راحت اندوری کے انتقال سے چمپارن کا ادبی حلقہ حد درجہ مغموم

…………………………عاصی چمپارنی
یوں تو راحت اندوری کے انتقال سے پوری اردو دنیا غمزدہ ہے اور سوگ میں ڈوبی ہوٸی ہے مگر ان کے جانے سے چمپارن کے ادبی حلقوں میں ماتم سا چھایا ہوا ہے
ڈاکٹر راحت اندوری اس دور کے ایک عظیم اور حق گو شاعر تھے ان کا چمپارن سے بہت گہرا لگاؤ تھا وہ اکثر چمپارن کے مشاعروں میں شرکت کرتے رہتے تھے یہاں کے عوام و خواص میں وہ کافی مقبول تھے راحت اندوری کو یاد کرتے ہوۓ چمپارن کے مشہور و معروف ناقد و شاعر ڈاکٹر نسیم احمد نسیم کہتے ہیں کہ راحت اندوری صرف ایک عظیم شاعر و فنکار ہی نہیں بلکہ ایک زندہ دل انسان اور گنگا جمنی تہذیب کے سچے علمبردار تھے ، ان کی خوش مزاجی اور زندہ دلی کا یہ عالم تھا کہ غمزدہ انسان کو بھی اپنے مخصوص اور منفرد انداز سے ہنسنے پر مجبور کر دیتے تھے راحت اندوری مشاعرے کے اسٹیج پر چھوٹے شعرا کی بھی بھرپور حوصلہ افزاٸی کرتے تھے، ان کے جیسا البیلا شاعر صدیوں بعد پیدا ہوتا ہے،
چمپارن کے مشہور و معروف شاعر شکیل معین فرماتے ہیں کہ راحت اندوری خراب سے خراب ماحول کو بھی اپنے چند اشعار کے ذریعے سازگار بنانے کا فن جانتے تھے ،ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ انہوں نے غزل کو ایک نیا اسلوب دیا جدید رنگ و آہنگ دیا اہل سیاست کی بے راہ روی اور فریب کاری پر ضرب لگانا اور پوری صداقت کے ساتھ ان کی کمیوں کو گنانا اور حل پیش کرنا ان کے داٸیں ہاتھ کا کھیل تھا ،
نامور شاعر ڈاکٹر ظفر امام قادری کہتے ہیں کہ راحت اندوری ایک فکر اور انجمن کا نام ہے انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے ہمیں ایک سوچ اور نٸ فکر دی ان کا ہر شعر سماج کی ناہمواریوں پر سیدھی چوٹ کرتا ہے
نوجوان شاعر حسن اکرام کے مطابق راحت اندوری کو ہر طبقہ اور ہر سماج پسند کرتا تھا وہ ہر دل میں بستے تھے وہ جہاں بھی جاتے تھے اپنی چھاپ چھوڑ آتے تھے
بزرگ شاعر ابولخیر نشتر فرماتے ہیں کہ راحت اندوری کی شاعری میں جادو گری تھی وہ جس بات کو کہنا چاہتے تھے اپنی شاعری میں کہہ جاتے تھے اپنے فن پر انہیں مکمل عبور حاصل تھا،
مشہور صحافی سیف اللہ کے مطابق راحت صاحب ایک ایسے زندہ دل انسان تھے جن کی زندہ دلی ان کی شاعری میں صاف جھلکتی ہے، وہ بے باکی اور جرت مندی کے ساتھ سچ بولنے اور اپنے افکار کو اشعار میں ڈاھال دینے کے عادی تھے وہ بے دھڑک ظلم کو ظلم اور ظالم کو ظالم کہہ دیتے تھے
معروف شاعر ظفر حبیبی کہتے ہیں کہ راحت اندوری کا انتقال اردو تہذیب کے ایک عہد کا خاتمہ ہے ان کے انتقال سے نہ صرف اردو مشاعرے کو نقصان ہوا ہے بلکہ ہر ثقافتی مرحلے میں مرحوم کی کمی شدت سے محسوس کی جاٸیگی
استاد شاعر ڈاکٹر تفضیل احمد فرماتے ہیں کہ راحت اندوری کی شاعری سماج کے آخری پاٸدان پر کھڑے لوگوں تک آسانی سے پہونچتی ہے ان کی شاعری حالات حاضرہ کی عکاس ہے
شاعر گلریز شہزاد کے مطابق راحت اندوری نے سماج کو شاعری سے قریب لانے میں نہایت اہم کردار ادا کیا ہے وہ اپنی شاعری سے سامعین کے دلوں کو فتح کرنے کا ہنر خوب جانتے تھے
معروف افسانہ نگار فاروق راہی کا کہنا ہے کہ ڈاکر راحت اندوری سہل ممتنع میں بھی گہری باتیں کرتے تھے ان کا خیال بہت بلند تھا وہ اپنی باتوں سے عوام کے دلوں کو چھو لیتے تھے اور ان کی شاعری عوام کو باندھ کر رکھتی تھی وہ حکمرانوں کے غلط فیصلوں کے خلاف کھل کر بولتے تھے
صحافی عزیر انجم کے مطابق راحت اندوری کی رحلت سے علمی ادبی و شعری حلقہ سوگوار ہے وہ اپنی مخصوص فنکاری کی وجہ سے مشاعرے کی دنیا میں بے حد پسند کیٸے جاتے تھے ان کی رحلت میرے لیٸے قلبی صدمہ ہے
شاعر اور صحافی عقیل احمد شاد کہتے ہیں کہ راحت صاحب نے کبھی اپنے اوپر ڈر اور خوف کو حاوی نہیں ہونے دیا وہ جو کچھ بھی کہتے تھے بے دھڑک اور پوری آزادی کے ساتھ کہتے تھے،
سید عارف لکھنوی کے مطابق راحت اندوری عصر حاضر کی غزل گوٸی کی آبرو تھے، وہ حق و صداقت کے طرفدار اور انسانیت کے علمبردار تھے،
نوجوان شاعر عاصی چمپارنی اپنے تعزیتی پیغام میں کہتے ہیں کہ ڈاکٹر راحت اندوری پوری صداقت اور بے خوفی کے ساتھ ظلم کے خلاف آواز بلند کرتے تھے، حکمرانوں پر طنز کرتے ہوۓ قہقہہ لگانے کا انکا انداز سب سے جدا اور منفرد تھا، وہ نٸ نسل کے شاعروں کے لیٸے مشعل راہ تھے ،
راحت اندوری کے انتقال پر چمپارن کے سبھی مغموم شاعروں نے انہیں اپنے اشعار کے ذریعے خراج عقدت پیش کیا ہے ،چند نمونے ملاحظہ فرمائیں
نغمہ۶ غم ہمیں سناۓ گا
اب وہ راحت کہاں سے آۓ گا
مار کر طنز حکمرانوں پر
کون اب قہقہہ لگاۓ گا
سناکے سب کو حقیقت کا فسانہ چلا گیا
وہ جس کو سن رہا تھا سارا زمان چلا گیا
چراغ بن کے جو محفل میں لٹاتا تھا روشنی
تلاش کر کے نیا اپنا ٹھکانہ چلا گیا
عاصی چمپارنی
شہرت ترے لیٸے تھی تو عزت ترے لیٸے
تھی معتبر نہ کچھ بھی قیادت ترے لیٸے
پروردگار بخش دے جنت کرے عطا
کرتے ہیں ہم دعا یہی راحت ترے لیٸے
روح الحق ہمدم
حضور حق میں دعا مغفرت کی کرتا ہوں
کرم کی اس سے دعا آخرت کی کرتا ہوں
تری لہد پہ ہو برسات نور کی راحت
دعا میں تیرے لیٸے عافیت کی کرتا ہوں
قمر چمپارنی
دیکھو ادب کا تاج سخنور چلا گیا
باغ غزل کا شاخ تناور چلا گیا
کرتا تھا بات صاحب مسند سے چیخ کر
بے باک شاعری کا قلندر چلا گیا
صبا اختر شوخ چمپارنی
اردو ادب کا دوستو تارا چلاگیا
کہتے ہیں سب کے درد کا مارا چلا گیا
اشعار جسکے درد کے مرہم تھے اے کلیم
جیتا نہ جنگ موت سے ،ہارا چلا گیا
کلیم اللہ کلیم
اردو ادب کو جس نے کہ سینچا تھا خون سے
اشعار پڑھ رہا تھا جو کافی جنون سے
آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے کرتا تھا گفتگو
میں کہہ رہا ہوں بات یہ پورے یقین سے
عزیر سالم
حقیقت جب سخنور بولتا تھا
رگ جاں میں اتر کر بولتا تھا
مزاج وقت کا نباض تھا وہ
حقیقت کو دکھاکر بولتا تھا
ڈاکٹر اختر صدیق
ہوگٸ دو گذ زمیں انکو وطن کی جو نصیب
معبر بھارت میں ان کی اب زمیں داری ہوٸی
ظفر حبیبی
اے ادب کا پاسباں اے شاعرِ ہندوستاں
تیری رحلت پر ہے ڈوبا غم میں یہ سارا جہاں
شاعری کا تو ہی بیشک تھا یہاں اک آسماں
ناز کرتا ہے تمہاری شاعری پر گلستاں
فصیح اختر فصیح
راحت کی مثل مدتوں لاٸی نہ جاۓ گی
لوہے کی یہ لکیر مٹاٸی نہ جاۓ گی
اللہ بخش راحتیں راحت کی روح کو
اشکوں سے غم کی آگ بجھاٸی نہ جاۓ گی
سید عارف لکھنوی
انکے علاوہ چمپارن کے سیاسی سماجی ثقافتی حلقوں نے بھی انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوۓ اپنے رنج و غم کا اظہار کیا ہے
Comments are closed.