے ہوۓ راحت نے کہا۔ع
شاخوں سے ٹوٹ جائیں وہ پتے نہیں ہیں ہم
آندھی سے کوئی کہہ دے کہ اوقات میں رہے
*راحت اندوری کی پاکیزہ سوچ*
عام شعراء کے تعلق سے یہ خیال لو گوں کے ذہنوں میں راسخ ہے یہ لوگ دل پھینک عاشق ہوتے ہیں۔ صنف نازک کے اجسام اور نسوانی تصورات سے وہ خوب خوب تذوق وتلذذ حاصل کرتے ہیں۔
لیکن راحت اندوری کا معاملہ مختلف ہے۔ اس سلسلے میں انٹروویو کی صورت میں حسیب سوز صاحب اور راحت کی گفتگو کا ایک حصہ ذیل میں نقل کرنا مناسب خیال کرتاہوں۔
سوال: میں پروفیسر راحت اندوری صاحب سے یہ جاننا چاہتا ہوں کی جب وہ کلاس میں میر کے اس شعر کی وضاحت فرما رہے ہوتے ہیں۔ ع
نازکی اس کے لب کی کیا کہئے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
اس وقت کلاس میں دیگر طلباء کے علاوہ اگر ان کی اپنی بیٹی بھی ہو تو کیا محسوس کریں گے؟
جواب. میرا تدریسی سلسلہ گریجویشن کلاسز سے شروع ہوا۔میں نے ایم اے کے درجات میں بھی طلبا و طالبات کو غزل پڑھائی۔ میری بیٹی حالانکہ میری اسٹوڈینٹ نہیں رہی، لیکن جن بچیوں کو میں نے پڑھایا وہ بھی میری بیٹیوں کی طرح رہی تھیں۔ عشق کا جذبہ محبت کی معراج ہے۔
میر کے اس شعر کو بازاری اوردل پھینک عاشقوں کے مکالمے سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔ عشق اپنی اس بلندی پر پہونچ کر جسم کی قید سے آزاد ہو جاتا ہے۔ اورصرف روح اورجذبے کی خوشبو اور روشنی باقی رہ جاتی ہے۔ غزل میں لفظ الگ الگ مقامات پر الگ الگ معنی خود پیدا کر لیتا ہے۔ یہاں شعرکو سمجھنے اور سمجھانے والے کی وسعتِ ذہنی پر انحصار ہوتا ہے کہ شعر کے ساتھ ساتھ کتنی دور تک اور کتنی گہرائی تک سفرکر سکتا ہے۔ اجنتا، الورا اورکھجوراہوکی برہنہ اور نیم برہنہ مورتیاں دیکھ کریا آدیواسی عورتوں کی کھلی چھاتیاں دیکھ کر کبھی واسنا کی چنگاری نہیں پھڑ کتی ۔ ع
‘پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے’
اس شعر میں سمجھنے سمجھانے کے لئے تو زیادہ کچھ نہیں ہے۔ اس سے بھی کھلے ہوئے اشعار کی مثالیں ہماری شاعری میں موجود ہیں جنہیں پڑھایا جاتا ہے۔ ”
(لمحے لمحے ص 456)
"نیوز ایٹین” نے ایک فرضی فتوی دارالعلوم دیوبند کی طرف منسوب کیا تھا،جس میں یہ کہاگیا تھا کہ "شادی کی تقریبات میں عورت ومرد ایک ساتھ کھانا نہیں کھا سکتے،”
اس پر ملحدین نے خوب تمسخر کیا، ان مستہزئین مین منطر بھوپالی بھی شامل تھے۔ سوءاتفاق کہ اپنے ٹیوٹر پر راحت اندوری نے بھی ریمارک دیتے ہوئے لکھا کہ۔
"کیا بیٹی اور باپ بھی شادی میں ایک ساتھ کھانا نہیں کھاسکتے؟ ”
اس طرح دارالعلوم دیوبند کے سلسلے میں ایک منفی بات راحت کی طرف منسوب ہوئی جو لائقِ مذمت اور قابلِ افسوس ہے۔
ہمارے دارالافتاء( مہد پور) کے معین مفتی محترم مفتی محمد توصیف صدیقی ٹیوٹ کی اسکرین شارٹ لے کر حضرت مفتی ابوالقاسم نعمانی دامت برکاتہم (مہتمم دارالعلوم دیوبند) کی خدمت میں گئے، پھر اس فتوی کی تحقیق ہوئی تو معلوم ہوا کہ نیوز ایٹین نے فرضی فتوی چلایا تھا۔جس میں ملحدین کےساتھ راحت اندوری نے بھی مندرجہ بالا ٹیوٹ جاری کیا تھا۔
ظاہر سی بات اس طرح جعلی فتووں پر کوئی سوالیہ ریمارک لگائے تو وہ کسی نہ کسی حد تک معذور ہوگا۔علماء اندور کی ذمہ داری تھی کہ وہ راحت کی رہنمائی کرتے۔ لیکن نیکو کاروں کے جزیرے سے کون باہرآئے؟!
*راحت اور عشق رسالت مآب ﷺ*
شعراء کی زندگی میں عموما مجازی عشق اورجام وسبو معیوب نہیں سمجھے جاتے ہیں، لیکن اہل ایمان شعراء ایسی اخلاقی فروتنی سے اگر متاثر ہوں تو بھی ان کے سینے عشق رسالت ﷺ سے معمور وآبادہوتے اور ان کے دل ودماغ میں حُب نبی کی ایسی روشنی اور چنگاری موجود ہوتی ہے جو کبھی بھی ان کی زندگی کے رُخ کو بدل سکتی ہے۔ اور ان کے ذریعہ دین اسلام کاعظیم کارنامہ انجام پاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں عربی شعراء میں محمد بوصیری(صاحبِ قصیدہ بردہ) اور اردو میں اختر شیرانی، اور حفیظ جالندھری کو بطور مثال پیش کیاجاسکتا ہے۔
دوسرے اہل ایمان شعراء
(مرتدین کے استثناء کے ساتھ) سےراحت کی حالت مختلف نہیں ہے۔ بلکہ انہیں اہل ایمان شعراء میں راحت اندوری کا بھی شمار ہوتا ہے جن کا سینہ عشق رسالت ﷺ سے آباد ہے۔
راحت کو حرمت رسالت ﷺ کا پاس ولحاظ کس قدر تھا؟ اس کا اندازہ اس واقعہ سے ہوتا ہے جب راجستھان کے ایک مشاعرے میں ایک بڑے ذمہ دارغیر مسلم شاعر مدہوشی کی حالت میں نعت پاک پڑھنے کے لیے ڈائس پر آئے، اور راحت کو محسوس ہوا کہ انہوں نے کچھ مُنَشِی مشروب پی ہے۔ توراحت نے انہیں یہ کہتے ہوۓ ڈائس سے ہٹا دیا کہ
"شراب لگی ہوئی ناپاک زبان سے میرے نبی ﷺ کا ذکر مجھے گوارا نہیں ہے۔”
راحت کی فنی برتری وفتحمندی سے کوئی صاحب ِ فن انکار نہیں کرسکتا، اورخود راحت نے اپنے کمال فن کا برملا اعلان و اظہار کیا ہے۔ اس کے باوجود ذکر حبیب ﷺ کے موقع پر ان کا عشق انہیں فن شاعری کے اسٹیج پر بے مائیگی وتہی دامنی کا احساس کراتاہے۔ اپنی زندگی کے آخری نعتیہ مشاعرے میں راحت کہتے ہیں کہ۔
"شعر وشاعری میرے لیے معمولی بات ہے، کئی بارایسا ہوا کہ حاضر ینِ مجلس میں سے متعددلوگوں نے چھوٹی بڑی بحروں میں مختلف موضوعات پر کلام موزوں کرنے کے لیے کہا، تو میں نے اسی مجلس میں فی البدیہہ
مختلف موضوعات پر اور مختلف بحروں میں اشعار کہہ کر دیدیا۔ لیکن جب نعت کی بات آتی ہے تو میں اندر سے لرز جاتا ہوں۔”
یہ ارتعاش عشقِ رسالت فداہ ابی امی کی وجہ سے پیداہوتا ہے۔
ذیل میں راحت کے کچھ نعتیہ اشعار ملاحظہ فرمائیں اورشافع المذبین صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق ومحب سے اپنے سینوں کو محلی وآراستہ کریں۔ ع
زمزم و کوثر و تسنیم نہیں لکھ سکتا
یا نبی آپ کی تعظیم نہیں لکھ سکتا
میں اگر سات سمندر بھی نچوڑوں راحت
آپ کے نام کی اک میں نہیں لکھ سکتا
صلی للہ علیہ وسلم۔
نعلین جب سے آپ کے دیکھے ہیں خواب میں
محسوس ہو رہا ہے کہ بینائی بڑھ گئی
لگا رکھی ہے لَو سرکار کے دربار سے میں نے
اسی دربار سے جنت کا زینہ پاس رہتا ہے۔
*آخری بات*
آخر میں دینی وملی جذبہ رکھنےوالوں کی خدمت میں دوباتیں عرض ہیں۔
1.وکلاء،خطباء، ڈاکٹرس کی طرح شعراء بھی ملت کا قیمتی سرمایہ ہیں، ان سے مرافقت اختیار کر کے ملی ودینی موضوعات پر بڑی بڑی خدمات حاصل جاسکتی ہیں۔
اس سلسلے میں خطہ مالوہ کی معروف شخصیت مشفق ومکرم مفتی محمد جنید دامت برکاتہم کی سوچ و فکر کو میں داد دوں گا کہ وہ عصری تعلیم یافتہ طبقوں سے کافی دینی ملی کام لیتے ہیں اور انہیں کارآمد بنانے کی فکر میں رہتے ہیں۔ حضرت والا نےراحت اندوری کی بھی کافی قدر کی ہے۔
2.حالات سے ہمیں مایوس نہیں ہوناچاہئے، کو شش جاری رکھنی چاہیے۔ جیسا کہ راحت اپنی کوشش و مجاہدوں کے ذریعہ محرومیوں کی زمین سے اٹھ کر آسودگیوں کے آسمان پہونچے۔ہمارے بچے بھی عروج واقبال کی منزلیں حاصل کرسکتے ہیں، لیکن اس کے لیے مایوسی سے باہر نکل کر مسلسل کوشش کرنا ضروری ہے۔
راحت کے لیے اقبال کے دعائیہ شعر پر اپنی بات ختم کرتاہوں۔ ع
آسماں تیری لحَد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نَورُستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
کتبہ:محمد اشرف قاسمی
خادم الافتاء: شہر مہد پور، اجین، ایم پی
2020/08/18ء
[email protected]
Comments are closed.