صبح کی بات فہیم اختر ندوی کے ساتھ

صبح کی بات
فہیم اختر ندوی
السلام علیکم
بات یہ نہیں ہے کہ ہم کیا ہیں، اور کیا سوچتے ہیں۔۔ بات یہ ہے کہ ہم کیا بولتے اور کیا کرتے ہیں۔۔ سوچ تو اپنی ہوتی ہے، اپنے اندر ہوتی ہے، اور اپنی خوبیوں پر بنی ہوتی ہے۔۔ تو یہ درست ہی ہوتی ہے، اور خود بنتی اور نکلتی ہے۔۔۔
لیکن دوسرے بھی تو اپنی سوچ بنائے ہوتے ہیں، اور وہ الگ بن گئی ہوتی ہے۔۔ پھر وہ اپنی سوچ سے بولتے ہیں، اور اپنی نظر سے دیکھتے ہیں۔۔ پھر ان کی باتیں اٹھتی رہتی ہیں، لوگوں کو الجھاتی رہتی ہیں، اور دوریاں بنتی رہتی ہیں۔۔۔
تو ہم یہ دیکھیں کہ ہم کیا بولتے ہیں اور کیا کرتے ہیں۔۔ یہی کارگر ہوتا ہے، اور یہی اسلوب زمانہ کہلاتا ہے۔۔ قرآن نے یہ اسلوب بتایا اور نبی اکرم ﷺ نے یہ طریقہ اپنایا ہے۔۔
قرآن نے مکی سرداروں کی خرابیاں گنائیں، سماجی نقصانات دکھائے، ان کی خود غرضی بخل و لالچ بدکرداری اور بدزبانی بتائی۔۔ پھر مسلمانوں کی ایمانی پختگی ایثار وقربانی صبر وفیاضی اور سماجی فائدے دکھائے۔۔ اور اسی زبان اور انداز میں سنایا جو وہ بول اور مان رہے تھے۔۔ تو ان کی زبانیں گنگ اور دلائل کند ہوگئے۔۔۔۔۔ نبی کریم ﷺ نے مقابلے کے میدانوں میں ان کے ہمسر و ہم پسند افراد اتارے، احد کے پہاڑ پر ان کے لہجہ میں جواب سنائے، حدیبیہ کی صلح اور مکہ کی فتح دونوں میں ان کے بیانئے اپنائے۔۔ لیکن جواب طاقتور اور انداز حوصلہ مند تھا۔۔۔
یہی وقت کا بیانیہ ہوتا ہے، جواب کا دبدبہ اسی لہجہ میں ابھرتا ہے، اور یہی مضبوط دفاع کے ساتھ طاقتور اقدام ہوتا ہے۔۔۔ تو یہ انداز اپنانا ہوتا ہے، اور یہ اسلوب سیکھنا اور برتنا ہوتا ہے۔۔ قرآن کا استدلال اور نبی ﷺ کا استقلال اسی کی تعلیم دیتا ہے۔۔۔
ہمارے موضوعات دو طرح کے ہیں۔۔ ایک وہ جو اسلام کی پہچان اور انسانیت کی شان ہیں۔۔ ان پر گفتگو بند نہیں ہوگی، یہی بتانا مقصود اور سکھانا مطلوب ہے، یہی دین اور حق کی دعوت ہے، جو ہر علاقہ کی زبان میں ہوگی، اور فکر مندی کا سامان رہے گی۔۔۔ دوسرے وہ سوالات ہیں جو رنگ بدل کر اور موقع بے موقع ابھار کر لائے جاتے ہیں۔۔ تو یہاں گاہے سمجھداری کام آتی ہے، اور گاہے اچھی بات کہہ جانے کا موقع آجاتا ہے۔۔
تو جواب میں وہ مت لائیے جو آپ ہیں اور سوچ رکھتے ہیں، وہ بولئے جو وقت کا بیانیہ بنا ہوتا ہے، یعنی دلیل وہ دیجئے جو وہ بولتے اور سمجھتے ہیں۔۔ یاد رکھئے کہ ایک اچھا عصری جملہ لمبے چوڑے دلائل پر بھاری پڑجاتا ہے۔۔۔
تو اب بیانیوں کا مقابلہ ہے، یعنی جواب اور اقدام میں بات کا انتخاب اور اسلوب کام آتا ہے۔۔ یہی تو اشتہار میں بھی ہوتا ہے نا، اسی پر سیاست کی بساط بچھتی ہے اور مباحثہ کی بزم پلٹتی ہے۔۔۔ تو کوئی بیانیہ بہت غور سے طے ہوتا ہے اور متفقہ موقف درشاتا ہے۔۔۔
ہم بولنے اور لکھنے میں بیانیہ کو دیکھیں، مشورے کریں، ذہانت اور فطانت برتیں، زبان اور لفظیات چنیں۔۔ خوشی ہے کہ یہ ہو بھی رہا ہے۔۔ تو مذہبی دلائل بھی اب اسی رنگ میں آنے ہیں، اور ان افراد کو بھی یہ زبان واسلوب سیکھنے اور برتنے ہیں۔
ہم اچھی امیدیں رکھتے ہیں۔
خدا حافظ
22 اگست 2020
2 محرم 1442
Comments are closed.