ڈاکٹر عبد القادر شمس : آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے

✒️ : عین الحق امینی قاسمی
ہر دن کے حساب سے ذاتی طور پر حادثہ گہرا ہوتا جارہا ہے ،ابھی حال میں پہونچےصدمے ہی کیا کم تھے کہ ڈاکٹر عبد القادر شمس بھی ساتھ چھوڑ گئے ،ظاہری اسباب کے طور پر جب پوزیٹو رپورٹ نگیٹو آگئی ،پلازمہ بھی چڑھا دیا گیا تب ان کو رو بہ صحت ہونا چاہئےتھا ،لیکن کیا کہئے کہ ہارٹ اٹیک اور دل کا دورہ پڑنا بھی تو بیماری ہے ،ان سے چھٹکارہ انہیں نہ مل سکااور بالآ خر وہ دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے داعی اجل کو لبیک کہہ گئے ۔اپنے پیچھے اہلیہ ،ایک لڑکا اور تین لڑکی
اما نت کے طور پر دنیا گذاری کی یاد میں وہ چھوڑ گئے ہیں ،لیکن سچ پوچھئے تو کل 48/برس کی عمر میں وہ انگنت یادیں دے گئے،ملی کونسل سے ان کی عملی وتحریکی زندگی کا آغاز ہوا تھا اور روزنامہ راشٹریہ سہارا کی سب ایڈٹری پر ختم ہوگئی ۔ان جیسوں کی جد وجہد اور افکار کی لوگوں کو اب ضرورت پڑتی ،وہ اب اپنے پاؤں پہ کھڑے ہوئے تھے، لوگ اب انہیں جاننے لگے تھے اور یوں بھی وہ ناموں کی تشہیر سے زیادہ کام پر یقین رکھنے والے انسان تھے ،وہ بالکل کھائی سے سطح پر آئے تھے،ان کا کام بولنے لگا تھا ،اس درمیان ان کی کئی عدد تحریری مجموعہ بھی آچکا ہے ،انہوں نے دارالعلوم دیوبند کے بعدجن دو عظیم المرتبت شخصیتوں سے زندگی کے گن سیکھے تھے ان میں ایک بڑا نام قاضی القضاۃمولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی مرحوم سابق صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اور دوسری ہستی محسن ملت مولانا محمد اسرا ر الحق قاسمی رحمہ اللہ سابق صدر تعلیمی وملی فاؤنڈیشن دہلی کی تھی ۔
ڈاکٹر صاحب موصوف سادہ مزاج اور خوگر علم مطالعہ تھے، کم وقت میں انہوں نے جو بلندیاں پائی تھیں وہ محض ذاتی صلاحیت کے بل بوتے ،ان کا قلم اچھا تھا ،کبھی من وعن ،کبھی بےباک قلم ،تو کبھی رشحات قلم اور کبھی تجزیہ وتبصرہ کے لہجے میں ملک سے نکلنے والے مختلف اخبارات خاص طور پر روزنامہ راشٹریہ سہارا اردو کے کالم نگار اور سچے صحافی تھے ،ان کو دیکھنے سے زیادہ ان کی تحریر وں سے ان کےبلند افکار اور آنے والے دنوں میں ان کی روشن خیالی کا اندازہ ہوتا تھا ،دیکھنے میں جتنے وہ بھولے تھے ،ملی وسماجی کاموں کے لئے اپنے سینے میں وہ اتنا ہی زیادہ دردر رکھتے تھے ،گفتگو میں مٹھاس تھا ،مدرسے کے پڑھے ہوئے تھے اس لئے کچھ زیادہ ہی تواضع بھی تھا ،اس لیے جتنے روشن امکانات کے وہ مالک تھے ،سادگی اور شرافت نے دیر سے ابھر نے کا موقع دیا ،ہمہ شما تو کا ظرف تو اس سے بہت کم میں ہی چھلکنا شروع کردیتا ہے ،کسی دانا نے سچ کہا ہے کہ:
کہہ رہا ہے موج دریا سے سمندر کا سکوت ۔جس میں جتنا ظرف ہے اتنا ہی وہ خاموش ہے
یہ شعر مولانا کی زندگی کا عکس بیان کرتا ہے ،وہ سچ مچ خاموش مزاجی کے ساتھ منزل کی طرف رواں دواں رہتے تھے،وہ کام کے دھنی انسان تھے ،جسم وجان اور بال وکھال پر توجہ دینے کی ان کو فرصت کہاں ،وہ مشن اور پالیسی ساز ذہن کے مالک تھے ،وہ پلاننگ کو اولیت کے خانے میں رکھتے تھے، علم پرور کو حسب مراتب کبھی چھوٹا بھائی تو کبھی دوست اور کبھی استاذ مان لینے میں دل کشادہ رکھتے تھے اور سبھوں سے ٹوٹ کر ملتے اور دیر تک محبت و مہربانی کرتے رہتے تھے ۔مولانا ڈاکٹر عبد القادر شمس قاسمی کی زندگی سے متعلق چند جزوی چیزوں کو الگ کر کے انہیں اگر دیکھا جائے تو وہ بالیقین متعدد خوبیوں کے مالک تھے ،وہ اگر چہ اب ہمارے درمیان نہیں رہے مگر ان کی خوبیاں یوں گویا ہیں :
ہم نے مانا ہمیں برباد کرے گی دنیا کر کے برباد مگر یاد کرے گی دنیا
جب اسے ظلم و ستم ہی میں مزہ آتا ہے۔ کسی ناشاد کو کیا شاد کرے گی دنیا
دیکھنا یہ ہے کہ ہم اہل جنوں پر کب تک نت نئے طرز کی بیداد کرے گی دنیا
آج تو اپنی کرامات پہ اتراتی ہے کل مگر آپ ہی فریاد کرے گی دنیا
دشمنی ہے اسے ارباب وفا سے لیکن یہ نہ ہوں گے تو انہیں یاد کرے گی دنیا
۔کائنات کے ذروں کو وجود بخشنے والے رب سے دعا ہے کہ وہ ان کے درجات کو بلند کرے ،اپنا قرب بخشے اور ان کے بچوں کو حوصلہ دے اور آسان روشن راہ پر گامزن رکھے ۔
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے
…………………………………………..
*معہد عائشہ الصدیقہ رحمانی نگر کھاتوپور بیگوسرائے
Comments are closed.