محرم الحرام کی مروجہ بدعات وخرافات:ایک تحقیقی جائزہ!

محمد فیروز عالم علائی
چیف ایڈیٹر:قلم کی جسارت

مذہب اور رسوم دونوں کا تعلق حیاتِ انسانی سے ہے ۔مذہب ایک ایسے خاص رنگ میں رنگا ہواہے جو انسانی زندگی کی تصویر پیش کرتا ہے ۔اسی لیے مذہب اور رسوم کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے بلکہ بہت سے رسوم مذہب پر مبنی ہوتے ہیں ۔مثلا رسم و رواج کی بنیاد قرآن مجید کی اس آیت سے مفہوم ہو سکتی ہے ۔” عفوہ و درگزر سے کام لیں اور جاہلوں سے نہ الجھیں "
عرف عام میں مفسرین کے نزدیک وہ تمام عقلی و رواجی، اچھی باتیں داخل ہیں جو مذہب اسلام کے بنیادی اصول کے خلاف نہ ہوں اور اس کے خلاف ہوں گی تو ان کو تسلیم نہیں کیا جائے گا ۔
اسلام سرزمین عرب میں طلوع ہوا جب تک وہاں کی حدود میں رہا تب تک محدود رہا ،اس وقت تک مسلم سماج و سوسائٹی ،معاشرہ اور ان کی طرز زندگی بالکل سیدھا سادہ پاک وصاف اور ہر قسم کی رسومات و خرافات سے محفوظ رہا۔
عرب سے نکلتے ہی جیسے دوسرے ملکوں میں پہنچا تو وہاں کی تہذیب و ثقافت کا اثر اسلام میں بڑھنا شروع ہوگیا خصوصاً سر زمین ہند ! کیوں کے ہندوستان میں بے شمار قوموں کے اختلاف اور تہذیبوں کے ملاپ سے مختلف رسوم نے جنم لیا ۔برصغیر میں آنے والے مسلمان مختلف ملکوں سے تعلق رکھتے تھے ان میں پائے جانے والے رسومات و خرافات بھی مختلف تھے ۔کسی کا یومیہ تو کسی کا ماہانہ تو کسی کا سالانہ، نہ یہ معاملات ان کی زندگی کا حصہ بن سکے اور نہ ان کے معاملات ان کی زندگی کا جز بن سکے ۔یہ بڑے ہی اہتمام کے ساتھ ان رسومات کو ادا کرتے رہے
مروجہ بدعات وخرافات:
ماہ محرم الحرام کے اندر پائی جانے والی غلط رسومات و خرافات اور بدعات ہیں جن کے سبب اس ماہ مقدس کی نہ صرف بے حرمتی ہوتی ہے بلکہ اسلامی اقدار کا کھل کر مذاق بھی اڑایا جاتا ہے نیز شہدائے کربلا کی یاد منانے کی آڑ میں ایسے غیر شرعی کام سر انجام دیے جاتے ہیں جو اسلامی تعلیمات کے سراسر منافی ہیں۔
چنانچہ لوگ ۔۔۔۔۔۔!محرم کا چاند دیکھتے ہی اور بالخصوص دس محرم الحرام میں نام و نہاد محبت کی بنیاد پر سیاہ کپڑا زیب تن کرتے ہیں، سیاہ جھنڈا بلند کرتے اور تعزیہ بناکر شہر شہر، گاؤں گاؤں نوحہ و ماتم کرتے پھرتے ہیں پھر اس کے سامنے سجدہ کرنا، بچوں کو محرم کا فقیر بنا کر بھیک منگوانا ،فضول خرچ کرنا ،ماتم کرنا ،کپڑے پھاڑنا ،نوحہ کرنا، رونا ،سینہ و چھاتی پیٹنا، ناچنا ،کودنا ، رقص کرنا ،مردو عورت کا ایک ساتھ مجلس ومحافل میں بیٹھنا، جھوٹے واقعات بیان کرنا، امام قاسم کی مہندی رچانا، حضرت علی، حسنین کریمین یا دیگر بزرگوں کی تصاویر بنانا، ان کے سامنے سجدہ کر نا، احترام کرنا ان کو حقیقت کا رنگ دینا،اس ماہ برکت میں شادی بیاہ اور دیگر تقریبات کو ممنوع ، نحوست سمجھنا اور اس طرح کے دیگر خرافات کا برصغیر میں منایا جانا ، اہل فکر کے لئے
ایک لمحہ فکریہ ہے۔
یہ سب من گھڑت اور بدعات و خرافات پر مبنی افعال ہیں جو کہ تعلیمی میدان سے دوری ، لاعلمی کے شکار کے سبب ہیں۔
تحقیقی جائزہ:
ان خرافات کے سلسلے میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتےہیں:” اے بنی آدم تم نے اسلام کو بدل ڈالنے والی بہت سی رسمیں اپنا رکھی ہے مثلا تم دسویں محرم کو باطل قسم کے ا جتماع کرتے ہو کئی لوگوں نے اس دن کو نوحہ ماتم کا دن بنا لیا ہے حالانکہ اللہ کی مشیت سے حادثے ہمیشہ رونما ہوتے رہتے ہیں،سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالی اس دن مظلوم شہید کیے گئے، تو وہ کون سا دن ہے جس میں کوئی نہ کوئی اللہ کا نیک بندہ فوت نہیں ہوتا لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ سانحہ شہادت کو کھیل کود کی چیز بنا لیا، تم نے ماتم کو عید کے تہوار کے طور پر بنا لیا گویا اس دین زیادہ کھانا پینا فرض ہے اور نمازوں کا تمہیں کوئی خیال نہیں جو کہ فرض عین ہے، ان کو تم نے ضائع کر دیا ہے، یہ لوگ من گھڑت کاموں میں مشغول رہتے ہیں، جان بوجھ کر نمازیں ضائع کر رہے ہیں اس کی کوئی فکر نہیں ہے "
حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں: ” یہ ( ماتمی مجالس وغیرہ ) کی رسمیں اسلام میں ان کی کوئی ضرورت نہیں، واقع اگر یہ اچھی چیز ہوتی تو خیر القرون اور اس کے ابتدائی اور بہتر زمانے کے لوگ اس کو ضرور کرتے وہ اس کے سب سے زیادہ اہل تھے ( البدایہ والنہایہ)
حضرت امام احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمۃ فرماتےہیں:
کہ رافضیوں (یعنی دشمنانِ صحابہ ) کی مجلس میں مسلمانوں کو جانا، مرثیہ یعنی نوحہ سننا حرام ہے، ان کی نیاز کی چیز نہ لی جائے یہ نیاز نہیں
وہ غالب نجاست سے خالی نہیں ہوتی کم از کم ان کے ‌ ناپاک قلتین کا پانی ضرور ہوتا ہے اور وہاں کی حاضری سخت ممنوع ہے، اس میں شرکت موجب لعنت ہے۔ محرم الحرام میں سبز اور سیاہ کپڑے علامت سو گ ہیں اور (اسلام میں صرف تین دن سوگ ہے جو کہ کربلا کے بعد مسلمانوں نے منا لیا) اور سوگ حرام ہے ( فتاویٰ رضویہ جدید ایڈیشن ، ٢٣ ج ۔ص ٧٥٦)
قارئین ! یہ قانون تو اٹل ہے کہ اس دار فانی سے ہر ایک کو کوچ کرنا ہے، اور ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے ،اور اس سے کسی کو چھٹکارا نہیں، چاہے نبی ہو یا ولی ۔۔
لیکن بعض اموات کے واقعات کچھ ایسے ہوتے ہیں جن کا ہولناک منظر دیکھ کر روحیں کانپ جاتی ہیں ،جسم تھم جاتا ہے ،قلم رک جاتا ہے ،حزن و ملال کی داستان خون کے آنسو رلاتی ہے ،انہیں داستانوں میں ایک داستان جو کہ سب پر بھاری ہے وہ کربلا کی تاریخ ہے، جس نے اسلام کی آبرو کو بچا یا ،نبی کے دن کو گھر گھر پھیلا یا،دشمنان اسلام کےناپاک عزائم و مقاصد کو نیست و نابود کر دیا،مورخین کی روح پکار اٹھیں:
قتلِ حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
حرف آخر:محترم قارئین! آیئیے محرم الحرام کے مبارک و مسعود موقع پر ہم حسینی عہد کریں کہ محرم الحرام کی مروجہ بدعات وخرافات کاخاتمہ ہوں، حسینی پیغام عام ہوں اور ان کے فیوض وبرکات ہم سب مالامال ہوں۔ ۔

Comments are closed.