غلامی سے آزادی مفت میں نہیں ملتی

مضمون نگار: ڈاکٹر نندی تیش نیلے
ہندی سے ترجمہ: نوید احسن۔ (دوم عربی)
متعلم دارلعلوم سبیل الفلاح جالہ دربھنگہ بہار
آزادی جہد مسلسل اور مشقت سے حاصل ہوتی ہے ، جب تک ہمارے اندر شوق اور جذبہ پیدا نہیں ہوگا ہم کسی بھی میدان کے فاتح نہیں کہے جائنگے،
ایک بڑے مفکر ” لوتھر کنگ” کا ماننا ہے کہ "جب تک لوگ گھر سے نکل کر باہر نہ آئیں اس وقت تک انکو آزادی میسر نہیں ہوگی”
آرکے نارایٔن کہتے ہیں جب بھی مہاتما گاندھی گاؤں آتے تھے اور مجھے خبر ملتی کہ مہاتما گاندھی آئے ہیں میں دوڑ کر انکے پاس جاتا اور ان سے ملتا، میں جب بھی ان سے ملتا ہمارے قدم ڈگمگا رہے ہوتے تھے ایک مرتبہ گاندھی جی گاؤں سے رخصت ہو رہے تھے میں ان سےملنے گیا وہ کہ رہے تھے کہ ہم لوگ جب تک ایک ساتھ مل کر آگے نہیں بڑھیں گے اس وقت تک ہم دیش میں سکون نہیں پاسکتے ،مہاتما گاندھی جی کی ہر بات سے مجھے لگتا تھا کہ یہ ایک ہمت جواں مرد ہیں اور ہمیشہ فلاح و کامیابی کے لۓ سرگرداں اور پریشان رہتے ہیں، مہاتما نے کہا تھا ہمارے پاس جو ہے وہی غنیمت ہے اور ہمارے اندر جو کام کرتے ہیں ہم انکو سنبھال کر رکھیں یہی کافی ہے
آزادی کے لۓ دوسروں کو سمجھنا ضروری ہے،
ہمارے ساتھ جب کبھی حادثہ ہوتا ہے یا کسی دقتوں کا سامنا ہوتا ہے وہ اس لئے ہوتا ہے کہ ہم لوگوں کو سمجھ نہیں پاتے ہیں، وہ کیسا مزاج رکھتا ہے لیڈر بننے کے لۓ آپ کو لوگوں کا مزاج سمجھنا ضروری ہوتا ہے،،،،
انا سے آزادی ضروری،
جب ہم دیش کی عوام کو آزادی دیکھانے لے جا رہے ہوں تب ہمیں اپنے چھوٹے، بڑے سب کا خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے اپنے” انا "کو بیچ میں لاکر ہم چھوٹوں کی توہین نہ کریں نہیں تو عوامی اختلاف ہونے کی وجہ کر ہم اپنے منزل مقصود کو آسانی سے نہیں دیکھ سکتے ہیں، دیش کو ایسے لوگوں کی ضرورت ہوتی ہےجن کے پاس دکھ سمجھنے والا دل ہو ایسے ہی لوگ تھے دیش میں جو دیش کا ایک اہم حصہ تھے جنہوں نے دیش کی آزادی کے پیچھے اپنی زندگی لگا دی جنہوں نے دیش کو ایک اچھی زندگی بخشی جنہیں ہم آزادی کے نام سے جانتے ہیں
Comments are closed.