عصری درس گاہوں کے طلبہ وطالبات کے لئے شرعی تعلیم کی ضرورت!

عصری درس گاہوں کے طلبہ وطالبات کے لئے شرعی تعلیم کی ضرورت محمدجمیل اخترجلیلی ندوی

 

 

اس وقت ملک ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت چوطرفہ خستہ حالی کاشکارہے، معاشی، سیاسی، دینی ، اخلاقی اورتعلیمی تمام شعبوں میں ان کی سطح گرتی ہوئی نظر آرہی ہے؛ بل کہ گرچکی ہے، جس کی وجہ سے ان کے اوپرمصائب کے پہاڑٹوٹے ہوئے ہیں، پھریہ مصیبتیں کسی ایک طرف سے نہیں؛ بل کہ چومکھی ہیں؛ حتی کہ ان کے ایمان کے ساتھ ساتھ ان کی شہریت کامسئلہ بھی منھ کھولے اژدہے کی مانندکھڑاہے۔

 

اس وقت کی دنیاپرمادیت کاغلبہ ہے اورجوشخص مادیت کے اعتبارسے اونچے مقام پرہوتاہے، دنیااسے سلام ٹھوکتی ہے؛ کیوں کہ اس مادیت کے ذریعہ سے نہ ہونے والے کام بھی کرائے جاسکتے ہیں، خصوصیت کے ساتھ اس ملک کی حالت تویہی ہے، اگرآپ قاتل ہیں، اگرآپ زانی ہیں، اگرآپ غاصب ہیں، اگرآپ مجرم ہیں؛ لیکن آپ کے پاس دولت ہے، آپ کے پاس پیسہ ہے توگھبرانے کی ضرورت نہیں،آپ ملک چھوڑکردوسرے کسی بھی ترقی یافتہ ملک کے لئے رخت سفرباندھ سکتے ہیں؛ بل کہ ممکن ہے کہ آپ کے اس سفرکے لئے خودبڑے بڑے عہدہ داران آپ کی مددکریں اوراگرخدانخواستہ آپ پرواز نہیں کرپائے توبھی ڈرکی کوئی بات نہیں، ہرفیصلہ آپ کے حق میں ہوسکتاہے، بس تھوڑی چمک دکھانی ہوگی کرنسی کی؛ لیکن اگریہ چمک بھی عدالت میں کام نہ آسکے اور بدقسمتی سے فیصلہ آپ کے خلاف ہوجائے توبھی عیش آپ ہی کے ہیں، جیل بھی آپ کے لئے کشمیر سے کم نہیں۔

 

یہ بھی ممکن ہے کہ آپ جرم کرنے کے بعد فوراً برسراقتدارپارٹی جوائن کرلیں، آپ کے سوخون نہیں؛ بل کہ ہزاروں خون معاف، یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک کے اکثرنیتا ایسے ہیں، جن کے اوپرکئی کئی مقدمات درج ہیں؛ لیکن ٹھاٹ سے وہ جی رہے ہیں، وہ سب کام کررہے ہیں، کوئی بھی چیز ان کے لئے مناہی نہیں،بسااوقات توپوری پارٹی کے اراکین ، سوائے گنتی کے چندکوچھوڑکر، ہی مجرمین کی ٹولی ہوتی ہے، ظاہرہے کہ ایسی صورت میں معاشرہ کی گت کیاہوگی؟ یہ آپ خودبھی جانتے ہیں، بہرحال ! ہمارے پاس مادیت بھی نہیں ہے، جس کی وجہ سے ہم بے قصورہونے کے باوجودمجرم بنے پھررہے ہیں۔

 

ملک میں قانون جوبھی ہو، دستورجونسابھی ہو، بات ان لوگوں کی چلتی ہے، جس کے ہاتھ میں ملک کی باگ ڈورہوتی ہے، ہم خواہ جتنابھی چیخیں، جتنابھی چلائیں، ہماری بات پرکان دھرنے والاکوئی نہیں، ملک کی آزادی کے بعداس کامشاہدہ خوب ہوا، ہم کانگریس کے ساتھ چلتے رہے اوروہ ہماری جڑیں کاٹتی رہے، واقعی مسلم قوم اتنی بھولی ہوتی ہے، ان کے سان وگمان میں بھی نہیں ہوگا، ملک میں جتنے فسادات ہوئے، دوچارکوچھوڑکر، کانگریسی اقتدارمیں ہی ہوئے، پھربھی ہم نے ساتھ نہ چھوڑا، بابری مسجد میں مورتی رکھنے سے لے کراس کی شہادت تک، سب کالے کارنامے اسی کے اقتدارمیں انجام پائے، پھربھی ہم اس کے ساتھ ایسے چپکے رہے، جیسے جونک؛ بل کہ ہمارے رہنماہرالیکشن میں یہی تقریرکرتے رہے کہ ووٹ کانگریس کوہی دیناہے؛ حتی کہ آج تک یہی کہتے آرہے ہیں؛ البتہ اب لفظ بدل گیاہے، کانگریس کی جگہ لفظ ’’سیکولر‘‘ نے لے لیاہے؛ لیکن اس سے مرادیہی کانگریس ہی ہے، یہی وجہ ہے کہ کئی علاقوں کی مسلم اوردلت پارٹیوں کے خلاف بھی ہماری طرف سے کمپین کی گئی اورلوگوں کے ذہن ودماغ میں یہ بات ڈالنے کی کوشش کی گئی کہ اس ملک میں مسلم قوم کی قسمت کا مالک کانگریس ہی ہے، بات کڑوی ضرورہے؛ لیکن زمینی حقائق یہی ہیں، خلاصہ یہ ہے کہ آج تک ہم سیاست میں مضبوطی کے ساتھ قدم نہیں رکھ سکے؛ بل کہ سیاسی طورپر غلام ہی رہے، جس کاخمیازہ آج ہمیں بھگتناپڑرہاہے۔

 

بات اگردینی اوراخلاقی کی کریں تواس میں بھی ناکام ہیں، قوم کی اکثریت دین پرعمل پیرانہیں ہے، اگرکچھ ہیں بھی تووہ پورے نہیں، آدھاتیترآدھابٹیروالامعاملہ ہے، نماز کی پابندی ہے تومعاملات میں کچے ہیں، معاملہ میں ٹھیک چل رہے ہیں توعبادت میں کوتاہی ہے، اوراخلاق کاپوچھناہی نہیں، ہمارے بچہ بچہ کی زبان پر ماں بہن کی گالی ہوتی ہے، ذراسا دھکا نہیں لگتاکہ مرنے مارنے پراترآتے ہیں، ہمارے مسلم علاقے تو غنڈہ گردی میں اتنے مشہورہیں کہ بالی ووڈ نے اس پرکئی فلمیں ریلیز کردیں، اورآج نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے پڑوس میں کوئی غیرمسلم رہنے کے لئے تیارنہیں، یہ بات بھی ماننی ہوگی کہ ہماری بداخلاقی کاچرچابھی کچھ زیادہ کیاگیا؛ تاکہ سیاسی طورپرہمارے کھلے اورچھپے دشمن خوب خوب فائدہ اٹھاسکیں اوریقیناوہ اس میں کامیاب بھی ہیں۔

 

تعلیمی لحاظ سے بات کریں توبس رونے کے سواکچھ نہیں نظرآتا، آبادی کے تناسب سے اگردیکھیں تو43%غیرتعلیم یافتہ ہیں، جس کامطلب یہ ہواکہ 57%ہم تعلیم یافتہ ہیں، یہ سن کرشایدآپ خوش فہمی میں مبتلاہوجائیں؛لیکن دیگربڑے مذاہب سے موازانہ کیاجاتاہے توپھرافسوس ہوتاہے، سکھوں میں تعلیم کاتناسب 67.5%، بدھ مذہب میں 71.8%، عیسائیوں میں74.3%اورجین میں سب سے زیادہ84.7%ہے، یہ رپورٹ این ایس ایس اوکے 2018کے سروے کے مطابق ہے،پھریہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہئے کہ یہ رپورٹ ہماری 14.2%آبادی کے تناسب سے ہے، جب کہ ہماراماننا یہ ہے کہ ہم اس سے زیادہ ہیں توظاہرہے کہ تعلیمی سطح اسی اعتبارسے ہوگی۔

 

پھرجو57%تعلیم یافتہ ہیں، ان کی اکثریت دین بیزارہے؛ کیوں کہ انھیں دین کی تعلیم نہیں ملی، اس میں کوتاہی چاہے جس کی بھی ہو؛ لیکن دین کی تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے اسکولس اورکالجوں میں پڑھنے والے طلبہ کی ایک بڑی تعدادشریعت کے تعلق سے شکوک اورشبہات میں مبتلاہیں، ان کے ساتھ پڑھنے والے ٹرینڈیافتہ غیرمسلم بچے جب اسلام کے تعلق سے کچھ اعتراضات کرتے ہیں تووہ یاتوخاموش رہتے ہیں یاپھریہ کہتے ہوئے نظرآتے ہیں کہ: ہاں! یہ تومجھے بھی سمجھ میں نہیں آرہاہے کہ ایسا کیوں ہے؟‘‘، پھراس کے ساتھ ساتھ یہ بات تشویش ناک ہے کہ ہماری قوم کی بچیوں کی ایک بڑی تعدادارتدادکاراستہ اختیار کررہی ہے، اوریہ ان علاقوں میں زیادہ ہورہاہے، جہاں اسکول اورکالج کی تعلیم قابل ذکرہے؛ چنانچہ گزشتہ تین سالوں کی ایک رپورٹ پیش کی گئی ہے، جس میں چنئی، کوئمبتور، ترچی، مدورائی، سیلم اورحیدرآبادکی 20,000سے زائد لڑکیوں نے غیرمسلم مردوں سے اپنی شادیاں کرلی ہیں، ظاہرہے کہ یہ سب صرف اسی وجہ سے ہے کہ انھیں شریعت کی صحیح تعلیم نہیں دی گئی ہے، اگرصحیح شرعی تعلیم دی جاتی تویقیناایسانہیں ہوتا،یہ سیلاب ہمارے گھرمیں بھی قدم رکھ سکتاہے، اگراس سے بچنے کی فکرنہ کی جائے۔

 

مقام خوشی ہے کہ فاران ایجوکیشنل اینڈچیری ٹیبل ٹرسٹ کی جانب سے اسکول اورکالجز کے طلبہ وطالبات کے لئے آن لائن تین ماہ کابنیادی شرعی تعلیم کورس شروع ہونے جارہاہے، جس کاآغاز ان شاء اللہ یکم ستمبر۲۰۲۰(01/09/2020) سے ہوگا، جس میں قرآن (کم ازکم دس سورتیں)، عقائد، ضروری مسائل، حقوق اورذمہ داریاں، اسلامی آداب و معاشرت اوراسلامی احکامات پرہونے والے اعتراضات کے جوابات سے متعلق روزانہ ایک گھنٹہ کی تعلیم ہوگی،جس میں اس وقت کاخیال رکھاجائے گا، جواسکول یاکالج کی تعلیم کے اوقات سے ٹکراتانہ ہو، جس کی فیس بھی موجودہ دورکے اعتبارسے معمولی، یعنی صرف پچیس سوروپے(2500/-)رکھی گئی ہے، رابطہ کے لئے واٹس اپ نمبر:9576971884ہے، نیز [email protected]بھی رابطہ کیا جاسکتا ہے، اس کورس کی خاص بات یہ ہے کہ اس کے حاصل کرنے والوں کے لئے عمرکی کوئی قید نہیں ہے، بس میٹرک یااس کے مساوی تعلیم حاصل کی گئی ہو،امیدکہ ایمان کی حفاظت کے لئے اس سنہرے موقع سے فائدہ اٹھایاجائے گا۔

 

آج کل لاک ڈاؤن کا زمانہ بھی چل رہاہے اورطلبہ وطالبات فری بھی ہیں، اس سے بہترموقع اورکہاں میسرہوسکتاہے، اپنے نونہالوں کی اورخوداپنی بھی فکرکیجئے، آپ ذمہ دارہیں، قیامت کے دن پوچھ بھی آپ ہی سے ہوگی، پیغمبراسلام نے واضح طورپر فرمادیا ہے:’’ تم میں سے ہرشخص ذمہ دارہے اوہرایک سے اس کی ذمہ داری کے تعلق سے پوچھ ہوگی‘‘، اورقرآن نے بھی صراحت کے ساتھ کہاکہ:’’ اپنے آپ کواوراپنے گھروالوں کوجہنم کی آگ سے بچاؤ‘‘،اورظاہرہے کہ یہ اسی وقت ہوگا، جب کہ اس سے بچنے کاطریقہ معلوم ہوگا، جوشریعت کی تعلیم کے علاوہ سے نہیں مل سکتا، باقی فیصلہ آپ کاہے۔

Comments are closed.