Baseerat Online News Portal

ایگریکلچر ساٸنس اور قران قول سدید : مفتی احمد نادر القاسمی  اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا

ایگریکلچر ساٸنس اور قران

قول سدید : مفتی احمد نادر القاسمی

اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا

 

اللہ تعالی نے ۔بڑی تفصیل سے سورہ انعام آیت نمبر٩٥۔اور٩٩۔میں زمینی پیداوار کی کیفیات پرروشنی ڈالی ہے۔چنانچہ ارشاد ربانی ہے:”إن اللہ فالق الحب والنوی۔یخرج الحی من المیت ومخرج المیت من الحی۔ذلکم اللہ فأنی تٶفکون“(بےشک اللہ ہی دانے اور گٹھلی کو {زمین۔کی تہ میں)پھاڑنے والےہیں۔جوزندے کومردے سے نکالتے ہیں اورمردے کو زندے سے نکالتے ہیں۔وہی تو تمہارا اللہ ہے ۔پھرتم کہاں پلٹے جارہے ہو؟)۔اورآگے ارشاد ہے:۔”وھوالذی أنزل من السما ٕ ما ٕا فأخرجنابہ۔نبات کل شیٸ فأخرجنامنہ خضرا نخرج منہ۔حبامتراکبا۔ومن النخل من طلعھا قنوان دانیة وجنات من أعناب والزیتون والرمان متشابھا وغیر متشابہ۔أنظرو إلی ثمرہ إذا أثمر وینعہ إن فی ذالک لآیات لقوم یٶمنون “(سور انعام۔٩٩){اور وہی رب ہے جس نے آسمان سے پانی برسیا پھر ہم نے اس کے ذریعہ سے ہرقسم کے نباتات کونکالا ۔پھر ہم نے اس سے سبز شاخ نکالی کہ اس سے ہم اوپرنیچے دانے چڑھے ہوۓ نکالتے ہیں ۔اورکھجور کے درختوں کےگچھوں میں سے زمین کی طرف لٹکے ہوۓ خوشے۔نیز۔انگور۔زیتون اورانارکےباغات جن میں سے بعض ایک دوسرے کے جیسے ہیں۔۔اوربعض الگ الگ ہیں۔۔جب اس کاپھل آجاۓ تو اس کودیکھو اوراس کے پکنے کودیکھو۔بیشک اس میں ان لوگوں کے لٸے نشانیاں ہیں ۔جو ایمان رکھتے ہیں )

اسی طرح سورہ زمر میں ہے:”ألم ترأن اللہ أنزل من السما ٕ ما ٕا فسلکہ ینابیع فی الارض ثم یخرج بہ زرعا مختلفاألوانہ ثم یھیج فتراہ مصفرا ۔ثم یجعلہ حطاما ۔إن فی فی ذالک لذکری لأولی الألباب“(زمر۔٢١)۔{کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالی آسمان سے پانی اتارتا ہے اور اسے زمین کے سوتوں (لیٸر)میں پہونچاتاہے۔پھراسی کے ذریعہ سے مختلف قسم کی کھیتیاں اگاتاہے۔پھر وہ خشک ہوجاتی ہیں اور آپ انہیں زرد رنگ میں دیکھتے ہیں ۔پھر انہیں ریزہ ریزہ کردیتاہے۔اس میں صاحب عقل کے لٸے بہت نصیحتیں ہیں)

اسی طرح واقعہ میں ہے ۔:”أفرأیتم ماتحرثون ۔أأنتم تزرعونہ أم نحن الزارعون ۔لونشا ٕ لجعلناہ حطاما فظلتم تفکھون“(سورہ واقعہ۔٦٣۔۔٦٥)(اچھاپھر یہ بتاٶ کہ تم جوکچھ بوتے ہو ۔(کھیتوں)میں ۔اسے تم ہی اگاتے ہو یاہم اسے اگانے والے ہیں ۔اگر ہم چاہیں تو اسے ریزہ ریزہ کر ڈالیں اور تم حیرت کے ساتھ باتیں ہی بناتے رہ جاٶ۔)

اسی طرح سورہ ۔ق۔میں ۔اللہ نے ارشاد فرمایا:”ونزلنا من السما ٕ ما ٕامبارکا فأنبتنا بہ جنات وحب الحصید“۔والنخل باسقات لھا طلع نضید۔رزقاللعباد وأحیینابہ بلدة میتا کذلک الخروج“ (سورہ ق۔٩۔١١(اورہم نے آسمان سے بابرکت پانی برسایا اوراس سے باغات اورکٹنے والے غلے پیداکٸے اور کھجوروں کے بلندوبالا درخت جن کے خوشے تہ بہ تہ ہیں ۔بندوں کی روزی کے لٸے ۔اور ہم نے پانی سے مردہ شہر کو زندہ کردیا۔اسی طرح ۔قبروں سے۔نکلنے کا عمل ہے۔)

اس ضمن میں ایک اور بہت اہم آیت ہے:”وھو الذی أنشأ جنات معروشات۔وغیر معروشات والنخل والزیتون والرمان متشابھاوغیر متشابہ۔کلوا من ثمرہ أذاأثمر وآتوا حقہ یوم حصادہ ولاتسرفوا إنہ لایحب المسرفین“(انعام۔١٤١۔)۔{اوروہی ہےجس نےباغات پیداکٸے ان چیزوں کے بھی جن کو ٹٹیوں پرچڑھایاجاتاہے اور ان کے بھی جنھیں نہیں چڑھایاجاتا اورکھجور کے درخت اورکھیتی جن میں کھانے کی چیزیں مختلف انواع کی ہوتی ہیں اور زیتون اور انار جوباہم ایک دوسرے کے مشابہ ہیں اور مشابہ نہیں بھی ہوتے۔۔ان سب کے پھلوں سے کھاٶ جب وہ نکل آٸیں ۔اور اس میں جو حق واجب ہے وہ اس کے کاٹنے کے دن دیاکرو اور حد سے مت گذرو یقیناوہ حد سے گذرنے والوں کو پسند نہیں کرتاہے}۔اس آیت میں خاص طورسے بیلوں والی سبزیوں اور پھلوں کا ذکرہے۔۔گویا اس ان کے اگانے کے طریقے بتاۓ گٸے ہیں ۔جیسے ۔لوکی ترٸی۔کھیرے ۔انگور ۔کڑیلے وغیرہ ۔یہ بیل والے ۔خضروات ومیوے ہیں ۔۔

سورہ عبس میں اللہ تعالی نے۔ان کھیتیوں اورباغات کی لہلہانے اوراترانے والی رعناٸیوں کو اس پیراٸے میں بیان کیاہے:”فلینظر الإنسان إلی طعامہ۔أناصببنا الما ٕ صبا ۔ثم شققنا الأرض شقا۔فأنبتنافیھاحبا۔وعنباوقضبا ۔وزیتوناونخلا۔وحداٸق غلبا۔وفاکھة۔متاعالکم ولأنعامکم“(سورہ عبس۔٢٤۔۔٣٢){انسان کوچاہٸے کہ وہ اپنے کھانے کو دیکھے۔کہ ہم نے۔خوب پانی برسایا ۔پھرہم نے اچھی طرح زمین ۔میں شگاف پیداکیا۔پھر اس میں سے اناج أگاٸے۔اور انگور اور ترکاری بھی۔۔اورزیتون اور کھجور اور گھنے باغات ۔اورمیوہ ۔اورچارہ۔[گھاس]بھی اگایا ۔تمہارے استعمال اورفاٸدے۔اورتمہارے مویشیوں کے لٸے )

پھرسور انعام کی ان

آیتوں کے علاوہ مضمون کو توحید کی طرف پھیرتے ہوۓ آیت ١٠١ میں زمین وآسمان کی اور اس کے درمیان کی ہرشیٸ کی تخلیق کاتذکرہ کرکے اللہ نے یہ بتایاہے کہ تمہارارب بس وہی ہے اور وہ اکیلاہے اس کا کوٸی شریک وسہیم نہیں ہے۔اسلٸے عبادت توتم بس اسی کی کرو ۔اس کے علاوہ کاٸنات کی کسی شی کو لاٸق پرستش مت گردانوں ۔

یہ چیزیں اللہ کی طرف سے معرفت کی دلیلیں اور نشانیاں ہیں ۔ان کے علاوہ ۔انبیا ٕ اور آسمان سے ۔کتابیں بھی تمہارے پاس آچکیں۔اب تسلیم حق میں ادھر ادھر کی باتیں مت بناٶ ۔اگر کوٸی ان باتوں کو حق سمجھتاہے تو اس کے حق میں بھلاہے۔اور جواس سے غافل رہ جاتاہے تو وہ ایک اندھے بہرے شخص کی مانند ہے جومعرفت حق سے عاری ہے۔”قدجاٸکم بصاٸرمن ربکم۔فمن أبصر فلنفسہ۔ومن عمی فعلیھا وماانا علیکم بحفیظ“۔(سورہ۔انعام۔ایت۔ ١٠٤)

اب دیکھنا یہ کہ کس طرح مالک کاٸنات نے ان آیات میں زمینی پیداوار کے طریقے بتاۓ ہیں۔اور زمین میں پیداہونے والے غلوں کی پیداوری ترتیب اورایگریکلچر ساٸنس سے انسان کو روشناس کرایاہے۔

جب تک رب کاٸنات نے انسان کو یہ نہیں بتایاتھا کہ زمین بغیر نمی کے پیداواری صلاحیت رکھنے کے باوجود ۔غلے پیدانہیں کرسکتی۔ پودے کی پرورش نہیں کرسکتی اور نہیں اناج اگا سکتی ہے ۔اس وقت تک اس راز{ساٸنس}سے انسان بے بہرہ تھا۔اورجب رب کی کرم فرماٸی سے اس سے واقف ہوگیا تو اس نے اس معرفت۔کو عطیہ الہی تسلیم کرنے کے بجاۓصرف ساٸنس کانام دیدیا ۔جیسے ان ساری چیزوں سے آگاہی میں خود اس کا اپنا کوٸی کمال ہو۔۔

جولوگ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں ۔وہ اپنے علم و معرفت اور ساٸنس غرضیکہ ہرچیز کے بارے میں ۔یہ کہتے ہیں ۔کہ یہ جوکچھ بھی ہے ۔یہ سب اللہ رب کریم کا عطیہ ہے۔”ھذامن عنداللہ“۔

۔١۔آیت میں بیان کردہ یہ جملہ ”وأنزل من السما ٕ ما ٕا“ اس ٹکڑے سے معلوم ہوتاہے کہ زمین اگر خشک اور بنجر ہو تو اس میں پودے نہیں اگ سکتے۔ پودے اگنے اور کونپل نکلنے کے لٸے زمین میں نمی کا پایاجانا ضروری ہے۔..اس لٸے اللہ تعالی پہلے پانی برساتاہے ۔اور اس کے بعد یاتو انسان زمین میں داناڈالتاہے جن سے غلوں کی پیداوار ۔دھان ۔گندم۔۔دال کے اقسام ۔تیل کے اقسام گننے اور سبزیوں کی مختلف قسمیں وغیرہ۔سامنے آتی ہیں۔ ۔یاپھر ازخودہرے بھرے سبزے اگ آتے ہیں ۔جن میں سے بعض تو انسانوں کے کام آتے ہیں اور بعض خشک وتر حالت میں مویشیوں کے کام آتے ہیں۔۔

٢۔انسان روۓ زمین پر اپنے آپ کو خواہ کتناہی بڑا عقل مند اور ساٸنس داں تصور کربیٹھے ۔مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک دانا نہیں اگا سکتا۔ انسانی عقل کو خیرہ کردینے والی زمین کی یہ رنگارنگی ۔یہ تو ہمارے رب کی قدرت اور مشیت کا کرشمہ ہے انسان تو خود اپنے زندہ رہنے تک کا بھی سامان پیدا نہیں کرسکتا۔۔

٣۔ہندوستان اور دنیا کے وہ علاقے جو زمینی پیداوار پر محنت کرتے ہیں ۔کھیتوں میں بیج گراتے ہیں۔ مختلف اقسام کی پیداوار کی سعی کرتے ہیں اور۔باغات لگاتے ہیں ۔وہ رب کریم کے فضل سے ہمیشہ خوش حال اور مالامال رہتے ہیں ۔اور جن خطوں کے لوگ سست اور کاہل ہیں زمین کو قابل کاشت بنانے اور غلے پیدا کرنے پر محنت نہیں کرتے ۔غربت وافلاس ۔اور تنگیوں میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ان علاقوں میں بڑھتی ہوٸی غربت اور معاشی بدحالی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ زمین سے دور ہوگٸے ہیں۔اورکاغذی پیداوار کی طرف ساری توجہ مرکوز کررکھی ہے۔بھارت میں ۔پنجاب ہریانہ۔مغربی یوپی اور گنگا ندی کے کنارے آباد لوگوں کی خوش حالی کی ایک وجہ ان کا زمین سے جڑنا اور زمینی پیداوار پر محنت بھی ہے۔

٤۔بہار بنگال ۔آسام ۔مشرقی یوپی کے لوگوں کوبھی چاہٸے کہ وہ زمینی پیداوار اور ایگریکلچراور باغبانی پر توجہ مرکوز کریں ۔آج سے تیس سال پہلے بہار کے لوگوں کی معاشی حالت ۔بہت اچھی تھی ۔زمینی پیداوار کی ہر گھر میں بہتات تھی ۔مگر آج زمین سے دور ہونے کی وجہ بدحالی کا شکار ہے اور دن بدن معاشی ابتری اور مساٸل میں اضافہ ہی ہوتاجارہاہے ۔۔اللہ کافضل اوراس کی مہربانی اب بھی ہے ۔زمین اب بھی غلے اگارہی ہے ۔باغات اب بھی پھل دے رہے ہیں ۔ باران رحمت اب بھی برس رہے ہیں ۔دودھ دینے والے جانوراب بھی دودھ دے رہے ہیں ۔مگرہم خود ان نعمتوں کے حصول سے کنارہ کشی اختیار کٸے ہوٸے ہیں ۔۔۔ اسلٸے دیگر ساٸنیسی اورترقیاتی اورنفع بخش تعلیم کے ساتھ ساتھ ایگریکلچر ساٸنس پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔اللھم ارنا الحق حقا

Comments are closed.