حرف کوبدل کر تلاوت کرنے والے کی امامت

۔
?دارالافتاء شہر مہدپور?
کوئی امام سورہ مزمل میں ذا غصةٍ عذابا الیما پڑھے جب کہ درمیا ن میں” وَ” ہے اورسورہ قیامہ میں "خسف القمر” میں "س” کی جگہ "ش” پڑھے اور آگاہ کرنے پر کہے ہم تو اسی طرح پڑھیں گے۔ تو اس صورت میں کیا نمازدرست ہو تی ہے؟اورایسے امام کے پیچھے اس کوجاننے والے کی نماز ہوتی ہے یانہیں؟اگرنہیں تو کیا نماز اکیلے پڑھےگا یا پھر امام کے پیچھے پڑھ کر نماز کو دوبارہ پڑھے گا؟ مع دلائل جواب عنایت فرمائیں۔
محمد نسیم (اچھاور، ایم پی)
*الجواب حامدا ومصلیا ومسلما امابعد*
پہلی صورت(جس میں حرف واو چُھوٹا ہے۔) میں نمازہوجائے گی۔ قصدا واو یا کسی کلمے کو چھوڑنا کتابتِ قرآن و قرأت کے اصول کے خلاف اور تحریف کے مشابہ ہونے کی وجہ سے ممنوع ہے۔
دوسری صورت یعنی "خسف” میں "س” کی جگہ پر "ش” پڑھا، اور ایسا قصدا کیا تو نماز نہیں ہوئی۔(1)
اوراگر غلطی سے پڑھا ہے یا "س” کو اس کے مخرج سے نکالنے پر قادر نہیں ہے تو نماز ہوگئی۔ اس کی اقتدا میں نماز درست ہے۔ اعادۂ نماز کی ضرورت نہیں ہے۔ (2)
اصول یہ ہے کہ اگر قریب المخارج حروف میں سبقت لسانی کی وجہ سے یا مشق کی کمی کی وجہ سے اَدل بدل ہوجائے، مثلا: ’’ظا‘‘ اور ’’ضاد‘‘ ’’طا‘‘ اور ’’تا‘‘، یا ’’ہا‘‘ اور’’حا‘‘وغیرہ، تو متأخرین کے نزدیک مطلقاً نماز فاسد نہ ہوگی، الا یہ کہ کوئی شخص قصداً غلط پڑھے، تو پھر یقینا فساد نماز کا حکم لگایا جائے گا۔ (3)
قابل غور بات یہ ہے کہ امامِ صلوۃ ایک ذمہ دار شخص ہوتا ہے۔ اس سے ایسی بات کی امید نہیں کی جاسکتی ہے کہ اسے غلطی پر متنبیہ کیاجائے، اور وہ اپنی اصلاح کے بجائے ایسا جواب دے۔
ممکن ہے کہ ان کی غلطی پر تنبیہ کرنے والوں نے ان کی شان میں بے ادبی کی ہو یا ابھیں ملامت کی ہو، ایسی صورت میں غصہ میں آکر بطور رد عمل انہوں نے سوال میں ذکر کردہ جواب دیا ہو، تووہ معذور ہیں۔ انہیں قصداً "س” کو "ش” پڑھنے والا مان کر فساد نماز کا حکم نہیں لگایاجائے گا۔ اوراگر واقعی مخلصانہ انداز میں نرمی کے ساتھ ان کی غلطی کی اصلاح کے لیے فہمائش کی گئی؛ لیکن وہ "س” کو "ش” پڑھنے پر بضد ہیں تو نہ ان کی نماز درست ہوگی۔ اور نہ ہی ان کے کسی مقتدی کی نماز درست ہوگی؛ اس لیے انہیں دوبارہ محبت و نرمی سے سمجھایا جائے۔ اگر قصدا پڑھنے سے تائب ہوجائیں تو اگر چہ مشق کی کمی کی وجہ سے وہ "س” اور "ش” میں فرق نہ کرتے ہوں ،ان کی مسجد میں باجماعت نماز کی ادائیگی کے لیے آنے والے تمام نمازی ان کی اقتدا میں نماز ادا کریں۔ اوراگر فہمائش کے باوجود وہ ضد کی وجہ سے قصدا "س” کو "ش” سے بدل کر پڑھتے ہیں، تو انہیں امامت سے معذول کرنا ضروری ہے۔ ان کے پیچھے کسی کی اقتدا درست نہیں ہے۔
مسائل سے ناواقف نئے قُرّا حضرات؛ قدیم اماموں کی قرات کے حوالے سے بسا اوقات بڑی ناسمجھی کا مظاہرہ کرتے ہوئے صحت نمازکے سلسلے میں اس قسم کے تبصرے کردیا کرتے ہیں؛ اس لیے ذیل میں جواہر الفقہ سے مزید اس مسئلہ کو منقح کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
حروف کو ادل بدل کر تلاوت کے سلسلے میں تفصیلی کلام کے بعد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب نوراللہ مرقدہ بطور خلاصہ لکھتے ہیں:
"حاصل یہ ہوا کہ عوام کی نماز بلا کسی تفصیل و تنقیح کے بہرحال صحیح ہو جاتی ہے ۔ خواہ وہ "ظاء” پڑھیں یا "دال” یا "زاء” ؛ کیوں کہ وہ قادر بھی نہیں اور سمجھتے بھی نہیں ہیں کہ ہم نے اصلی حروف ادا کیا ہے۔
اور قُرّا و مُجَوِّدِین اور علما کی نماز کے جواز میں تفصیل مذکور ہے کہ: اگر غلطی قصدا یا بے پروائی سے ہو تو نماز فاسد ہے۔ اور سبقت لسانی یاعدمِ تمیز کی وجہ سے ہے توجائز ہے۔” (جواھرالفقہ: ج1، ص 338 و 339)
جو شخص کسی حرف کو صحیح ادا کرنے پر قادر نہ ہو اس کی اقتداء کے جواز کے بارے میں حضرت مولانا ظفر احمد تھانوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں۔
"3. جو شخص الثغ نہ ہو؛ لیکن اس وقت کسی حرف کے صحیح تلفظ پر قادر نہ ہو وہ بھی بحکم الثغ ہے۔ پس ہرچند کہ صحیح و مختار قول یہی ہے کہ الثغ کی امامت غیر الثغ کے لیے درست نہیں اور اس کا مقتضی یہ ہے کہ صحیح خواں کی اقتداء ایسے شخص کے پیچھے جائز نہ ہو جوحروف کو صحیح ادا نہ کرتا ہو۔ مگر اس وقت ضرورت کی وجہ سے امام فضلی کے قول پر فتوی دینے کو جی چاہتا ہے۔ خصوصا حرف "ضاد” کے مسئلہ میں؛ کیوں کہ عام طور پر قُرّاء تک اس کو غلط پڑھتے ہیں؛ لہذا قاری کی اقتدا غیر قاری کے پیچھے درست ہے۔ البتہ اس شخص کے پیچھے صحیح نہیں جو بحالت موجودہ تصحیح حروف پر قادر ہے، مگرغفلت یا بے توجہی یارعایتِ عوام کی وجہ سے کسی حرف کو مثلا ضادکو اصلی مخرج سے نہیں نکالتا؛ کیوں کہ وہ بحکم الثغ نہیں، بلکہ عمدا غلط پڑھنے والا ہے۔”
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة الله عليه نے اس فتوی کی تصدیق وتصویب فرمائی ہے۔
(جواھرالفقہ: ج1/ص341)
(1) ان تعمد ذالک تفسد، وان جری علی لسانہ او لایعرف التمیز لایفسد، وھوالمختار (حلیۃ) وفی البزازیۃ وھو اعدل الاقاویل وھوالمختار (ردالمحتار: ج1/ ص 592، مصری)
(2) وفی الدر المختار : ولا غیرالالثغ بہ، ای بالالثغ، علی الاصح، کمافی البحر عن المجتبی، وحورالحلبی وابن الشحنۃ انہ بذل الجھد دائما حتما کالامی فلایؤم الا مثلہ (الی ان قال) ھذا ھوالصحیح۔ والمختار فی حکم الالثغ من لا یقدرعلی التلفظ بحرف من الحروف۔
وفی الردالمحتار: قولہ علی الاصح، ای خلافالھا فی الخلاصۃ عن الفضلی من انھا جائزۃ لان مایقول صارلغۃ، ومثلہ فی التاتارخانیۃ وفی الظھیریۃ ۔ ۔۔ ومن المشائخ : انہ ینبغی لہ ان لا یؤم غیرہ،
(الردالمحتارمع الدرالمختار: ج1/ ص608 و 609، مصری)
(3) قال في الخانیۃ والخلاصۃ: الأصل فیما إذا ذکرحرفاً مکان حرف وغیر المعنی، إن أمکن الفصل بینہما بلا مشقۃ تفسد، وإن لاَّ یمکن إلا بمشقۃٍ، کالظاء مع الضاد المعجمتین، والصاد مع السین المہملتین، والطاء مع التاء۔ قال أکثرھم: لا تفسد۔ وفي خزانۃ الأکمل، قال القاضي أبو عاصم: إن تعمد ذٰلک تفسد۔ (شامي: 2؍396 زکریا، طحطاوي 186)
فقط
واللہ اعلم بالصواب
*کتبہ: محمد اشرف قاسمی*
خادم الافتاء:
شہر مہدپور ،
ضلع اجین (ایم پی)
۲۹؍ ذی الحجہ ۱۴۴۱ھ
20؍ اگست 2020ء
[email protected]
تصدیق:
مفتی محمد سلمان ناگوری،
ناقل:
(مفتی) محمد توصیف صدیقی
(معین مفتی: دارالافتاء شہر مہدپور)
Comments are closed.