جمہوری نظام کی بات نہ کریں، انگریزی حکومت کا دور یاد کریں!

عزیز برنی
ماتم کرنے سے کچھ نہیں ہوگا، حقیقت کو سمجھنا ہوگا، آپ آج بھی یہ اُمید لگائے بیٹھے ہیں کہ ووٹ کی طاقت سے حکومت کو بدل دینگے، اگر آپ ایسا کر پاتے تو 2019 کے پارلیمانی انتخابات میں ہی کر لیتے، آپ کے پاس کئی ایسے ایشو تھے جنھیں سامنے رکھ کر حکومت کے خلاف ووٹ دینے کا ماحول بنایا جا سکتا تھا،کانگریس سمیت متعدد سیاسی پارٹیاں اس کوشش میں تھیں کہ نوٹ بندی کو،اس کی وجہ سے ہونے والی اموات کو، کسانوں کی خودکشی کو،جی ایس ٹی کو ایشو بنائینگے اور بی جے پی کو واپس سرکار میں نہیں آنے دینگے،عوام بھی بی جے پی سرکار سے خوش نظر نہیں آرہے تھے؛ لیکن پلوامہ ہو گیا اور الیکشن پلوامہ کی نظر ہو گیا، یہ کیوں ہوا…؟ کیسے ہوا…؟ کس کی ناکامی تھی… ؟كس کی سازش تھی اس بارے میں کوئی بات ہی نہیں، بس ملک کو بچانا ہے تو بی جے پی کو لانا ہے؛ اسلئے کہ دیش بھکتی کا سرٹیفکیٹ بس اُسی کے پاس ہے 1965کی جنگ 1971 کی جنگ پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کر بنگلہ دیش کا وجود میں آنا،کارگل میں پاکستان کی شکست یہ سب مودی سرکار سے پہلے کی باتیں ہیں؛ لیکن اب اگر مودی ہے تو دیش محفوظ ہے کا ماحول بنا دیا گیا ہے اور کوئی سیاسی پارٹی اپنی اہمیت ثابت نہیں کر پارہی ہے،میڈیا بی جے پی کے ساتھ تھا اور ساتھ ہے، نوٹ بندی کے بعد پیسہ صرف بی جے پی اور اُسکے پسندیدہ سرمایہ داروں کے پاس ہی رہ گیا؛ لہٰذا محدود ذرائع کے ساتھ الیکشن لڑنے کے علاوہ کوئی چارہ تھا ہی نہیں يا پھر جو بھی بھروسہ تھا وہ عوام کے مزاج پر تھا، یہاں بھی سیاسی پارٹیوں سے چوک یہ ہوئی کہ اُنہوں نے صورتِ حال کو سمجھا ہی نہیں، اُنہیں معلوم ہونا چاہیے تھا کہ ووٹ دینے کا اختیار ضرور عوام کے پاس ہے؛ لیکن ووٹ گننے کا اختیار صرف ای وی ایم کے پاس ہے اور ای وی ایم نہ تو عوام کے اختیار میں ہے اور نہ اپوزیشن پارٹیوں کے اختیار میں، ہاں آپ ای وی ایم کی گڑبڑی کے بارے میں شکایت درج کرنے کےلئے الیکشن کمیشن جا سکتے ہیں؛ لیکن وہ آپکے ماتحت نہیں ہے، اُسکا فیصلہ آپکے حق میں نہیں ہوگا، اگر آپ یہ نہیں جانتے تو آپ غلط فہمی کا شکار ہیں ۔۔۔جی ہاں! عدالت کا دروازہ آپکے لئے کھلا ہے؛ لیکن اُسکے حالیہ فیصلے بھی آپکے سامنے تھے، اگر یہ اندازہ بھی آپکو نہیں تھا تو آپ غلط فہمی کی دنیا میں جی رہے تھے اورجی رہے ہیں، آپ سوشل میڈیا میں اپنی بات رکھ کر اپنے حق میں ماحول بنا سکتے ہیں؛ لیکن حضور وہ بھی تو آپکے اختیار میں نہیں ہے فیس بک پر کیا جائیگا اور کیا نہیں یہ فیصلہ لینے والی آکھی سنگھ بھی تو اُنہیں کے ساتھ ہے۔۔۔
آخر ہے کیا آپکے پاس؟ کوئی منصوبہ،کوئی روڈ میپ آپ کے پاس نہیں، آپ بس اللہ کے بھروسہ پر ہیں،انتہا تو یہ ہے کہ ان تمام مخالف حالات کے باوجود بھی آپ کچھ ریاستوں میں اپنے دم پر یا اتحادیوں کے ساتھ ملکر سرکار بنا بھی لیں تو سرکاروں کو بچانے کا فارمولہ آپکے پاس نہیں ہے، آپکے ایم ایل اے خریدے جا سکتے ہیں، ڈرائے جا سکتے ہیں، لالچ میں ٹوٹ سکتے ہیں، گووا کی سرکار آپ نے گنوائی،کرناٹک میں آپکی سرکار گئی،مدھیہ پردیش میں آپکی سرکار نہ رہی، راجستھان میں کسی طرح سرکار بچ گئی ل؛یکن کتنے دِن کہنا مشکل ہے۔ مہاراشٹرا میں بی جے پی سرکار بنا ہی لیتی؛ لیکن شرد پوار کی مہارت نے یہ ہونے نہ دیا، جھارکھنڈ کی سرکار سے آپ بے فکر ہیں؛ لیکن بی جے پی پر اُمید ہے یعنی اگر کسی طرح آپ عوامی حمایت سے جیت بھی جائیں تو جیتنے والے بے وفا ثابت ہو سکتے ہیں۔
آپ 2022 میں پرینکا کے سہارے ہیں اور 2024میں راہل گاندھی کے سہارے ہیں، بیشک دونوں نے عوام کے درمیان مقبولیت حاصل کی ہے، لوگ ڈاؤن میں غريبوں مزدورں نے جو تکلیفیں اٹھائی ہیں وہ بھی اُنہیں سرکار کے خلاف جانے پر آمادہ کر سکتی ہیں؛ لیکن یہ صورت حال تو 2019 میں بھی تھی، پھر ہوا کیا 2022اور 2024 میں کیا ہو سکتا ہے کیا ہونے والا ہے اسکا اندازہ ہے کسی کو ہو بھی نہیں سکتا۔
آپ جانتے ہیں کہ آپ سچ کو سچ ثابت نہیں کر سکتے، وہ جھوٹ کو سچ ثابت کر سکتے ہیں، ملک کا ہندو اور مسلمان جب انگریزوں سے لڑ رہا تھا تب سنگھ پریوار انگریزوں کے ساتھ تھا اور آج وہی وطن پرست ہے اور اُس کی وطن پرستی پر کوئی سوال نہیں؛ جبکہ جو وطن کیلئے قربانیاں دے رہے تھے ظ،لم برداشت کر رہے تھے، پھانسی پر چڑھائے جا رہے تھے، آج اُن پر غدّار ہونے کا الزام ہے اور کوئی یہ کہنے والا نہیں کہ ملک کی آزادی تو انہیں کی مرہونِ منّت ہے جن پر تم الزام لگا رہے ہو۔
تاریخ بدلی جا رہی ہے، سچ مٹایا جا رہا ہے، جھوٹ پھیلایا جا رہا ہے اور آپ آدھی صدی سے زیادہ ملک پر حکومت کرنے کے باوجود لاچار اور مجبور ہو، رونا رونے کے سوا آپ کچھ کر ہی نہیں پا رہے ہیں ۔آخر یہ بے بسی کیوں اور کب تک۔۔۔۔۔
کورونا ۔۔۔۔آفت کو مواقع میں بدلنے کا موقع ہے، وزیرِ اعظم نے یہ کہہ دیا اور جنکو سمجھنا تھا وہ سمجھ گئے اور انہوں نے موقع میں تبدیل کر لیا، نہ آپ آواز اٹھانے کا ہنر جانتے ہیں نہ عوام کے جذبات کی ترجمانی کر پا رہے ہیں کیسے بدلیں گے آپ نظام کو کیسے بچائیں گے آپ جمہوریت کو، ہے کوئی منصوبہ آپکے پاس؟ ۔
اُنکے پاس سب کچھ ہے، ملک کا اثاثہ بک رہا ہے، بیچنے والے ملک کے وفادار ہیں، ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح غیر ملکی کمپنیاں ہندوستان کو اپنی گرفت میں لے رہی ہیں، امیر اور بھی امیر ہوتے جا رہے ہیں، غریب کے پاس دو وقت کی روٹی بھی نہیں ہے؛ لیکن یہ سرکار اب تک کی سب سے بہترین سرکار ہے، دھنیہ ہے پربھو آپ مهان ہو آپ جیسا کوئی نہیں۔۔۔۔۔؛کیوں لکھ رہا ہوں میں یہ سب۔۔۔۔ کس کے لیے ۔۔۔۔کون پڑھنے والا ہے اسے۔۔۔۔۔ کون اسے پڑھ کر روڈ میپ بنانے میں لگنے والا ہے ۔۔۔۔۔شاید کوئی نہیں ۔۔۔۔کوئی نہیں۔!!!
Comments are closed.